اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنرل ضیاء الحق کے اعصاب پہ سوار پی پی پی کی مخالفت نے مذھبی عفریت کو ابھارا ۔۔۔عامر حسینی

کئی عشروں تک جنرل ضیاء الحق اور اُس کی باقیات نے تکفیری دیوبندی تنظیموں جیسے سپاہ صحابہ تھی کی حمایت کی اور اُن کی مالی امداد کی-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل ضیاء الحق کے اعصاب پہ سوار پی پی پی کی مخالفت نے مذھبی عفریت کو ابھارا
ایرانی انقلاب سے ایک سال پہلے اور بھٹو حکومت کے خلاف شب خون مارے جانے کے ایک سال بعد 1978ء میں ریاست کے حمایت یافتہ فسطائی علی بستی کراچی پر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے عقیدے کے نام پر ایک مخصوص مذھبی شناخت کے لوگوں کا قتل عام کیا- یہ کام انہوں نے امریکہ کے حمایت یافتہ آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیا-
کئی عشروں تک جنرل ضیاء الحق اور اُس کی باقیات نے تکفیری دیوبندی تنظیموں جیسے سپاہ صحابہ تھی کی حمایت کی اور اُن کی مالی امداد کی- اور یہ مدد نہ صرف اس ملک کی مذھبی غیر مسلم اقلیتیوں کی قیمت پر کی گئی بلکہ اس مدد اور حمایت نے اس ملک کی سب سے بڑی مذھبی اکثریت صوفی سُنی مسلمانوں کو بھی کمتر بنایا اور اس سے کہیں بدتر سلوک شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ہوا-
فارمولہ بہت واضح تھا- دیوبندی اور اھل حدیث فرقوں میں عسکریت پسندی کے ابھار اور اُس کے بدلے میں ایک بڑی جہادی-تکفیری سلطنت کی تعمیر نے صوفی سُنی مسلمانوں میں موجود بریلوی عنصر میں بھی ایک بڑے سیکشن کو ریڈیکلائز کردیا- جبکہ شیعہ مسلمانوں کی ایک معتدبہ تعداد کو اقتدار و طاقت کی ہوس میں بھوکے ملاؤں کے ہاتھوں میں کھیلنے کو چھوڑ دیا-
اسّی اور نوے کی پوری دہائی صوفی سُنی اور شیعہ مسلمانوں کو کمتر بنانے اور اُن پر جہادی و تکفیری عسکریت پسندی کا دباؤ بڑھائے رکھنے والی دو دہائیاں تھیں- نوے کی دہائی میں مولانا شاہ احمد نورانی سمیت کئی ایک صوفی سنی علماء و مشائخ نے اپنے اوپر دیوبندی اور اھل حدیث مسالک کے اندر سے ابھرنے والی عسکریت پسندی کو اپنے لیے خطرہ بتلایا-
نوے کی دہائی ہی میں صوفی سُنی مسلمانوں میں بریلوی سیکشن کے اندر کراچی میں پاکستان سُنی تحریک کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد سُنی مساجد اور مدراس پر دیوبندی و اھلحدیث عسکریت پسندوں کی مدد اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں قبضوں کو روکنے اور پہلے سے مقبوضہ مساجد و مدراس واگزار کرانا بتایا گیا- یہ صوفی سُنی مسلمانوں کے سخت گیر بریلوی سیکشن کی طرف سے بنائی گئی تنظیم تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب اور اندرون سندھ بھی اپنی شاخیں بنانے میں کامیاب ہوگئی- اس تنظیم کے بانی سمیت درجنوں کارکن سپاہ صحابہ پاکستان کے ہاتھوں دہشت گردی کا نشانہ بنے- جبکہ نوے کی دہائی میں سپاہ صحابہ پاکستان کی ڈیتھ اسکواڈ لشکر جھنگوی نے پنجاب سمیت پورے ملک میں شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جس کے جواب میں سپاہ محمد نام کی ایک شیعہ عسکریت پسندی تنظیم بنائی جو شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کلرز، ان کے سہولت کاروں کو جوابی نشانہ بنانے لگی اور مشرف کے دور میں اس پر پابندی لگادی گئی-
نائن الیون کے بعد پورے ملک میں دیوبندی فرقے سے ابھرنے والی تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے باہمی اشتراک اور ان کے القاعدہ کے آپریٹس نے مل کر جہاں غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا شروع کیا وہیں انھوں نے سُنی مزارات و مساجد اور شیعہ امام بارگاہ و مساجد و جلوس عزاداری کو نشانہ بنانا شروع کردیا-
2006ء میں کراچی نشتر پارک میں عیدمیلاد النبی کے جلوس کے اختتام پر جود کش بم دھماکے ہوئے جس میں پاکستان سُنی تحریک کی اول اور دوسرے درجے کی ساری قیادت ماری گئی اور جماعت اہل سنت پاکستان کے بھی مرکزی سطح کے کئی اہم رہنماء مارے گئے
صوفی سُنی مسلمانوں کے کئی ایک بااثر علماء اور پیر پنجاب اور کے پی کے میں نواز شریف کے حامی تھے، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ نواز شریف اور اُن کا بھائی شہباز شریف کا اتحاد تکفیری دہشت گردوں کے نظریہ سازوں سے انتہائی گہرا ہوچلا ہے اور وہ پنجاب و کے پی کے و فاٹا میں طالبانائزیشن کو روک نہیں پارہے تو انہوں نے نواز شریف سے اپنے راستے الگ کیے اور پاکستان سُنی اتحاد کونسل کے نام سے پاکستان میں مذھبی عسکریت پسندی کے خاتمے کی کمپئن شروع کی گئی- لیکن صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد یہ اتحاد سُنی مسلمانوں کے ریڈیکل سیکشن میں پھیلی بے اطمینانی کو دور کرنے میں ناکام رہا تو اس نے خادم رضوی جیسے کردار کو ابھرنے اور تحریک لبیک کو ایک بریلوی ریڈیکل جماعت کے طور پر ابھرنے کا موقعہ فراہم کیا-
تحریک لبیک پاکستان مسلم لیگ نواز کا گڑھ سمجھے جانے والے سنٹرل پنجاب سے ابھری اور اس کی تشکیل کا عمل سلمان تاثیر کے خلاف چلنے والی نفرت کی مہم کے دوران شروع ہوا تھا- اُس وقت مسلم لیگ نواز خادم رضوی، اشرف جلالی جیسے ریڈیکل بریلوی مولویوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور مقصد پی پی پی کو زچ کرنا تھا-
ویسے بھی مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے طاہر القادری کی مخالفت میں اور اُسے کاؤنٹر کرنے کے لیے 80ء اور 90ء کے عشرے میں جن ریڈیکل فرقہ پرست تنگ نظر بریلوی ملاؤں کو استعمال کیا اُن میں لاہور کے جامعہ نظامیہ کے مولوی خادم رضوی، گوجرانوالہ کے مولوی صادق سمیت کئی ملاں تھے – اور نواز شریف کے زیر سایہ یہ سخت گیر ریڈیکل بریلوی ملائیت تھی جس نے صوفی سُنی مسلمانوں کے سافٹ اور صلح کل رویوں کو پیچھے دھکیل دیا – مزار، محافل سماع، نعت خوانی جیسے اوصاف پیچھے چلے گئے اور ریڈیکل معاملات آگے آئے جن میں ابتذال اور مذھبی منافرت پر مبنی خطابت اور بلوائی وائلنس شامل ہے-
تحریک لبیک کی تشکیل اُس زمانے میں ہوئی جب پاکستان پیپلزپارٹی وفاق میں برسراقتدار تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی- پی پی پی کی وفاقی حکومت اور پنجاب میں اس کے گورنر سلمان تاثیر کے خلاف مسلم لیگ نواز، جنرل کیانی-افتخار چودھری ٹرائیکا اور ان کی حمایت میں کھڑا نام نہاد آزاد متحرک میڈیا بلاسفیمی کارڈ استعمال کررہا تھا اور پی پی پی کی حکومت جو توھین کے قوانین میں اندراج مقدمہ سے لیکر مقدمے کی تفتیش میں موجود نقائص کو دور کرکے اصلاحات متعارف کرانا چاہتی تھی کی کوشش کو غلط رنگ دیا گیا- آسیہ بی بی کیس میں گورنر سلمان تاثیر کے انٹرویوز کو مسخ کیا گیا، اُن کے خلاف بلاسفیمی کی تحریک چلائی گئی- سپاہ صحابہ پاکستان سے آنے والے گجرات سے نواز لیگ کے ایم این اے عابد چودھری اور مظفرگڑھ میں نواز لیگ کے صدر و ٹکٹ ہولڈر عباد ڈوگر نے سلمان تاثیر کے سر کی قیمت مقرر کردی اور طالبان نے شہباز بھٹی وفاقی وزیر کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے، وفاقی وزیر مذھبی امور سید حامد سعید کاظمی کو ہٹ لسٹ پر لے آیا گیا- سلمان تاثیر ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز حسین کے ہاتھوں اور شہباز بھٹی طالبان کے ہاتھوں مارے گئے جبکہ کاظمی طالبان کے ہاتھوں قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے-
اُس زمانے میں ممتاز قادری کو اون کرنے میں قریب قریب سب ہی مسالک کی جماعتیں آگے آگے تھیں لیکن لیڈ بریلوی ریڈیکل ملاں کررہے تھے جن میں خادم رضوی سب سے آگے تھے- نواز لیگ کا جن مذھبی تنظیموں سے اتحاد تھا اُن میں جمعیت علمائے اسلام – ف اور سپاہ صحابہ پاکستان بھی تحریک لبیک کے موقف کی حامی تھیں- اور پی پی پی کو رگیدنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نواز لیگ جانے نہیں دے رہی تھی-
مسلم لیگ نواز جب حکومت میں آئی تو ممتاز قادری کا کیس سیشن جج کی عدالت سے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آگیا تھا اور سپریم کورٹ کے ججز پہ دباؤ تھا کہ وہ ممتاز قادری کو رہا کردیں- مسلم لیگ نواز کی حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ ممتاز قادری کو رہا کرے-اس اثناء میں ممتاز قادری کو سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور نظر ثانی کی اپیل بھی سماعت کے بعد مسترد ہوگئی، اب تحریک لبیک نے مسلم لیگ نواز کے بنائے صدر ممنون حسین ممتاز حسین کی معافی کا مطالبہ کیا جو نواز حکومت نے وارثان کے انکار پر رد کردی تو ممتاز قادری نواز شریف کے دور میں پھانسی چڑھ گیا-
تحریک لبیک نے ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف جو پرتشدد احتجاج شروع کیا تو اسے نواز حکومت نے بادل نخواستہ ریاستی طاقت سے دبایا تو تحریک لبیک سے جڑے بریلوی طبقے میں نواز لیگ سے نفرت اور بڑھ گئی –
مسلم لیگ نواز نے کئی عشروں تک اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے دائیں بازو کے سیاسی اسلام پسند حلقے سے فائدے اٹھائے تھے جس کی بنیادیں اور ستون جنرل ضیاء الحق نے ایستادہ کیے تھے-
ڈان نے رپورٹ کیا کہ کیسے تحریک لبیک کے حامی پی پی پی کے جلسوں میں دلا تیر بجا جیسے پارٹی ترانوں کے بجائے جانے پر مشتعل ہوئے اور ایک اور رپورٹ میں یہ دکھایا گیا کہ کیسے تحریک لبیک کے ووٹ پنجاب میں پی پی پی سے بڑھ گئے-
جب نواز شریف کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کا یارانہ تھا تو تب پنجاب میں اسے بریلوی ووٹ توڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی کیونکہ 80 اور نوے کی دہائی میں اکثر بریلوی علماء اور پیر نواَز شریف کے ساتھ تھے اور انہوں نے مولانا نورانی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا جو جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں نواز شریف کو حمایت دینے سے انکاری تھے-
اسٹبلشمنٹ نے اُس زمانے میں سپاہ صحابہ پاکستان کو استعمال کیا کیونکہ اس تنظیم کے زریعے سے ایک تو پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں پی پی پی کے حامی شیعہ ووٹرز کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کروائی گئی- اور گلت بلتستان میں شیعہ ووٹر جو پی پی پی نواز تھا اُسے توڑنے کی کوشش ہوئی-
نوے کی دہائی کے بعد سیاسی اسلام پسند مذھبی حلقے کی حمایت ہمیں نواز لیگ کے ساتھ پی ٹی آئی کے حق میں بھی تقسیم نظر آئی – نواز لیگ سے اسٹبلشمنٹ کے غالب حصے کی لڑائی نے پنجاب میں جہاں مسلم لیگ نواز کے خلاف موجود بریلوی مذھبی ووٹ کو ممتاز حسین کی پھانسی سے استعمال ہونے کا موقعہ ہاتھ آیا، وہیں بریلوی ووٹ کا ایک سیکشن نواز لیگ کی طالبان نواز پالیسیوں کے سبب پہلے ہی نواز لیگ کے خلاف ہوچکا تھا-
سن 2018ء کا الیکشن اسٹبلشمنٹ کو یہ موقعہ فراہم کرگیا کہ اس نے ایم ڈبلیو ایم (شیعہ جماعت)، تحریک لبیک اور جماعت دعوہ کی تحریک اللہ اکبر کو ایکٹویٹ کیا- سنٹرل پنجاب میں کم از کم 16 اہم نشستیں قومی کی 34 صوبائی جو نہایت کم مارجن سے پی ٹی آئی نے جتیں ان میں تحریک لبیک کے امیدواروں کو پڑنے والے ووٹ کا بڑا دخل تھا- سندھ میں تحریک لبیک، اللہ اکبر پارٹی، سپاہ صحابہ، ایم ڈبلیو ایم کو جی ڈی اے کو جتوانے کے لیے استعمال کیا گیا اور کراچی لیاری سے لبیک کو ایک ایم پی اے کی سیٹ دلوادی گئی-
اسٹبلشمنٹ نے نواز شریف کو پنجاب میں کٹ ٹو سائز کرنے اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو دینے کے لیے تحریک لبیک کے ابھار میں سہولت کاری فراہم کی اور سندھ میں اُس نے پی پی پی کے خلاف اسے استعمال کیا-
پاکستان کا لبرل دانشور تجزیہ نگار سیکشن جنرل ضیاء الحق کے زمانے کے سیاق و سباق کے ساتھ تحریک لبیک کے ابھار کا تجزیہ نہیں کرتا- کیونکہ وہ جنرل ضیاء الحق کے روحانی بیٹے اور سیاسی جانشین نواز شریف کی بحالی میں بری طرح مصروف ہے- کیونکہ ضیاء الحق کے کردار کو بے نقاب کرنے سے اس کی امریکی سرپرستی اور اس کےپیش رو دونوں بے نقاب ہوتے ہیں-
یہ #کمرشل_لبرل جناح اور بھٹوز کو گالی دیں گے تاکہ الزام کو اصل حقدار پر عائد کیا جائے ناکہ اُسے ناحق کسی اور طرف پھیر دیا جائے- اور جنرل ضیاء الحق اور اُس کے روحانی شاگردوں کے کردار کو زیر بحث نہیں لائیں گے-
(یہ پوسٹ ریاض ملک کی انگریزی پوسٹ کو ملاکر چند اضافوں کے ساتھ اردو میں لکھی گئی ہے)

%d bloggers like this: