اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اردو ادب اورسماج میں عورت کا کردار! ۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پینتیس چالیس سالہ دبلی پتلی، گہری سانولی رنگت، قدرے اونچے دانت، کپڑے پرانے مگر صاف ستھری، دھیمی آواز مگر صاف اردو بولنے والی حنیفاں بی بی، ہماری شہر بانو کی پہلی آیا!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روز ازل سے انسانی معاشرے کا تانا بانا جن بنیادوں پہ بنا گیا ان میں طبقات، زبانوں اور پیشہ ورانہ شناخت کے علاوہ جسمانی ساخت کی تقسیم بھی شامل تھی جسم کی خصوصیات پر کی گئی تقسیم، انسانی جسمانی ساخت (اناٹومی) کی بنیاد پہ کی گئی تقسیم۔ یہ تقسیم ارتقائے حیات کے اس مرحلے پر ناگزیر تھی۔

ارتقا کی منزلوں میں جب انسان نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی تب اس نے معاشرے میں انصاف، اقدار، افکار اور افعال کے پیمانے تشکیل دیے اور یہ سب انسان کی فکر کا نتیجہ تھا۔ اس عہد میں جسمانی ساخت کی بنیاد پہ معاشی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی کردار تخلیق کر کے مرد و عورت کو تفویض کر دیے گئے۔ اب ہر دو صنف میں معاملہ تو صرف جسمانی ساخت اور حیاتیاتی بچاؤ کا تھا لیکن ہوا کچھ یوں کہ اس فرق کو پھیلا کے سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی دائروں تک پہنچا دیا گیا۔ یہاں سے مرد اور عورت کے درمیان صنفی فرق شروع ہوا اور اس کا آغاز ہزاروں برس پہلے ہوا۔

ارتقائی عمل میں جب تخلیقی دور شروع ہوا جس میں رقص، موسیقی، مصوری اور ادب شامل ہیں، اس میں مرد اور عورت کی آواز، اظہار اور لہجہ شامل تو ہوئے لیکن مختلف انداز میں۔ سمجھنا چاہیے کہ عورت اور مرد کے تخلیقی کردار میں فرق کی وجہ جسمانی ساخت یا حیاتیاتی عمل نہیں تھا بلکہ وہ کردار یا وہ شناخت تھی جس میں عورت کو مقید کیا گیا تھا، یا اس پہ مسلط کیا گیا۔ اب یہ بات عیاں ہوئی کہ جو فرق معاشی اور معاشرتی کردار میں آیا، وہ تخلیق کے اظہار میں بھی نفوذ کر گیا۔

کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

فہم و ادراک والے اذہان نے اس بات کی کھوج لگا کے نتیجہ یہ نکالا کہ انسان جسمانی ساخت یا اناٹومی کا قیدی نہیں ہے۔ دانشوروں نے کئی صدیوں پہلے یہ کہہ دیا کہ ہر دو صنف کا اختیار، استحقاق، رتبہ اور تخلیقی جوہر جسم سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ اسی لئے تاریخ کے سفر میں صدیوں پہلے سیفو، قرہ العین طاہرہ، حبہ خاتون اور میرا بائی جیسی طاقتور آوازیں ابھر کے سامنے آتی ہیں۔

عرب تاریخ کے ممکنہ طور پر مضبوط ترین شاہکار کا مرکزی کردار شہر زاد! الف لیلی کی شہرزاد ایک سائیکوپیتھ مرد کے طاقت اور اقتدار کے نشے سے برامد ہونے والے ذہنی اختلال کا علاج کرتی نظر آتی ہے اور علاج کیسے کرتی ہے؟ کہانی سے اور کہانی کیا ہے؟ ایک تخلیقی عمل!

سو ایک جابر بادشاہ کا علاج تخلیق کے عمل سے کرنے والی کون ہے؟ ایک عورت!

راجپوتانہ کے مہاراجہ رانا صاحب کے مقابلے میں جیتنے والی بھی ایک عورت ہے، میرا بائی۔ میرا بائی ایک بیوہ عورت جو اپنے حیاتیاتی رول کی وجہ سے عطا کردہ کردار کو قبول کرنے سے انکاری ہے جو یہ ماننے پہ تیار نہیں کہ عورت داسی ہے اور مرد پنڈت۔ آج رانا جی کا تعارف ان کی طرف سے میرا بائی کو بھیجنے والا زہر کا پیالہ ہی تو ہے۔

یہ بحث انسانی معاشرے کے ارتقاء میں ایک تحریک کی صورت تب شامل ہوئی جب یہ محسوس کیا گیا کہ ارتقائی عمل میں شعوری تبدیلی آنا ضروری ہے۔ پندرہویں سولہویں صدی کا فکری انقلاب اس شعوری کوشش کا حصہ تھا جس میں یہ سوچا گیا کہ ہمیں اپنی نصف آبادی کو اختیار اور معاشرت میں برابر کا حق دینا ہے کیونکہ ایک بہترین معاشرہ وہ ہے جس میں عورت فعال نظر آئے۔

اپنے معاشرے میں عورت کا طاقتور کردار سوہنی مہینوال، سسی پنوں اور مرزا صاحباں سی لوک داستانوں میں نظر آتا ہے۔

دیکھیے عمل کی طاقت کس کے پاس ہے؟ وہ جو کچے گھڑے کو تھام کے تند و تیز دریا میں اتر جاتی ہے یا وہ جو کنارے پہ کھڑا رہتا ہے؟ وہ جو تپتے صحرا میں محبوب کو ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوتی ہے؟ وہ جو محبوب کو بچانے کے لئے میدان میں اتر کے تیر چلاتی ہے یا وہ جو درخت کے نیچے سویا رہتا ہے؟

ایک بات سمجھ لیجیے، بات اونچ نیچ کی نہیں ہے، بات عورت کی صلاحیت کی برابری اور اس کو تسلیم کر کے عورت کو برابر کا رتبہ دیے جانے کی ہے۔

جب وقت لفظ کی بنت سے ترتیب دیے جانے والے ادب کی حدود میں داخل ہوا تو وہ معاشی اور معاشرتی کردار جس میں عورت کو مقید کیا تھا، وہ ادب میں بھی موجود تھا۔
آپ دیکھیے جین آسٹن نے دھڑلے سے اپنے نام سے لکھا جو مرد کی بالادستی تسلیم کرتی ہے لیکن سوال کرنے والی عورت کو اپنا نام بدل کے جارج ایلیٹ کے نام سے لکھنا پڑا کیونکہ معاشرہ ایک عورت کے قلم سے ایسی باتیں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

توپ بھنگیوں کی۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

برصغیر میں قرہ العین حیدر کی والدہ نذر سجاد، حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی اور ڈاکٹر رشید جہاں کے نام کون نہیں جانتا۔ لیکن یہاں بھی ایک فرق سب کے سامنے آیا جب عصمت چغتائی کے ہم عصر منٹو نے دنیا جہان کے موضوعات پہ لکھا لیکن عصمت چغتائی کے موضوعات ان کے مقابلے میں نسبتاً محدود رہے۔ منٹو جیسا روشن خیال جب یہ کہہ دے کہ یہ تو نری عورت نکلی تو کیا ثابت ہوتا ہے کہ عصمت کو تخلیق کار کی بجائے عورت کے طور پہ دیکھا جا رہا ہے۔ اور منٹو کا ایک جملہ کہ عورت کی بانہوں میں کبھی نہ کبھی چوڑیوں کی کھنک آنی ہی چاہیے“ کس فکر کی جھلک دیتا ہے؟

اس سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کیا ہم قرہ العین حیدر اور عبداللہ حسین کو ناول نگار سمجھتے ہیں یا ایک مرد اور ایک عورت ناول نگار۔ اگر ایسا ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارا ذہن ابھی اتنا تربیت یافتہ ہی نہیں ہوا کہ ہم قرہ العین حیدر کو عورت کی بجائے تخلیق کار انسان کے طور پر پہچانیں۔

قیام پاکستان کی جدجہد میں رہنما کردار قائد اعظم کا ٹھہرا جنہوں نے 1938 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں عورتوں کے برابر حقوق کی بات کی۔ لیکن تقسیم کے بعد قرارداد مقاصد میں ملائیت کی بالادستی تسلیم کر کے اس مساوات سے انکار کر دیا گیا۔

اس پس منظر کا اثر پاکستانی ادیبہ پہ بھی ہوا اور پاکستانی مہر بند ادیباؤں نے مسوجنی (عورت دشمنی) کو قبول کر لیا۔ ان میں خالدہ حسین اور بانو قدسیہ جیسے نام شامل تھے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو کمتر خانوں میں رکھے جانے پہ آمنا و صدقنا کہا۔ اختلافی آوازوں میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، نور الہدی شاہ، عذرا عباس، نسیم سید، سارہ شگفتہ اور فاطمہ حسن کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

پاکستانی اردو ادب کو اس سب سے یوں نقصان پہنچا کہ عورت کا تخلیق کردہ ادب دو خانوں میں بٹ گیا، ٹکسالی ادب اور مزاحمتی ادب!

سوال یہ ہے کیا آج کی عورت ایک بڑے افق پر معاشی، معاشرتی اور سماجی بحث کا حصہ بننا چاہتی ہے یا محض عورت ہونے کی شناخت پہ اصرار؟ اپنی سوچ کو عورت ہونے کی شناخت تک محدود کرنا غیر شعوری طور پہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ پدرسری معاشرے میں عورت کو صلاحیتیوں کی بجائے صنف کی بنیاد پہ تشکیل دیے گئے خانے میں رکھے جانے پہ اعتراض نہیں۔

میں نے اپنی کتاب ”کنول پھول اور تتلیوں کے پر“ میں انہی سب سوالوں کو اٹھایا ہے۔ ممکن ہو تو کتاب پڑھ لیجیے گا۔ شاید یہ وہ روزن دیوار ہو جس سے اندھیری کوٹھڑی میں یہ علم ہو جاتا ہے کہ باہر صبح کی دستک سنائی دے رہی ہے۔
الگیوں الگیوں لٹکی رنگ برنگی انگیوں کو
لہرین لیتے جسم اور ہنستے مکھ کی لالی بھیجو نا!

(کراچی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام تیرہویں عالمی اردو کانفرنس میں پڑھا گیا)

لبرل یا لوزر؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

%d bloggers like this: