مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تنظیم بٹ: لاہور میں موسیقی کی دنیا کا ایک حوالہ۔۔۔محمد شعیب عادل

ہمارے دوست لیاقت علی ایڈووکیٹ اب بھی انھیں اپنا مرشد سمجھتے ہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اب مرشد اور مرید کی شاید ہی ملاقات ہوتی ہو۔

محمد شعیب عادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید سبط الحسن ضیغم سے میری ملاقات سہ ماہی آواز کی اشاعت کے دنوں میں ہوئی ۔ ایک دن ان کے گھر گیا تو وہیں ایک صاحب پرویز مجید بھی تشریف فرما تھے۔ جو بعد میں نیا زمانہ کے جوائنٹ ایڈیٹر بھی بنے۔ باتوں میں تیز تھے۔ میں سمجھا لکھائی پڑھائی میں بھی تیز ہونگے لیکن جب رسالہ شروع کیا تو انتہائی مایوسی ہوئی۔ پرویز مجید نیشنل بینک میں کام کرتے تھے ۔ ان کی شخصیت کا تجزیہ ، ان کے بینک کے ساتھی تنظیم بٹ پر ختم ہے۔
تنظیم بٹ بھی لاہور میں موسیقی کی دنیا کا ایک حوالہ ہیں۔ ان کے پاس کلاسیکی موسیقی کے نادر ریکارڈنگز موجود ہیں۔ اب پتہ نہیں کیا حالات ہیں۔جب بھی میں پرویز مجید سے ملنے بینک جاتا تو میرا استقبال تنظیم بٹ کرتے اور کہتے کہ بھئی جس سے تم ملنے آئے ہو تم نے اس میں ایسی کیا خصوصیت دیکھی ہے کہ ملنے آجاتے ہو ۔ میں کہتا بٹ جی بس جان دیو۔ چھوٹا موٹا کام ہے۔ پھر تنظیم بٹ ان کی شخصیت پر لمبا لیکچر دیتے جو یہاں لکھا نہیں جا سکتا۔ لیکن پرویز مجید کھسیانی بلی بنے رہتے۔
ایک دن تنظیم بٹ ، پرویز مجید کے متعلق کہنے لگے کہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی سوچ سوچ کر پاگل ہوگیا ہوں۔ میں نے کہا بٹ جی بتائیں تو کہنے لگے یہ بندہ روزانہ صبح گھر سے نکلتا ہے تو اس کی بیگم پانچ روپے اس کی جیب میں ڈال دیتی ہے۔ یہ بندہ دن میں پندرہ دفعہ چائے پیتا ہے، دو تین ڈبیاں سگریٹوں کی پھوک دیتا ہے، دوپہر کا کھانا بھی کھاتا ہے ، آنا جانا بھی ہوتا ہے لیکن شام کو دو روپے بچا کر بھی لے جاتا ہے۔ میں نے کہابٹ صاحب واقعی یہ سوچنے والی ہے۔
پرویز صاحب شرارتیں بھی بہت کرتے تھے اور سزا کے طور پر ان کو دور دور کی برانچوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔ اب وہ بینک میں کیا شرارتیں کرتے تھے۔۔۔ ان کا تذکرہ آج کل سوشل میڈیا پر کافی ہورہا ہے۔
ہمارے دوست لیاقت علی ایڈووکیٹ اب بھی انھیں اپنا مرشد سمجھتے ہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اب مرشد اور مرید کی شاید ہی ملاقات ہوتی ہو۔درج ذیل واقعہ پرویز مجید نے ضیغم صاحب کی موجودگی میں ہی بیان کیا تھا۔
کالونی ٹیکسٹائل ملز ، ملتان کے مالک ، نصیر اے شیخ کا لاہور کی علمی ادبی وسیاسی شخصیات سے میل جول رہتا تھا ۔ ایک دن سید سبط الحسن ضیغم کو کہنے لگے شاہ جی، علی عباس جلالپوری سے ملاقات ہوئی کافی عرصہ ہوگیا ہے کیوں نہ ان سے ملاقات کی جائے۔ یاد رہے کہ علی عباس جلالپوری ان دنوں جہلم میں اپنے بیٹے کے پاس مقیم تھے جو وہاں مقامی کالج میں پڑھاتے تھے۔
خیر ایک دن نصیر اے شیخ، سبط الحسن ضیغم اور پرویز مجید ، شیخ صاحب کی گاڑی میں جہلم گئے کچھ گھنٹے گذار کر واپس ہوئے تو نصیر اے شیخ نے سبط الحسن ضیغم کو کہا کہ شاہ جی ، جلالپوری صاحب بہت اعلیٰ آدمی ہیں، فلسفے پر ان کا علم بہت ہے، انقلابات زمانہ پر بہت اچھی گفتگو ہوئی ہے لیکن انھوں نے امام حسین کو بھی اعلیٰ مقام پر رکھا ہے۔
نیا زمانہ کی ڈائری سے اقتباس

%d bloggers like this: