اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاہور کی ٹھنڈی سڑک کی سیر۔۔۔مدثر شیخ

ناظمِ لاہور میاں عامر محمود اور جنرل مشرف کی ذاتی دلچسپی سے اس کی تزئینِ نو کی گئی اور آج یہ عمارت ثقافتی نمائش کے لیے ہال بنا دی گئی ہے.

مدثر شیخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی تحریر میں استنبول چوک کا ذکر چھڑا تھا، وہ بھی یوں کہ چوک کے بیچ نصب کردہ خوبصورت پرندوں کا آشیانہ نظر سے گذرا، آپ نے دلچسپی لی تو مال روڈ کی سیر کروانے کا حوصلہ پیدا ہوا۔
تو چلتے ہیں استنبول چوک سے آگے، لیکن ذرا ٹھہریے اس چوک کے دائیں بائیں اور پیچھے بھی کچھ اہم عمارتیں اور دفاتر ہیں، مختصراً اُن کا تعارف بھی کروائے دیتے ہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ، روایت بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔
تو استنبول چوک میں کھڑے ہو کر اگر آپ کارُخ مال روڈ اور انارکلی کی جانب ہے توآپ کے بالکل عقب میں کم وبیش 500 میٹر کے فاصلے پر ایک اور سڑک( جسے لوئر مال روڈ کہا جاتا ہے،) کے پار سہ منزلہ طویل وعریض اور خوبصورت عمارت موجود ہے جسے پی ایم جی آفس کہا جاتا ہے، یعنی پوسٹ ماسٹر جنرل آفس، یہ محکمۂ ڈاک کے سربراہ کا دفتر ہے، اب جو محکمۂ ڈاک کی حالت ہے دفتر کی اندرونی حالت تو ویسی ہی ہے البتہ بیرونی دیوار کو لال رنگ کر کے خوبصورت بنانے کی کوشش کی گئی ہے،

 

اسی چوک کی دائیں جانب جانے والی سڑک (جو ٹاؤن ہال کے سامنے سے گذرتی ہے) پر انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کا دفتر واقع ہے، اور انہی کے تحفظ کے لیے اس سڑک کو بیچ سے نصف کرتے ہوئے کنکریٹ کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے، اب معلوم نہیں کہ عوام سے پولیس کے سربراہ کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ عمل کیا گیا ہے یا آئی جی پولیس کے شر سے عوام کو بچانے کے لیے۔

ایک دلچسپ نکتہ اپنے قارئین کے لیے کہ اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ آئی جی کو اردو میں کیا کہا جاتا ہے تو یہاں لگے بورڈ پڑھ کر آپ کی ہنسی نکل جائے گی، جی ہاں آئی جی کو اردو میں "ناظمِ اعلیٰ” کہا جاتا ہے۔ لفظ سن کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس دفتر میں کسی مذہبی جماعت یا دینی مدرسے کا سربراہ بیٹھتا ہو گا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے، اب آئیے واپس چوک کی جانب اور چلیے اس کے بائیں طرف جہاں عظیم مادرِ علمی گورنمنٹ کالج لاہور (اب جی سی یونیورسٹی) کا صدر دروازہ دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔

ملکِ عزیز کو ہر میدان میں بے شمار نابغۂ روزگار شخصیات مہیا کرنے والا یہ ادارہ آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے، اور طالبانِ علم ملک کے کونے کونے سے آکر یہاں داخلہ لینے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ مملکتِ خداداد کی کئی سیاسی تحریکوں نے اسی گلی اور صدر دروازے سے جنم لے کر مال روڈ کا رخ کیا۔ اسی ادارے کی بغل میں پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد بننے والا اورئینٹل کالج اپنی سرخ اینٹوں والی عمارت کے ساتھ موجود ہے اور یہ گلی انارکلی بازار اور اردو بازار کی جانب بھی نکل جاتی ہے، ہم بھی ان بازاروں کی سیر کریں گے لیکن ابھی چلتے ہیں دوبارہ استنبول چوک کی جانب جہاں سے ہم مال روڈ پر سفر کریں گے استنبول چوک سے آگے کی جانب بڑھیں تو دائیں جانب نیشنل کالج آف آرٹس سے متصل لاہور کا عجائب گھر دکھائی دیتا ہے، جو خود ایک تاریخ ہے،

اس عمارت کے اندر برصغیر پاک وہند کی قبل از مسیح سے لے کر آج تک کی تاریخ شیشے کے دروازوں کے پیچھے مقید ہے، لیکن اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ تاریخ کو کبھی قید نہیں کیا جاسکتا جبھی تو ہزاروں سال کی یہ تہذیبی داستان آج بھی موجود دکھائی دیتی ہے۔

میوزیم کے بالکل برابر میں ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت ہے جو کمپنی بہادر کی لاہور میں کاروبار کی شروعات کی یاد دلاتی ہے، اس عمارت کو اب نمائشیں منعقد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن جنرل مشرف کے دورِ حکومت سے پہلے یہ عمارت بوسیدہ ہو چکی تھی اور نشئیوں کی آماجگاہ بن چکی تھی،

ناظمِ لاہور میاں عامر محمود اور جنرل مشرف کی ذاتی دلچسپی سے اس کی تزئینِ نو کی گئی اور آج یہ عمارت ثقافتی نمائش کے لیے ہال بنا دی گئی ہے.

یہ عمارت ایک جانب سے پرانے انارکلی بازار کو لگتی ہےجبکہ اس کے بالمقابل سڑک کے پار فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے کئی اسٹالز نظر آتے ہیں،

ان اسٹالز پر شائقین کو تاریخ و فلسفہ، مذہب و سائنس، علم و ادب غرضیکہ ہر موضوع پر کتب کوڑیوں کے بھاؤ مل جاتی ہیں، بعض کتب کو شاید اب چھپنا بند ہو چکی ہیں لیکن ان کے نادر نسخے یہاں تلاش کرنے سے مل ہی جاتے ہیں، معلوم نہیں اسے علم کی بے قدری کہنا چاہئے، ارزانی یا آسان دستیابی، لیکن جو بھی کہیں کتاب اس پر خود کوئی اعتراض نہیں کرتی،

ویسے اب کتابوں کے یہ تاجر بھی خاصے سمجھدار ہو گئے ہیں اس لیے انہوں نے جاسوسی ناولوں اور شہوت انگیز تصویروں اور ٹائٹلز والی کتب اور میگزین نمایاں کر کے سجا رکھے ہوتے ہیں جبکہ نایاب کتب پیچھے گوداموں میں ذخیرہ کر رکھی ہوتی ہیں اور صرف طلب کرنے والوں کو ہی مہیا کرتے ہیں


اب ہم ایک چوراہے پر ہیں جہاں دائیں جانب پرانی انارکلی اور بائیں جانب نئی انارکلی ہے۔ یہ بازار انارکلی کیوں کہلاتا ہے اور اس چوراہے سے آگے مال روڈ پر کیا کچھ واقع ہے یہ جاننے کے لیے ہماری اگلی (اردو والا) تحریر کا انتظار کیجیے۔

یہ بھی پڑھیے:لاہور کا استنبول چوک ۔۔۔ مدثر شیخ

%d bloggers like this: