نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ادبی رنگ اور ڈیرہ کی بہاریں۔۔۔گلزار احمد

شاعروں کے لکھے گیت۔نغمہ نگاروں کی دھنیں۔گلوکاروں کی رس بھری محبت کی آوازوں میں ڈھل جاتے اور پھر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے۔ادبی رنگ اور ڈ

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔
ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں چار ماہ گرمی ۔ چار ماہ سردی۔دوماہ بہار اور دو ماہ خزاں کے موسم ہوا کرتے تھے۔آجکل ڈیرہ میں دس ماہ سخت گرمی اور دو ماہ سردی تو کم مگرگرمی نہیں ہوتی جسے اب فصل بہار کی طرح منایا جاتا ہے۔اس نومبر کے مہینے میں تو کرونا کی وارننگ کے باوجود شادیوں کا جیسے بند ٹوٹ پڑا ہے۔
کچھ ادبی سرگرمیاں بھی دسمبر میں نئی کروٹ لے رہی ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے اب ڈیرہ کی دس ماہ کی شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ ہماری زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دے گی اس لیے سارے کام ہم نے دو مہینوں میں سرانجام دینا ہیں۔ آج جمعرات کے روز انجینیر جاوید اقبال انجم سے ملاقات ہو گئی جو آجکل پشاور سیٹل ہیں اور ڈیرہ عزیزوں سے ملنے آئے ہوے ہیں۔
جاوید اقبال انجم تین کتابوں کے مصنف ہیں جن کے ٹائیٹل۔روشن کتاب ۔ شھر بے مثال ۔۔اور بزم انجم ہے۔جاوید اقبال انجم ڈیرہ کے ماہر تعلیم استاد لقمان کے پوتے ہیں اور بڑے خوش طبع سلجھے ہوئے قلمکار ہیں۔ان کی کتابوں کو پڑھکر ان شاء اللہ تبصرہ کرینگے۔
بدھ کے روز ڈیرہ اسماعیل خان شھر میں روزنامہ اعتدال کے پینل نے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ابوالمعظم ترابی کی سربراہی میں ملک کے نامور سنگر صدارتی ایوارڈ یافتہ استاد غلام عباس گل ڈیروی سے اس کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور اس کی زندگی اور موسیقی سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ پینل میں روزنامہ اعتدال کے کالم نگار وجاہت علی عمرانی۔سید ارشاد حسین شاہ ۔
گلزار احمد اور محمد زبیر بلوچ شامل تھے۔ اس موقع پر غلام عباس گل ڈیروی کے موسیقی کی دنیا میں ابتدائی شوق سے صدارتی ایوارڈ تک کے سفر کے دلچسپ پہلو زیر بحث آئے اور ملک کے موسیقی کے اساتذہ کا تفصیل سے ذکر ہوا۔پینل میں فیصلہ کیا گیا کہ اعتدال نیوز کے ٹی وی چینل پر غلام عباس گل ڈیروی کے ساتھ پروگرام کیے جائینگے تاکہ ان کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہو سکیں۔اسی بدھ کی شام سٹیشن ڈائرکٹر ریڈیو پاکستان ڈیرہ ڈاکٹر الطاف احمد شاہ کی نئی تصنیف بولتے آئینے موصول ہوئی جو افسانوں کا مجموعہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب پہلے بھی دو کتابیں لکھ چکے ہیں ایک بولتے پھول اور دوسری
Thoughts of deserts
ہے۔ڈاکٹر الطاف شاہ صاحب کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد قاریین کو آگاہ کر ینگے۔
منگل کے دن چیف ایڈیٹر روزنامہ اعتدال جناب عرفان مغل ۔ایگزیٹیو ایڈیٹر ابوالمعظم ترابی۔کالم نگار وجاہت علی عمرانی ۔ گلزار احمد ۔ زبیر بلوچ
انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر رحمت اللہ عامر اور سید ارشاد حسین شاہ نے ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کے ساتھ شام کو ایک نشست میں ان کی تازہ شائع ہونے والی کتاب جہان حیرت پر تفصیلی گفتگو کی۔ ا
س موقع پر ڈیرہ میں ادبی سرگرمیوں کو تیز کرنے سے متعلق متعدد فیصلے کیے گیے۔ دامان آرٹس کونسل کی بحالی میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ دامان آرٹس کونسل کو فوری بحال کرے تاکہ ادیبوں ۔شاعروں اور فنکاروں کو اپنے فن کے اظہار کا موقع مل سکے۔ اسی شام ملک کے ممتاز ادیب اور دانشور نثار صفدر صاحب اعتدال کے دفتر تشریف لائے اور دوستوں سے ملاقات کی۔
اتوار کے روز ممتاز ادیب ۔مورخ۔دانشور سید حفیظ گیلانی صاحب کی رہائش گاہ پر خیرات کے پروگرام میں شھر کےادیب مرد وخواتین اکٹھے ہوئے اور گفتگو کی۔ دو روز پہلے ڈیرہ میں نظم کے دو باکمال شعراء کے ساتھ ایک شام "سندھو” کے نام منعقد ہوئ جس میں جناب سلطان ناصر ۔خوشحال ناظر اور علی میمن اکٹھے بیٹھے رہے شاعری کا دریا اور باتوں کی کشتی چلتی رہی سورج ڈھلتا رہا چاند نکلتا رہا ۔ تو ڈیرہ میں دسمبر اپنے خوبصورت رنگ دکھا کے جوبن پر ہے۔
بات ڈیرہ کے چار موسموں سے شروع ہوئی تھی۔ڈیرہ کا ہر موسم اپنے اندر ایک ادا ء دلربانہ رکھتا تھا جس کو بیان کرنے کے لیے کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ایک ساون کو لے لیں۔ ڈیرہ میں ساون کا مہینہ ایک رومانس اور خوشبو کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور محبت اور الفت کی داستانیں رقم کر کے رخصت ہوتا۔شاعروں کے لکھے گیت۔نغمہ نگاروں کی دھنیں۔گلوکاروں کی رس بھری محبت کی آوازوں میں ڈھل جاتے اور پھر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے۔
ساون ہماری ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ تھا جب چوٹیوں والے سفید بادل شھر کی مشرقی طرف سے امڈے چلے آتے اور رم جھم پھوار شروع ہو جاتی ۔ باغوں میں جھولے لٹک جاتےاور کوئیل کے نغمے چار سو پھیلنے لگتے۔ ساون ہی کے مہینے درختوں پر میٹھے جامن کا پھل آتا اور ہم خطرناک درخت کی ٹہنیوں پر چڑھ کر تازہ بارش میں دھلے بہت شیریں کالے شمور جامن کھاتے۔ جامن پھل کو بیچنے والے سر پر اٹھاۓ جامن کے تھال گلیوں میں گھومتے طرح طرح کے نغمے گا کر ہوکا دیتے.

About The Author