مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاول بھٹو کن کے لیےخوف کااستعارہ ہے؟ ۔۔۔عامر حسینی

بلاول بھٹو زرداری جب گلگت بلتستان انتخابی مہم چلانے پہنچے تو اس وقت گلگت بلتستان سردی کی سخت لہر کی لیپٹ میں آچکا تھا-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بی بی سی اردو کو دیا گیا انٹرویو اس ادارے کے نیوز ایڈیٹر کی لگائی گئی مبہم سرخی کے سبب ایک ایسی بحث کو تیز کرنے کا سبب بن گیا ہے، جو میاں محمد نواز شریف اینٹی اسٹبلشمنٹ – بلاول متذبذب سیاسی بیانیہ کی مساوات بنانے والے تجزیہ نگاروں کی چھیڑی ہوئی ہے-

 

 

یہ بحث گوجرانوالہ جلسے میں میاں نواز شریف کے خطاب سے شروع ہوئی تھی اور اس میں کراچی جلسے کے بعد کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور کوئٹہ جلسے میں بلاول بھٹو کا نہ جانا اور گلگت بلتستان میں انتخابی کمپئن چلانے کو ترجیح دینے اور وہاں ويڈیو خطاب کرنے سے اور بڑھی-

گلگت بلتستان انتخابات اور سیاسی جماعتیں

بلاول بھٹو زرداری جب گلگت بلتستان انتخابی مہم چلانے پہنچے تو اس وقت گلگت بلتستان سردی کی سخت لہر کی لیپٹ میں آچکا تھا- لوگ انتخابی جلسوں اور کارنر میٹنگز میں آنے کی بجائے گھروں پر رہنے کو ترجیح دے رہے تھے- لیکن بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے 24 انتخابی حلقوں میں زور دار انتخابی مہم چلائی- ان کے دوروں نے گلگت بلتستان کی سیاسی فضا کو گرم کردیا- عوام کی بہت بڑی تعداد جس میں بوڑھے، عورتیں، جوان اور بچے بھی بھرپور طریقے سے شریک ہوئے- گلگت بلتستان کے انتخابات پر نظر رکھنے والے مقامی تجربہ کار سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلال بھٹو زرداری کے 24 انتخابی حلقوں کے دوروں نے پی پی پی کی گلگت بلتستان میں مقبولیت میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے- اور پی پی پی کی جیت کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں-

بلاول بھٹو زرداری کا پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے 24 انتخابی نشستوں پر کھڑے امیدواروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے انتہائی دشوار ترین انتخابی حلقوں میں جانا اور وہاں جاکر گلگت بلتستان کی عوام کو ان کے آئینی و قانونی حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان سے روزگار، صحت اور رہائش سمیت بنیادی معاشی حقوق دینے کی ضمانت دینا ایک ایسا ڈکسکورس سیٹ کرنا تھا جس نے گلگت بلتستان میں دوسری سیاسی جماعتوں کی انتخابی کمپئن کو گہنا دیا تھا-

پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اپنے وفاقی وزرا کو انتخابی کمپئن میں اتارا جنھوں نے بڑے پمیانے پر ترقیاتی کاموں کی رشوت دینے کی پیشکش کی-

پاکستان مسلم لیگ نواز کو اپنی انتخابی کمپئن کو مضبوط بنانے کے لیے مرکزی نائب صدر مریم نواز کو گلگت بلتستان بھیجنا پڑا-

لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سب حلقوں میں پی ٹی آئی کے وفاقی وزرا اور نواز لیگ کی مرکزی نائب صدر نہ پہنچ سکیں- بلاول بھٹو زرداری کی کامیاب انتخابی مہم کا اعتراف انگریزی روزنامہ ڈان کے اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین بھی کرتے دکھائی دیے

And what place better to watch him do his thing than his latest stomping ground: Gilgit-Baltistan. High above the world so high, in the lap of mountainous grandeur, he has crisscrossed every single constituency in a bid to win the Nov 15 elections. According to people in Gilgit and Skardu, Bilawal has almost single-handedly galvanised electoral activity in the region and fired up his support base. “The campaign trail was fairly cold here,” says a seasoned journalist and activist from GB, “but Bilawal has charged people and brought them out of their houses.”

بلاول بھٹو کو اس کے حالیہ بیان کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھنا بہتر ہوگا- عظیم الشان پہاڑوں کے دامن میں بسی سرزمین میں بلاول بھٹو زرداری نے ہر ایک انتخابی حلقے کو عبور کیا تاکہ 15 نومبر کا انتخاب جیتا جاسکے- گلگت اور سکردو کے لوگوں کے مطابق بلاول نے تنہا ہی خطے میں تقریبا ہر انتخابی حلقے میں انتخابی سرگرمی کی اور اپنے حمایتی حلقوں کو خوب پرجوش بنادیا- گلگت بلتستان کے ایک تجربہ کار صحافی اور ایکٹوسٹ کہتے ہیں،

” انتخابی مہم انتہائی سرد تھی لیکن بلاول بھٹو نے لوگوں کو متحرک کردیا اور ان کو گھروں سے باہر نکال لائے“۔

پاکستان تحریک انصاف پی پی پی کے بعد دوسری جماعت ہے جو گلگت بلتستان صوبائی کونسل کی چوبیس نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے- پاکستان مسلم لیگ نواز جس کے پاس حکومت رہی اٹھارہ نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہے- جبکہ اتحاد اسلامی پاکستان کے 8 اور ایم ڈبلیو ایم کے دو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں- دیکھا جائے تو سولہ نشستوں پر مقابلہ ملکی حکمران جماعت پی ٹی آئی، گلگت بلتستان کی موجودہ سبکدوش ہونے والی حاکم جماعت نواز لیگ اور سندھ میں حکومت کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان ہے-

پاکستان پیپلزپارٹی وہ واحد جماعت ہے جسے گلگت بلتستان کی 24 انتخابی نشستوں پر کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت نہیں ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو اپنی اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے- پی پی پی کی مخالف لیفٹ پارٹی عوامی ورکرز پارٹی کررہی ہے تو دوسری طرف انتہائی دائیں بازو کی فرقہ پرست، انتہا پسند جماعت اہلسنت والجماعت کہیں پر نواز لیگ تو کہیں پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہی ہے- ایم ڈبلیو ایم کئی نشستوں پر پی ٹی آئی کی مکمل سپورٹ کررہی ہے- تحریک اسلامی نواز لیگ کو سپورٹ کررہا ہے- اور جے یو آئی-ف بھی کئی نشستوں پر نواز لیگ کی حمایت کررہی ہے-

 

مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا ڈسکورس

 

جب سے گلگت بلتستان سے بلاول بھٹو زرداری کی کامیاب انتخابی کمپئن کی خبریں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے زریعے آنا شروع ہوئيں اور پیپلزپارٹی کی کامیابی کے امکانات روشن ہونا شروع ہوئے تو ساتھ ہی دونوں جگہوں سے ایک سیکشن نے دھیرے دھیرے پاکستان پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو کی کامیاب انتخابی حکمت عملی کے گرد شکوک اور سازش کے کالے دائرے بنانے کی مہم شروع کردی- اور دلجسپ بات یہ ہے کہ یہ کالے دائرے ایک طرف تو اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز کے حامی سمجھے جانے والے میڈیا گروپوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے ایک سیکشن کی جانب سے کھینچے جارہے ہیں تو دوسری طرف اس مہم میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کا حامی پریس سیکشن اور سوشل میڈیا سیکشن دونوں شامل ہیں-

دونوں سیکشن پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کو گلگت بلتستان میں پی پی پی کی مقبولیت بڑھانے کا کریڈٹ دینے کو تیار نہیں ہیں- بلکہ وہ ایک سازشی مفروضے کے ساتھ آگے آئے ہیں- اور مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آرمی چیف جنرل قمر باوجوہ کی اشیر باد سے گلگت بلتستان پہنچے اور گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مقبولیت نہیں ہے بلکہ یہ آرمی چیف ہیں جو اس سارے ڈرامے کے پیچھے ہیں- گویا پاکستان پیپلزپارٹی عوامی ووٹ کی بجائے آرمی چیف کی مدد سے گلگت بلتستان کا انتخاب جیتنے جارہے ہیں- یہ دونوں سیکشن ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس کی وجہ ہمیں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین کے تجزیے کے اندر ہی مل جاتی ہے

If the PPP wins the GB elections and forms the government, it would be Bilawal’s single biggest political achievement since his launch as the heir apparent to the Bhutto legacy.

اگر پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان الیکشن جیت جاتی ہے اور حکومت بناتی ہے تو یہ بلاول بھٹو زرداری کی بطور بھٹو کے وارث ہونے کے طور پر نمودار ہونے سے لیکر ابتک کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی ہوگی-

گلگت بلتستان میں پی پی پی کی کامیابی سے نواز لیگ کے حامی پریس اور سوشل میڈیا سیکشن کے پروپیگنڈے کو “دھچکہ” لگے گا کہ پورا پاکستان جمہوریت پسند بیانیہ کے طور پر اگر کسی کے بیانئے کو پسند کرتا ہے تو وہ میاں نواز شریف کا بیانیہ ہے-

نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے حامی مین سٹریم اور سوشل میڈیا سیکشنوں کے دوسرے پروپیگنڈے کہ پی پی پی اب محض سندھ کی سیاسی جماعت ہے کو لگے گا-

گلگت بلتستان کی کامیاب انتخابی مہم نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود جیالوں اور حامی ووٹرز کے مورال کو بڑھایا ہے- اگر گلگت بلتستان میں پی پی پی نے حکومت بنالی تو اس سے ان علاقوں میں پی پی پی کی ساکھ اور بہتر ہوگی- نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے تںحواہوں اور مراعات پانے والےمین سٹریم و سوشل میڈیا سیکشن دونوں کے لیے پی پی پی کی پنجاب اور کے پی کے میں واپسی ایک ڈراؤناخواب ہے جو انھیں گلگت بلتستان میں پی پی پی کی مقبولیت کے خلاف سازشی مفروضے گھڑنے پر مجبور کررہا ہے-

بلاول بھٹو زرداری کے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں واضح اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاسی موقف کو چند سرخیوں کے زریعے سے گمراہ کن بناکر پیش کرنے اور پھر بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت کو اسٹبلشمنٹ نواز ثابت کرنے کا زور لگانے کے پیچھے ایک اور خوف بھی موجود ہے- اور خوف یہ ہے کہ جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے دشوار گزار علاقوں میں میراتھن انتخابی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کی مقبولیت کو بڑھایا تو ایسے میں اگر بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب و کے پی کے میں میراتھن سیاسی جلسے جلوس اور ریلیوں سے خطاب کی آزادی ملی تو کہیں پنجاب میں جو پاکٹس پی ٹی آئی، نواز لیگ کے پاس ہیں ان میں سے کئی ایک پی پی پی کے پاس واپس نہ چلی جائیں-

 

پنجاب پاکستان پیپلزپارٹی سے ایک منظم منصوبہ بندی کرکے چھینا گیا تھا- اور چھیننے کا یہ عمل پانچ جولائی 1977ء کے بعد سے شروع ہوا تھا اور یہ مسلسل جاری رہا- یہاں تک جب اسٹبلشمنٹ نے پنجاب میں اپنے ہاتھوں سے مضبوط بنائی پارٹی مسلم لیگ نواز کو کمزور کرنے کی مہم شروع کی تو اس وقت بھی پہلے پنجاب میں کنگ پارٹی مسلم لیگ قائداعظم بنائی گئی اور جب کنگ پارٹی وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوئی جو مقصود تھے تو 2008ء میں ہی کیانی نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ روابط بحال کیے اور پھر 2013ء کا الیکشن نواز شریف کو کیانی و چودھری گٹھ جوڑ سے جتوایا گیا تھا- اس دوران اسٹبلشمنٹ کا ایک گروہ مسلم لیگ نواز کی جگہ پی ٹی آئی کو برسراقتدار لانے کے منصوبے پر عمل کررہا تھا- دیکھا جائے تو مسلم لیگ نواز سے زیادہ توڑ پھوڑ پنجاب میں پھر پاکستان پیپلزپارٹی کی ہوئی- مشرف ہوں یا شجاع ان سب نے پنجاب میں سب سے زیادہ نقب پاکستان پیپلزپارٹی میں لگائی اور اس کی بنیادی وجہ پی پی پی کا نواز لیگ کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم بننے پر رضامند نہ ہونا تھا- پیپلزپارٹی سے اسٹبلشمنٹ نے پنجاب کے شہری علاقے ہی نہیں چھینے بلکہ سرائیکی پٹی میں جو دیہی علاقوں کی اکثریت والے انتخابی حلقے تھے انکی اکثریت کو بھی چھین لیا- 1977ء سے 2018ء تک پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کو کبھی آزادانہ انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملی- جب بلاول بھٹو زرداری تین نسلوں کی جدوجہد کا بیان دیتے ہیں تو اس کے پیچھے پنجاب میں 41 سال مسلسل آزاد الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملنے اور پنجاب کے اکثر علاقوں میں پارٹی قیادت کی رسائی ناممکن بنانے کی منصوبہ بندی کا زکر بھی ہوتا ہے-

پاکستان کا مین سٹریم اور سوشل میڈیا کا نواز لیگ اور پی ٹی آئی کا حامی سیکشن ایک ہی پروپیگنڈا کرتا رہا ہے- اور وہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب سے آصف علی زرداری کی پالیسیوں کے سبب غیر مقبول ہوئی ہے- وہ اسٹبلشمنٹ کی 41 سالہ انجنئیرڈ منصوبہ بندی کا زکر تک کرنے سے گریزاں رہتا ہے-

سوشل میڈیا پر رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرنے والے پی پی پی سے ہمدردی رکھنے والے جمہوریت پسند تجزیہ نگاروں کی ایک ایسی معتدبہ تعداد اب سامنے آئی ہے جو اپنے طور پر پی پی پی کو پنجاب اور کے پی کے سمیت ملک کے مختلف حصوں سے بے دخل کرنے کی انجینئرڈ منصوبہ بندی کو بے نقاب کررہی ہے-

وہ پیپلزپارٹی کی آفیشل پریس و سوشل میڈیا ونگ کی کمزوری کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے تنخواہ دار آفیشل پریس ونگ و سوشل میڈیا ونگ کا مقابلہ کررہی ہے-

اگر آپ پاکستان پیپلز تھنکرز فورم- پی پی ٹی ایف جیسے نان آفیشل فورم کے چئیرمین شرافت علی رانا کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں تو آپ کو پہلی بار نواز لیگ و انصافی و اسٹبلشمنٹ کے پروپیگنڈے کی منطقی ردتشکیل کا ایسا بیانہ سننے اور دیکھنے کو ملے گا جو آپ کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کرے گا-
ایسے سینئر فوٹوگرافر جرنلسٹ زاہد حسین کے فیس بک آئی ڈی کو فالو کریں گے تو پاکستان کی جمہوریت پسند سیاسی تاریخ میں پی پی پی کا وہ اجلا چہرہ نظر آئے گا جو بہت سے کلیشوں کو توڑ ڈالے گا-

امام بخش سمیت کئی سوشل میڈیا آئی ڈی ہیں جو نواز لیگ کے بیانیے اور پی ٹی آئی کے بیانیے کی ردتشکیل کامیابی سے کررہی ہیں-

بلاول بھٹو کا بیانیہ ہے کیا؟

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوشل ڈیموکریٹ سنٹر لیفٹ سیاست دان کے طور پر اپنی پارٹی کے بیانیے کو تشکیل دیا ہے- وہ پاکستان میں آزاد خود مختار الیکشن کمیشن کے تحت صاف و شفاف انتخابات کے حامی ہیں- وہ پاکستان میں الیکشن، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ میں باوردی نوکر شاہی ہو یا بے وردی نوکر شاہی ہو یا عدالتی اسٹبلشمنٹ ہو کی سیاسی پروسس میں مداخلت کے خاتمے کے لیے سرگردان ہیں- وہ ببانگ دہل عورتوں، بچوں، اقلیتوں،مزدوروں،کسانوں کے حقوق کی اور تمام رجعتی طبقوں کی رجعت پرستی کے خلاف سیاست کررہے ہیں- اور یہی پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست اور سیاسی بیانیہ ہے باقی سب پروپیگنڈا ہے-

بلاول بھٹو زرداری سیاست میں رجعتی، بنیاد پرست، اسٹبلشمنٹ پرست اور انارکی و نراجیت پسند حلقوں کے لیے خوف کا استعارہ ہے- جب کہ یہ استحصال کا شکار، قومی و مذہبی جبر کا شکار حلقوں کے لیے اور جمہوریت پسند عوام کے لیے امید کا استعارہ ہے-

 

%d bloggers like this: