اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے||حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا نام حسنین جمال ہے۔ زیر نظر واقعات میرے دادا یٰسین صدیقی کی سوانح سے لیے گئے ہیں جو انہوں نے 1944 تک تحریر کی تھی۔ ان قصوں میں بہت کم قلم لگانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ جہاں ضرورت پڑی اور نام یا مقام ادارت کی زد میں آیا، وہاں اطلاع کر دوں گا۔

1944 کے بعد حالات ہم تک روزنامچوں کی صورت پہنچتے ہیں جو چھوٹی ڈائریوں پر انتہائی باریک خط میں رقم ہیں اور فارسی میں ہیں۔
یٰسین صدیقی کی تحریر شروع ہوتی ہے۔

عراق کے سفر کا آغاز

1925 میں غالباً مئی کا مہینہ تھا جب ہم تین آدمی، چچا حکیم صاحب، حاجی محمد بخش منہاری فروش اور میں، سہ شنبہ کے دن پھولوں میں لد کر ایک جم غفیر کے ساتھ سٹیشن ملتان چھاؤنی آئے۔

ٹرین آئی تو ہر ایک الوداعاً گلے ملنا شروع کیا اور چند منٹ بعد ہم کراچی کو روانہ ہو گئے۔

(یہاں عراق کے بحری سفر کی طویل داستان ہے جسے موضوع پہ مرکوز رہنے کے غرض سے حذف کیا گیا ہے اور جو بوقت اشاعت شامل کر دی جائے گی۔ حسنین جمال)

سنہ 1925۔ عراق میں یٰسین صدیقی کا عشرہ محرم بعمر 14 برس

محرم کے موقع پر کئی سوتری جٹ کے زائر بھی ملتان سے یہاں آ گئے۔ محرم کا چاند دیکھتے ہی میناروں اور گنبدوں پر سیاہ نشان آویزاں کیے گئے، جا بجا سیاہ کالی چادریں لٹکائی گئیں۔ ضریح پاک پر بھی سیاہ غلاف چڑھا دیا گیا اور گریہ و بکا کی مجالس منعقد کی گئیں۔

یہاں ہندی مہاجرین کے امام باڑے (جن میں زیادہ تعداد شاہان اودھ کے اوقاف سے قائم شدہ امام باڑوں کی ہے ) شب و روز ہندوستانی محفلوں سے پر ہوتے۔

دن کے ہر حصے میں ایک نہ ایک امام باڑے میں مجلس عزا منعقد کی جاتی۔ سارا دن ہم مجالس سنتے رہتے۔ ایک رات کو نواب سید طاہر رضا کے شاہی امام باڑے میں بڑی پرتکلف اور مزین نمائش کے ساتھ مجلس عزا ہوئی جس میں بلوریں برتنوں میں شربت بطور تبرک تقسیم کیا گیا۔

بڑے بڑے رؤسا اور حکام مدعو تھے۔ ہندی خطیبوں کے بعد ایک فارسی ذاکر نے مصائب پڑھے اور مجلس ختم ہوئی۔ ان دنوں ہر مجلس میں حصول ثواب کی غرض سے روٹیاں بطور تبرک تقسیم کی جاتی تھیں۔ بعض اوقات جلوس بھی نکلتے تھے جن میں صرف علم اور نشان اٹھائے جاتے۔

عربی لوگوں کا ماتم دیکھ کر طبیعت پر بڑا اثر ہوتا۔ اس بلا کی سینہ زنی میں نے کہیں دیکھی نہ سنی۔

ان کے ماتم کے سامنے پنجاب اور یوپی کا ماتم ماند پڑ جاتا۔ ماتم کرنے والے عرب ایک دائرے کی صورت میں کھڑے ہو جاتے، درمیان میں ایک عرب نوحہ خواں نوحہ پڑھتا، اس کے اشارے پر تمام عرب ہاتھ اوپر اٹھا کر فوراً کہنیوں کے زور سے چھاتی پر مارتے۔

پچاس پچاس اور سو سو انسانوں کے ایک وقت میں چوڑی چھاتیوں پر پڑتے ہوئے ہاتھ اتنا دھماکہ بتلاتے جیسے کوئی دیوار گر رہی ہو، ان کے لہجے اتنے پرسوز ہوتے کہ سننے والے نہ سمجھنے پر بھی اشک ریزی پر مجبور ہو جاتے۔

نویں محرم کو نواب سید طاہر رضا کا جلوس نکلا جس میں بیش بہا علم اور ایک ذوالجناح تھا جس پر سفید چادر سرخ رنگ کے دھبوں کے ساتھ پڑی تھی اور گھوڑے کے بدن پر جا بجا تیر پیوست تھے۔

اس جلوس میں ایک دستہ ہم پنجابی سینہ زنوں کا، دوسرا یو پی والوں اور مہاجرین ہندیوں کا اور تیسرا عربی اور عجمی لوگوں کا تھا۔

بڑا طویل جلوس تھا، آخر یہ جلوس امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ اور حرم میں ختم ہوا۔ ماتم اس شدت سے ہوا اور ہر شخص پر رقت کا وہ عالم تھا گویا در و دیوار ’وا حسینا، یا حسینا‘ کی آواز دے رہے تھے۔ اتنا ہنگامہ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا۔

شب عاشورہ تمام رات ہم حرمِ حضرت میں رہے۔ صبح کو خیمہ گاہ میں ’قمہ‘ یعنی خنجر کا ماتم دیکھنے گئے۔

تمام ماتمی کفن نما سفید کپڑا اوڑھ کر جمع ہوتے گئے اور ایک وسیع دائرے کی شکل میں حسب دستور ماتم شروع کیا گیا۔

ایک پولیس افسر ہاتھ میں تلوار لیے کھڑا تھا، ماتمیوں کی خواہش پر اس نے ہر ایک کے سر میں ایک ایک دو دو مرتبہ تلوار کی ضرب لگائی، اب زور سے ماتم کیا جانے لگا۔

زخم سے خون کے فوارے ابلنے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام کپڑا سر سے پاؤں تک خون سے بھر گیا، اور اب یہ جتھا روانہ ہو چلا۔

ہمارے بازار سے گزرتا ہوا بازار سروری میں داخل ہوا، بازار کے ساتھ ایک گلی میں حمام تھا چنانچہ قبل زوال یہ تمام خونیں سینہ زن اندر کے حوض میں نہائے، باہر نکلے تو کوئی نشان بھی نہ تھا۔

ویسے کے ویسے چنگے بھلے اور تندرست، گویا انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ سید الشہدا کا معجزہ کہلاتا ہے۔

ہم اب حرمِ اطہر میں بغرض اعمال روز عاشورہ داخل ہوئے۔ زائرین کا اتنا ہجوم کہ اندر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا میسر نہ ہوا۔ عصر تک ہم روضہ میں رہے، عصر کو باہر نکل کر صحن مقدس میں ایک اور منظر دیکھا۔

ایک ماتمی جتھے کے ساتھ کافی چوڑا تخت تھا جسے چار آدمی اٹھائے تھے۔ اس تخت پر ایک بے دم انسان لیٹا دکھائی دیتا تھا جس کے چاروں طرف ایک بناوٹی شیر پِھر کر پہرہ دے رہا تھا۔

اس شبیہ سے مراد وہ ابوالحارث نامی ایک شیر کا منظر یاد دلانا تھا جس نے بقولے عصرِ عاشورہ کو حضرت کی نعش مطہر پر چوکیداری کی تھی۔

اس منظر سے اس قدر رقت کا سماں بندھا کہ اتنا عریض و طویل صحن اشک فشاں انسانوں سے یوں بھر گیا گویا ملائکہ آسمان سے اتر آئے اور آسمان بھی آنسو بہانے لگا۔ رونے والوں کو تن بدن کا ہوش نہیں تھا۔ کسی کو دھکا لگا تو پرواہ نہ تھی، کسی کو کچل ڈالا گیا تو اسے احساس نہ تھا۔ غرض عجب خلوص کا عالم تھا۔ وارفتگی نے ہر انسان پر اثر کیا ہوا تھا۔

شام کے وقت یہ جلوس صحن میں ہی ختم ہوا یعنی دو گھنٹے پورے حرم کے طواف میں بسر ہوئے۔

شام کو ہم حضرت عباس کے صحن میں گئے۔ مجلس تعزیت گم تھی۔ اثنائے ذکر شب یاز دھم تمام بجلیوں کو گل کر دیا گیا۔

گویا شب تاریک اور شام خموشاں کی یاد دلانی تھی۔ اس فوری منظر کشی نے عوام اور سامعین کو جی بھر کر رلایا اور ہر ذرہ ذرہ سے صدائے آہ و بکا سنی گئی۔

ہم تو نماز مغربین سے فارغ ہو کر گھر آ گئے اور تھکن کے باعث سو رہے۔ دوسرے دن تمام کاروبار مثل سابق کھولے گئے۔
مجالس کا سلسلہ قدرے مدھم ہو گیا مگر ناغہ پھر بھی نہ ہونے پاتا۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: