اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ادراتِ جاھل عذاب اَست ۔۔۔عامر حسینی

بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ان سب کا پاکستانی سیاست میں تصور مفاہمت یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست 1973ء کے آئین پر استوار ہے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادراتِ جاھل عذاب اَست
"بےنظیر بھٹو کی کتاب” مفاہمت” کا جتنا حسِین استعمال آصف علی زرداری نے کیا ہے اُتنا حسین استعمال شاید خود بے نظیر بھٹو نے نہ کیا ہو-“
روزنام خبریں کا چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد سیاسی کارکنوں کو شاید جاھل سمجھتا ہے، یا طالبان خان کی طرح خود بھی کتابوں کے نام رٹے ہوئے ہے اور اُن کے غلط سَلط حوالے دیکر سادہ لوح قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے-
شہید بے نظیر بھٹو کی کتاب انگریزی میں شایع ہوئی، اس کتاب کا عنوان ہے:
Reconciliation: Islam and Democracy
اس کتاب میں بے نظیر بھٹو نے پہلا مقدمہ یہ پیش کیا کہ اسلام اور جمہوریت کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اور اسلام کا مغربی ڈیموکریسی سے کوئی جھگڑا نہیں بنتا، دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ تیسری دنیا سمیت پوری دنیا آج جس مذھبی بنیادوں پر دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک سے نبرد آزما ہے اور جنوبی ایشیا سمیت تیسری دنیا میں اس وقت جو ریاستی عدم استحکام ہے اُس کی بنیادی وجہ سرد جنگ کے دنوں میں مغربی ممالک کا رجعت پسند فوجی آمروں اور اُن کے اتحادی جمہوریت مخالف جہادی ملائیت کو سپورٹ دینے تھا جو بعد از سردجنگ اور پھر نائن الیون کے بعد بھی جاری رہی
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے مغرب کی جمہوری سیاسی جماعتوں اور حکومتوں اور تیسری دنیا کی بالعموم اور پاکستان کی بالخصوص جمہوری طاقتوں کے درمیان مفاہمت کی پیشکش کی اور اُس کی شرط یہ تھی کہ مغرب کبھی بھی غیر جمہوری، طالع آزما اور آمریت پسند قوتوں کی حمایت نہیں کرے گا…..
ضیاء شاہد جیسے آمریت کے دلدادہ پے رول صحافیوں کی بددیانتی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ صرف بے نظیر بھٹو کی کتاب میں موجود تصور جمہوریت و مفاہمت کو مسخ کرتے ہیں، بلکہ وہ آصف علی زرداری کے تصور مفاہمت کو مسخ کرتے ہیں-
بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ان سب کا پاکستانی سیاست میں تصور مفاہمت یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست 1973ء کے آئین پر استوار ہے اور اس آئین میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات متعین ہیں، جھگڑا اختیارات سے تجاوز پر ہوتا ہے، جب اسٹبلشمنٹ جس میں انتظامیہ اور عدلیہ دونوں شامل ہیں میں بیٹھے طالع آزما مقننہ کو مفلوج کرتے ہیں، سلیکشن کرتے تو پھر جمہوریت پسندوں کا جھگڑا اسٹبلشمنٹ کے اداروں میں طالع آزماؤں سے ہوتا ہے جسے ضیاء شاہد جیسے چمچے کڑچھے کبھی فوج دشمنی کہہ کر اور کبھی غداری کہہ کر پکارتے ہیں، یہ تو جھوٹ بھی ایسا بولتے ہیں جو صرف گوگول بابا کی ایک سرچ کی مار سہہ نہیں پاتا-
ضیاء شاہد اور کچھ نہیں تو اپنے مرحوم مربی چوہدری ظہور اللہی جن کی جیب خاص اُن پر سدا مہربان رہی کی بلوچستان کے ایشو پر اسمبلی میں کی گئی تقریر میں مفاہمت کی الف ب پڑھ کر ایسے موضوعات پر ڈھنگ سے بات کرنا سیکھ لیں

%d bloggers like this: