اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

2021میں مکالمےکادرکھولنے کی ضرورت۔۔۔رازش لیاقت پوری

یہ 15دسمبر کی بات ھے۔نصیر احمد ناصر اس وقت پریس کلب بہاولپور کے صدر ہیں،نظریاتی طور پر جماعت اسلامی کے ہونے کے باوجود ہم ایسے ادبی اور ثقافتی سوچ رکھنے والے بندوں سے پیارہمیں بھی ان کے قریب کرچکا ہے،

رازش لیاقت پوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 15دسمبر کی بات ھے۔نصیر احمد ناصر اس وقت پریس کلب بہاولپور کے صدر ہیں،نظریاتی طور پر جماعت اسلامی کے ہونے کے باوجود ہم ایسے ادبی اور ثقافتی سوچ رکھنے والے بندوں سے پیارہمیں بھی ان کے قریب کرچکا ہے،

گذشتہ دنوں پریس کلب میں الصادق کارنر کا اضافہ کیا تو ہمیں اچھا لگا،وہ چاہتے تو اسے قاضی حسین احمد کارنر یاکوئی اور نام بھی دے سکتے تھے مگر دھرتی سے وفا نبھاتے ہوئے اسے نواب آف بہاولپور کے نام سے منسوب کرکے ہم ایسے کئی لوگوں کے دل جیتے،

 

کارنر کی افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر دی اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب،ایڈیشنل کمشنر ریونیو مہر خالد،کالم نگارمحترمہ سمیرا ملک سمیت کئی اہم لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی مدعو کیا تو دوستوں کے ساتھ ہم بھی تقریب میں پہنچ گئے،یہاں پہنچ کرہمیں احساس ہوا کہ صحافی دوست کتنے مسائل کا شکار ہیں،

 

اس میں شاید ان کا اپنابھی قصور ہے کہ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو اپڈیٹ نہیں کیا،بہرحال وائس چانسلر کا شکریہ کہ انہوں نے صحافیوں کی مزید ٹریننگ اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے پریس کلب سے ایم او یو کیا تاکہ سوچنے،سمجھنے اور لکھنے لکھانے والا یہ طبقہ ترقی اور سوچ کی تبدیلی کی دوڑ میں کہیں پیچھے نہ رہ جائے

ویسے حکومت اکثر اداروں کو فنڈز دے رہی ہے مگر پریس کلبزکو نظر انداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے،صحافی برادری کی یہ یاد گار تقریب جس کی نظامت ہر دل عزیز اطہر لاشاری کے ذمے تھی کئی سوال چھوڑ کر اختتام پذیر ہوئی تو ہم بہاولپور کی ایک اہم شخصیت سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے،

آنگن میں موجودکینوں کے ایک بڑے پودے پر لگے سینکڑوں پیلے پیلے کینوؤں نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا،مہمان خانے کے دروازے پر محترم شہاب دہلوی کے فرزندمعروف تاریخ دان ومیزبان شاہد رضوی نے ہمارا استقبال کیا،بیٹھنے سے قبل ہم نے انہیں ایک عدد ”میرا عشق ہے پاکستان“شیلڈ کے ساتھ ساتھ انہیں پھولوں کا گلدستہ پیس کیا،

ایسی ہی شیلڈ اور گلدستہ ہم نے ریٹائر منٹ کے قریب معروف لکھاری ریاض الحق بھٹی کو بھی پیش کی،بدلے میں انہوں نے کہا کہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ بہاولپور کے کئی لکھاریوں کی امداد کی درخواستیں حکومت پنجاب کو کئی ماہ قبل بھیج چکے مگر ابھی تک منظور ہی نہیں ہوئیں،

دعا ہے کہ ریٹائرمنٹ سے قبل منظور ہوجائیں تاکہ اپنے ہاتھوں سے چیک ان کے حوالے کرکے جاؤں تاکہ دل مطمئین رہے کہ بہاولپوریوں کے لئے کچھ کرکے جارہا ہوں،خیر بیٹھتے ہی چائے اور میٹھائی بھی پہنچ گئی جبکہ ہم چارجر ڈھونڈنے لگے تاکہ اپنا موبائل چارج کرسکیں ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یار یہ انگریز بھی کتنے ذہین ہیں کہ ایسی ایسی ایجادات لیکر آرہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ہم مسلمان صرف باتیں کرتے رہتے ہیں عملی اورذہنی طور پر مفلوج ہوچکے ہیں،

جبکہ ہم پاکستانی ماضی کو کریدتے رہتے ہیں جیسے محمود اچک زئی نے لاہور میں لاہوریوں اور کراچی میں اردو بولنے والوں کو رگید کر خود کو معتبر ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان پشتونوں نے سندھ وادی میں ایسے ایسے گل کھلائے،

اتنے حملے کئے کہ لکھنے بیٹھ جائیں تو کئی کتابیں نکلیں گی،یہاں اکمل شاہد بولے کہ”بھرا“ یہ لمبی بحث ہے اس کے لئے لمبا وقت درکار ہوگا،ساتھ یہ بھی کہا کہ ہاں ملک میں یہ جو ڈائیلاگ کی باتیں چل رہی ہیں اگر میڈیا مثبت بحث کا آغاز کرے تو بہت ہی اچھا ہوگا،یہاں مزمل اقبال نے تجویز دی کہ اب آ پ ”متوازن پاکستان کے بعد متوازن دنیا“کے عنوان سے کتاب لکھیں تاکہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مکالمے کا در کھلے

کیونکہ اب کورونا نے پوری دنیا کو ایک کردیا ہے اس لئے اب صرف پاکستان ہی کو نہیں پوری دنیا کو نئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے،یہاں طاہر چودھری بولے کہ پوری دنیا کو بعد میں دیکھیں ابھی تو صرف پاکستان کا سوچیں کیونکہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرلیں بعد میں ساری دنیا،اتنے میں شاہد رضوی بھی ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرکے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔

ایک مرتبہ میں پھر بولا کہ رضوی صاحب جب بہاولپوری اپنے صوبے کی تحریک چلا رہے تھے اس وقت سرائیکی صوبے کی کوئی تحریک ہی نہیں تھی تو یہاں آباد کاروں نے طارق بشیر چیمہ کے والد کی قیادت میں بہاولپور صوبے کی مخالف کیوں کی؟

تو شاہد رضوی بولے نہیں سارے پنجابی بہاولپور صوبے کے مخالف نہیں تھے اکثریت حق میں تھی،اب بھی بہاولپوریوں کو اس کا حق ملنا چاہیئے تو میں نے کہا کہ بھارت تقسیم کے وقت بھی سابق ریاست بہاولپور کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا خواہشمند تھا،

اب بھی ان کے دل میں یہ خواہش موجود ہوگی،اگر یہ تین اضلاع الگ صوبہ بن گئے تو بھارت آسانی سے ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے،دوسرا نوابوں کی اولادیں بھی اپنی جائیدادوں،زمینوں اور محلوں کا کلیم کریں گی،ایک نہ ختم ہونے والا پنڈورابکس کھل سکتا ہے کیوں نہ اب پیچھے کے بجائے آگے کی جانب سفر کیا جائے،

جلال پور کے قریب کافی سرکاری خالی زمین پڑی ہے یہاں ایک ہی سکرٹریٹ بنادیا جائے تاکہ کسی کو کوئی اعتراض ہی نہ رہے،دوسرا سندھی،پشتون اور بلوچ ہمیں دوصوبے نہیں دیں گے یہ تو صرف پنجابیوں (لاہوریوں)کی شرارت ہے کہ دوصوبوں کی بات کرکے پنجاب کی تقسیم کا راستہ روکا جائے،

یوں ملتانی اور بہاولپوری آپس میں لڑتے رہے تو اس کا نقصان صرف پاکستان اور پاکستانیت کا ہوگا کہ غیر متوازن پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا،یہاں شاہد رضوی نے تجویز دی کہ کیوں نہ ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے اس سے اختیارات نیچے تک جانے سے عوام کو زیادہ فائدہ ہوگا،

اس سے لسانیت سمیت تمام چھوٹے بڑے تنازعات بھی ختم ہوسکتے ہیں،فنڈز کی متوازن تقسیم سے پورا پاکستان برابری کی بنیاد پر ترقی کرسکتا ہے پھر کوئی بھی ایک دوسرے سے شکوے نہیں کرے گا،کسی ایک قوم،ایک طبقے اور ایک علاقے کا ملکی وسائل پر قبضہ بھی نہیں ہوگا،

یہاں میں بولا کہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ فوج ہی رہ گیا ہے اور یہی ایسا ادارہ ہے جوملک کو مضبوطی سے باندھ کررکھ سکتا کیوں نہ اس میں پوسٹنگ،بھرتیوں اور دوسرے معاملات میں شعوری فیصلے کئے جائیں تاکہ اس اہم ادارے پر الزام لگانے والوں کے منہ بھی بند کئے جاسکیں،سب سے اہم بات کہ اب پاکستان کوپوری دنیا کے ہم پلہ بنانے کے لئے کئی شعوری فیصلے کرنے پڑیں گے ورنہ صرف اقتدار کی بندر بانٹ کے لئے ڈائیلاگ کی کوئی ضرورت نہیں،

دوسرا سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی ڈائیلاگ کا در کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ ان جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت پنپ سکے یوں ملک بھر کے تمام اداروں کے اندر بہتری کے لئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس طرح کورونا پوری دنیا میں تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے

ایسی تبدیلیاں پاکستان کے لئے بھی ضروری ہیں کہ کوئی کروڑوں،اربوں اور جاگیروں کا مالک بن گیا اور کوئی دردر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے رہ گیا ہے جس طرح پاکستان میں ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کی گئی ہے یہی ڈائیلاگ اب پوری دنیا کو کرنا ہوگا کیونکہ رب نے اپنے وسائل بلاتفریق سب کے لئے مہیا کئے ہیں مگر انسانوں نے اپنی اپنی اٹکل اور چالاکی استعمال کرکے ان وسائل کا رخ اپنی اپنی طرف موڑ رکھا ہے جس سے پوری دنیا غیر متوازن ہوچکی ہے،

اب پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو متوازن اوراسے سب کے لئے قابل قبول بنانا وقت کی ضرورت ہے ورنہ ایک دن پوری دنیا کے انسان وینٹی لیٹرپر ہوں گے پھر بچانے والا کوئی نہیں ہوگااس لئے ڈائیلاگ میں تاخیر نہیں ہونی چاہیئے آخر میں رفعت عباس کا شعر(ایں جگ دے بھرے کٹورے وچ ساڈا عشق گلاب تاں ڈیکھو میاں)کٹورے کی ماننداس دنیا میں عشق کے جو پھول ہم نے کھلائے ہیں اسے پوری دنیا کو دیکھنا چاہیئے

یہ بھی پڑھیے: 

ازہر منیر کی آخری قسط جھوٹ کا پلندہ ۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیلی سویل بیٹھک: لون دا جیون گھر۔۔ناول رفعت عباس ۔۔چوتھی دری

 

 

%d bloggers like this: