مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

35 واں ، دو روزہ سرائیکی ادبی ثقافتی میلہ مہرے والا ضلع راجن پور۔۔۔رؤف لُنڈ

اس میلہ کے انعقاد میں ، اس کے انتظام میں کئی خامیاں اور کمیاں ہو سکتی ہیں مگر اس کے مثبت اثرات و اسباق کے تو اس کے دشمن بھی معترف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

35 واں ، دو روزہ سرائیکی ادبی ثقافتی میلہ مہرے والا ضلع راجن پور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مبارکباد عاشق بزدار ، مبارکباد قسور بزدار ، مبارکباد میلہ کمیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میلے کے کامیاب انعقاد کیلئے رات دن کام کرنے والے نوجوان محنت کش معتبر موچی، درکھان، نائی، حلوائی، کمہار، لوہار، خاکروب، مزدور کسان آپ سب کو خصوصی مبارکباد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طبقاتی سماج میں لوٹ مار، ظلم اور زیادتی کرنے اور اسے جاری رکھنے کیلئے حکمران بالادست طبقے کے پاس سب سے مؤثر ہتھیار اور حربہ محروم محنت کش طبقے کو رنگ، نسل ،ذات پات ،مذہب مسلک اور قوم وطن کے نام پر تقسیم کرنا اور اسی تقسیم کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کو سبوتاز کرنا ہوتا ھے۔۔۔۔۔

لیکن سماج میں بالادست طبقہ ھی صرف واحد طاقت نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلہ میں اصل حیثیت اور طاقت والا اکثریتی محنت کش طبقہ بھی ہوتا ھے کہ اس جہان کی سب رونقیں جس کے دستِ محنت کی قدرت اور طاقت کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ اور بات کہ محنت کش طبقہ اپنی اس حیثیت اور شناخت سے بالادست طبقے کی کمینگی پر مبنی دانش کی پھیلائی اور اڑائی دھول کی وجہ سے محروم رہتا ھے۔

لیکن محنت کش طبقے کی اپنی طاقت اور حیثیت کی شناخت سے لا علمی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ بالکل اندھا اور بے حس ہوتا ھے۔ کیونکہ اس طبقے کے لوگ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم، جبر ، زیادتیوں اور ذلتوں کو صرف سہتے ھی نہیں رہتے ان سے سیکھتے بھی رہتے ہیں۔ اور ان مظالم اور ذلتوں سے نجات کیلئے سوچتے رہتے ہیں اور نجات کی راہیں بھی کھوجتے رہتے ہیں۔ میلے ٹھیلے، مجلسیں مشاعرے، تماشے اور عوامی اجتماعات اسی نجات کی مختلف شکلوں اور راہوں کے نام ھی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہرے والا کا یہ سرائیکی ادبی ثقافتی میلہ مظلوم سرائیکی قومیت کے محروم محنت کش طبقے کے لوگوں کے اپنے بنیادی حقوق اور شناخت کے حصول کی جدوجہد کا ایک اظہار ھی تو ھے جو گذشتہ پینتیس سالوں سے بلا تعطل جاری و ساری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میلہ کے انعقاد میں ، اس کے انتظام میں کئی خامیاں اور کمیاں ہو سکتی ہیں مگر اس کے مثبت اثرات و اسباق کے تو اس کے دشمن بھی معترف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میلہ میں مذہبی تفریق کی نفی کی جاتی ھے۔ اور یہاں آکر ہندو لوک فنکار فقیرا بھگت، آڈو بھگت اور موہن بھگت وغیرہ بھی اسی احترام سے سنے جاتے ہیں جس طرح مسلمان فنکاروں اور گلو کاروں کو سنا جاتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میلے میں صنفی امتیاز کی مکمل نفی کی جاتی ھے۔ اس میلہ میں شریک ہونے والی کسی بھی خاتون کو خواہ وہ کوئی فنکارہ اور گلوکارہ ہو یا ادیب و شاعرہ اور خواہ وہ کوئی مقرر ہو یا سیاسی ورکر اس کو میلے میں شریک مردوں کے برابر ھی نہیں بلکہ مردوں سے زیادہ تعظیم اور احترام دیا جاتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میلہ میں بائیں بازو کے نظریات پر مبنی کتابوں اور تصانیف کے سٹال بھی لگائےجاتے ہیں تاکہ نوجوان نسل اپنے بہتر مستقبل کی روشن راہوں پر گامزن ہو سکے۔ افسوس کہ ان سٹالوں کی با قاعدگی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔۔۔۔۔۔

اس میلے میں جئے جئے بھٹو جئے ، انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب ، جاگیرداری مردہ باد ، سرمایہ داری مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگتے ہیں۔ اور نعرہِ نعرہِ نعرہ سرائیکی۔ جیوے جیوے جیوے سرائیکی کے نعرے بھی۔۔۔۔۔۔

اس میلے میں موقع کی مناسبت سے اپنے سیاسی اظہار کیلئے پینا فلیکس/بینر لگانے اور مطالبات کی نعرہ بازی کی بھی مکمل اجازت ہوتی ھے۔ جیسے اس میلہ کے موقع پر سوشلسٹ انقلاب روس کی سالگرہ کی مبارکباد اور محنت کشوں کے سرمایہ داری ، جاگیرداری، نجکاری، مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کے خلاف مطالبات کے پینا فلیکس سٹیج پر لگے نظر آئے۔ اور میلے کے اجتماع میں لاہور میں کسانوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے ریاستی تشدد کے ہاتھوں شہید ہونے والے کسان راہنما اشفاق لنگڑیال کے قتل کے خلاف نعرہ بازی بھی کی گئی کہ ” یہ کس کا لہو ھے کون مرا؟ بدمعاش ریاست بول ذرا” ، "قاتل قاتل عثمان بزدار قاتل، عمران خان قاتل”، "ھم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے”، ” قاتلو جواب دو خون کا حساب دو” ، کے نعرے بھی لگتے رھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میلے کا یہ بھی ایک اعزاز ھے کہ یہاں (اس نظام کے اندر ) سرائیکی صوبہ لینے کے نعرے لگانے والے اور اس سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کو مکمل مسترد کر کے سوشلسٹ انقلاب کے نعرے لگانے والے ایک دوسرے کے سیاسی احترام کو ملحوظِ خاطر بھی رکھتے ہیں۔ اور سیاسی و انقلابی اظہار کی مقابلہ بازی پر خوش بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حقوق کے عارضی حصول اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ایک صوبہ اور اس نظام کی خاشاک سے سرخ سویرے سوشلسٹ انقلاب کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور اپنی لگن میں مگن عاشق بزدار ، اس کے بیٹے قسور بزدار اور ان کے سب دوستوں اور اس میلے کو کامیاب کرنے کیلئے کام کرنے والے ایک ایک محنت کش کارکن کو ایک بار پھر مبارکباد اور سرخ سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: