اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیخ رشید احمد۔۔۔حیدر جاوید سید

ہم نے جناب شیخ کی کتاب زندگی کے چند اوراق الٹے،عامر حسین نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا پھر ان کی آنکھوں اور چہرے پر یقین و اطمینان کے سائے لہرائے۔ عامر حسینی واپس خانیوال پہنچے اور جناب شیخ کی کتاب زندگی کے ان اوراق کو سوشل میڈیا پر سجادیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند برس ہوتے ہیں (اُن دنوں میں ملتان میں ہی مقیم تھا) غریب خانہ پر سجی ایک نشست میں برادر عزیز عامر حسینی اور ایک دو دوست شریک تھے۔ باتوں باتوں میں شیخ رشید احمد کا ذکر چھڑ گیا۔ ہم نے جناب شیخ کی کتاب زندگی کے چند اوراق الٹے،عامر حسین نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا پھر ان کی آنکھوں اور چہرے پر یقین و اطمینان کے سائے لہرائے۔ عامر حسینی واپس خانیوال پہنچے اور جناب شیخ کی کتاب زندگی کے ان اوراق کو سوشل میڈیا پر سجادیا۔
انہیں فون کیا اور کہا برادرم ابھی وقت نہیں آیا ان اوراق کولوگوں کے سامنے رکھنے کا۔ کتاب زندگی تحریر کرنے کا ارادہ ہے سارا قصہ اس میں لکھوں گا صرف یہی نہیں اور بھی چند قصے ہیں۔ وہ مان گئے اور تحریر سوشل میڈیا سے ہٹادی۔
آج عامر حسینی ملنے کے لئے ’’بدلتا زمانہ‘‘ کے دفتر آئے تو میں اداریہ لکھ رہا تھا زیادہ گپ شپ نہیں ہوئی ورنہ میں انہیں بتاتا کہ ایک بار گارڈن کالج کے پرنسپل نے شیخ (اس وقت تک شیخ نہیں بنے تھے) کے والد کو خط لکھا تھا اس میں گلے شکوے تھے اور کچھ ناگفتنی باتیں بھی تھیں۔
آپ بھی سوچیں گے کہ یہ شیخ رشید کا ذکر کیسے آگیا۔ کچھ دیر قبل وہ ٹی وی چینلوں پر کہہ رہےتھے، پی ڈی ایم باز آجائے ورنہ قانون اپنی حاکمیت منوانے کاطریقہ جانتا ہے۔
یہی حضرت تھے، پچھلے دور میں تحریک انصاف کے کنٹینر پر چڑھ کر جو منہ میں آتا تھا کہتے پھرتے تھے کبھی کبھی تو عوام کو ’’اکساتے رہتے تھے
‘‘ اٹھو، جلادو، گرادو، ماردو مرجاو‘‘
اب ان سے پرامن سیاسی سرگرمیاں برداشت نہیں ہوتیں۔ شیخ سیاست کے میدان کے پرعزم کارکن اور کھلاڑی کبھی نہیں رہے۔ اوائل عمری سے سازشوں، جعلسازی اور درباریت پر یقین رکھتے ہیں۔
کبھی کبھی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں (شیخ) مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن مغربی و مشرقی پاکستان کا صدر رہا ہوں۔
مطالعے اور تاریخ سے پیدل چھاتہ بردار اینکرز سامنے بیٹھے سردُھن رہے ہوتے ہیں۔
مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنی ہی سال 1976ء میں تھی اب جو تنظیم بنی ہی 1976ء میں ہو یہ حضرت 1970ء میں اس کے کل پاکستان کے صدر کیسے بن گئے
حالانکہ 1976ء میں وہ اسی تنظیم کے چودھری ظہور الٰہی کی معرفت پنجاب کا صدر بننے مسلم لیگ ہاوس ڈیوس روڈ لاہور آئے تھے لیکن پھر دستبرداری لکھ کر پتلی گلی سے نکل گئے۔
دستبرداری کیوں لکھی وجہ کیا تھی؟ ابتدائی سطور میں لکھا قصہ اسی پس منظر میں ہے۔
عامر حسینی سمیت بہت سارے دوست بلکہ ایک برادر محترم اور محب مکرم مجھے اکثر اس بات پر آماد کرتے رہتے ہیں کہ سفر حیات کی داستان رقم کردو میں بھی وعدہ کرلیتا ہوں۔کچھ عرصہ قبل سفر حیات کے ایک حصہ پر 35اقساط لکھیں بس پھر سلسلہ رُک گیا۔ اب سوچ رہا ہوں ایفائے وعدہ کر ہی ڈالوں تاکہ پچھلی ساڑھے پانچ دہائیوں کی تلخ و شیریں یادیں کتابی صورت میں جمع ہوجائیں اور ہمارے بعد کی نسلوں تک تاریخ کی امانت پہنچ جائے۔
شیخ رشید سے بات شروع ہوئی انہی کے گرد گھوم رہی ہے۔ سال 1990ء میں جب ’’زنجیر‘‘ کا ایڈیٹر بنا تو اس کے ایک شمارے میں گارڈن کالج کے پرنسپل کا وہ شاہکار خط شائع کیا تھا۔ رزق سے بندھی ہجرتیں قلم مزدور کو شہر شہر لئے پھریں اس لئے ریکارڈ جمع نہ رہ سکا کچھ جمع تھا تو ایک دن ہماری خاتون اول کے چپڑاسی نے ردی سمجھ کر بیچ ڈالا۔ ہم اس وقت بیرون ملک تھے واپس لوٹے تو اس صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔
ردی کے طور پر فروخت ہونے والے خزانے میں سال 1973ء سے 1990ء کے درمیان لکھی اپنی تحریروں والے اخبارات و جرائد کے علاوہ تاریخ کے ریکارڈ کے طور پر بہت کچھ تھا۔ کاش اس وقت سوشل میڈیا ہوتا تو کچھ نہ کچھ محفوظ ہوجاتا۔
اب تو چراغ لے کر بھی تلاش کریں تو کچھ نہیں ملنے کا۔
ارے شیخ پھر درمیان میں ہی رہ گیا۔ یہ ہماری سیاست کا دلچسپ کردار ہے اس کی ذہنی ساخت اور سیاسی حیثیت کو کوئی سمجھ پایا تو وہ مرحوم سید شاہ علی مردان شاہ پیر پگاڑا تھے۔
ایک دن لاہور میں مخدوم زادہ سید حسن محمود مرحوم (سیدی اس وقت حیات تھے) شیخ ،پیر پگاڑا سے ملنے آیا اور حسب عادت ڈینگیں مارنے لگا۔ پیر پگاڑا پہلے تو سنتے رہے پھر بولے
’’سائیں کیا قصے سنارہے ہو تم جس صوبیدار میجر سے فوارہ چوک راجہ بازار کے ہوٹل میں روزانہ شام کو ملتے ہو ہم اس ملاقات کی گفتگو سے بھی واقف ہیں‘‘
پیر پگاڑا کی اس بات کے بعد شیخ نصف گھنٹہ مزید وہاں موجود رہا لیکن پھر اپنے جی ایچ کیو کے اندر کے تعلقات کی بڑھک نہیں ماری۔
پیر پگاڑا کہا کرتے تھے یہ مستقل مخبروں کے ٹولے کا ادنیٰ سا رکن ہے۔
خیر چھوڑیں پاکستانی سیاست کے کامیاب کردار ایسے ہی لوگ ہیں جو سینہ ٹھونک کر اپنے دونمبری ہونے کا اعلان کریں اور داد پائیں۔
شیخ آجکل ریلوے کے وزیر ہیں مشرف دور میں وہ اس وزارت کا بیڑا غرق کرکے گئے تھے، نئی ٹرینیں چلانے اور شہرت کے شوقین شیخ کو ساری دنیا بارے معلوم ہوتا ہے ماسوائے اپنی وزارت کے۔ کبھی عمران خان کہتے تھے اللہ مجھے شیخ جیسا کامیاب سیاستدان نہ بنائے اور یہ کہ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں شیخ کو چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔
شیخ آجکل عمران خان کابینہ میں وزیر ہے اور تاثر یہ دیتا رہتا ہے کہ پی ٹی آئی اس کی وجہ سے اقتدار میں آئی ہے۔ ان دنوں شیخ پی ڈی ایم پر گرجتے برستے صبح شام کرتا ہے۔
ہمارے دوست راجہ حسن سلیم کہا کرتے تھے میں نے زندگی میں اس سے بڑا مفت بر نہیں دیکھا۔

%d bloggers like this: