مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محمد بخش برڑو… جنسی درندوں کے دیس میں فرشتہ ۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

قوم کی اکثریت کا خیال ہے کہ ایسے واقعات اور معاملات کو روکنے کے لیے ضروری ہے. جرم ثابت ہونے پر ایسے درندوں کو بیچ چوراہے سر عام لٹکایا جائے

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وطن عزیز میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی و درندگی کے واقعات کم ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں.یہ ہمارا ایک بڑا قومی المیہ ہے. اس حوالے سے پاکستان بھر میں صوبہ پنجاب کا ضلع قصور سب سے آگے ہے. ایسے درندہ صفت انسانی شکل میں پائے جانے والے جنسی درندوں کو کوئی عبرت ناک اور فوری سزا نہ ہونے کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہے ایک اسلامی ملک اور اسلامی معاشرے کے اندر ایسے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی شرمناک ہیں. یہ ہمارے انفرادی و اجتماعی معاشرتی زوال اور گراوٹ کی گہرائیوں کا پتہ دیتے ہیں. یہ اخلاقی و سماجی قدروں کا جنازہ، قانون کی نام نہاد حکمرانی، لااینڈ آرڈر کی خراب ترین پوزیشن کا ثبوت ہے. جنسی درندگی کا سلسلہ اضلاع اور صوبوں کی حدود کی پرواہ کیے بغیر بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے.ہمارے اداروں کو، ہمارے حکمرانوں کو اس پھیلتی ہوئی لعنت کے مکمل اسباب اور وجوہات تلاش کرکے اس کے سدباب کے لیے فوری عملی اقدامات لانچ کرنے چاہئیں. کیا دنیا اور پاکستان میں واقعی اس قسم کی جنسی درندگی ایک کاروبار بن چکا ہے.اس کی ویڈیوز اور براہ راست پروگرام ہوتے ہیں. بہرحال وجوہات کچھ بھی ہوں ایسے ملزمان اور مجرموں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت اور نرمی نہیں ہونی چایضہئیے.
صوبہ سندھ کے علاقے کشمور میں پیش آنے والا واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے.کشمور میں ملزم رفیق اور اس کے دو ساتھی اغوا شدہ خاتون تبسم اور اس کی چار سالہ معصوم بچی علیشاء کے ساتھ کئی روز تک اجتماعی زیادتی کرتے رہے ہیں. رپورٹ میں گینگ ریپ ثابت بھی ہو چکا ہے.
کہا جا رہا ہے کہ خاتون تبسم کو ملزم نے اس شرط پر جانے کی اجازت دی کہ وہ جائے اور ان کے لیے کسی اور لڑکی کا بندوبست کرے. جب وہ کسی اور کی بچی لے آئے گی تو اس کی اپنی بچی علیشا اس کے حوالے کر دی جائے گی.خاتون وعدہ کرکے یقین دلا کر ملزمان کےٹھکانے سےچلی گئی. جانے کے بعد خاتون نے ہمت اور غیرت کا مظاہرہ کیا. کسی اور کی بچی کو ورغلانے، اٹھانے اور اس کی زندگی تباہ کرنے کی بجائے رسک لیا اور پولیس کے پاس جا پہنچی.انہیں سارا واقعہ سنایا. غیرت مند پولیس آفیسر نے ملزمان کو گرفتار کرنے کی ٹھان کی.اب ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایک بچی کی ضرورت تھی.اب سہولت کار کے طور پر کہاں سے اور کس کی بچی لی جائے.سندھ پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش برڑو کی سوچ، جذبے، فرض شناسی، غیرت مندی اور قربانی کو سلام پیش کرنے پڑے گا. جس نے اپنی بیٹی اور بیگم سے بات کرکے اپنے جگر کا ٹوٹا اپنی بیٹی اس قربانی میں پیش کی. ملزمان کو ٹریس کرنے اور گرفتاری یقینی بنانے کے لیے بیٹی کی ملزم سے بات کروا کر تسلی دلوائی کہ لڑکی کا بندبست ہو چکا ہے. اس کے بعد پلاننگ، موثر حکمت عملی اور بہترین کاروائی کرتے ہوئے ملزم رفیق کو گرفتار کر لیا. ملزم کے دو ساتھی ابھی تک فرار ہیں.پولیس جب بچی علیشا کی بازیابی کے لیے ٹھکانے پر پہنچی تو چار سالہ کم سن کلی نے پولیس کو دیکھتے ہی اپنی شلوار نیچے کرتے ہوئے کہا کہ ُ ُ یہ دیکھیں پولیس انکل، ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے?. ٗ ٗ. حکمرانو، ذمہ دار اداروں کے ذمہ داروں کب تک اور کتنی زینب، علیشاؤں کے ساتھ ہونے والا یہ ظلم و قہر دیکھتے رہو گے.قانونی مجبوریوں اور قانونی پچیدگیوں کے نام پر ملزمان کو فوری کڑی سزا دینے کی بجائے ایسے درندوں کے ساتھ ڈیل اور ڈھیل کا سلسلہ جاری رکھو گے.زمین کے پھٹنے اور آسمان کے گرنے کا انتظار نہ کریں.
قوم کی اکثریت کا خیال ہے کہ ایسے واقعات اور معاملات کو روکنے کے لیے ضروری ہے. جرم ثابت ہونے پر ایسے درندوں کو بیچ چوراہے سر عام لٹکایا جائے.یا ایسے ملزمان کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر ایک سپیشل ریور سکواڈ قائم کیا جائے. جو فوری خفیہ تحقیق اور تفتیش کرکے ایک مہینے کے اندر اندر معاملہ مُکا دے. کیونکہ ہمارے روایتی تفتیشی اور پھر عدالتی نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے اکثر ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں. یہ درندے کسی بھی معاشرے کیلئے ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں. جہاں قانون کمزور ہو وہاں لوگوں کے دل سے قانون کا خوف ختم ہو جاتا ہے..
ہمارے ہاں ایک ملزم کو سزا دینے میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے کہ تب تک ایسے درجنوں مزید کیس سامنے آ جاتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ کے رجسٹر میں درج ہو جاتے ہیں. پھر کچھ درندے ان کی پشت پناہی کرتے ہیں.
سنا جا رہا ہے کہ اس کیس میں ایک مقامی اہم سیاسی شخصیت کیس کو کمزور بنانے کی کوشش کر رہی ہے، اگر یہ سچ ہے تو ملزمان کے ساتھ ساتھ ایسی بے ایمان اور دلی قسم کی شخصیات کے خلاف بھی عوامی ردعمل اور سرکاری کاروائی ہونا چاہئیے. کیونکہ ملزم کی پشت پناہی کرنے والے بھی بڑے مجرم ہوتے ہیں.عوامی محاسبہ اور قانونی کاروائی دونوں وقت کی اشد ضرورت ہیں.
اے ایس آئی محمد بخش برڑو کا یہ عظیم کارنامہ ہے. اس نے نہ صرف ایک معصوم بچی کی جان بچائی اور وحشی جنسی درندے کو گرفتار کیا بلکہ فرض شناسی کی ایک عظیم مثال قائم کر دی ہے.سندھ پولیس کے ادارے کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.ایک راہ دکھا دی ہے کہ اگر فورس میں ایمان، جذبہ،غیرت، حوصلہ، دانش، بصیرت ہو تو وہ بہت کچھ کر سکتی ہے. یقینا ان کا یہ عمل قابل تقلید ہے.محمد بخش برڑو جنسی درندوں کے دیس میں فرشتہ ثابت ہوا ہے. اللہ تعالی اسے عزت و کامیابی سے نوازے آمین.

………………………….

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: