اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تب دیکھ بہاریں جاڑے کی۔۔۔رضاعلی عابدی

بچے پیدل لپک رہے ہوتے تھے، انہیں اتنی سردی نہیں لگتی تھی۔واپسی میں وہ چنے کے کھیتوں سے پورے پورے پودے اکھاڑ لاتے تھے

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیسے زمانے تھے جب ہر موسم اپنے ساتھ اپنی لطافتیں بھی لایا کرتا تھا۔ برسات کے اپنے لطف، گرمیوں کے اپنے ناز نخرے اور جاڑوں میں پکتے ہوئے گڑ کی سوندھی سوندھی مہک۔ سب جیسے خواب ہو گئے ، اب یقین نہیں آتا کہ ایسے دن بھی آئے تھے کبھی۔کل ایک تصویر دیکھی جو پنجاب میں نیلی بار کے علاقے کے کسی گاؤں کی تھی۔تین بڑے بڑے کڑھاؤ چڑھے ہوئے تھے جن میں گڑ پک رہا تھا۔ان کے نیچے بھڑکتی زور کی آگ میں اسی گنّے کا پھوک جھونکا جارہا تھا۔کڑھاؤ سے بھاپ کے بادل اڑ رہے تھے اور ایک بزرگ گڑ کے ڈھیلے بنا رہے تھے اور ایک بڑی بی تازہ گڑ کو چھان رہی تھیں۔پس منظر میں اس گنّے کے پھوک کے انبار لگے تھے جن کو نچوڑ کر رس کا ایک ایک قطرہ نکال لیا گیا تھا۔تصویر میں ایک چیز ایسی بھی تھی جو نظر نہیں آرہی تھی لیکن محسوس ہورہی تھی۔ اور وہ تھی پکتے ہوئے گڑ کی دیوانہ کردینے والی خوش بو۔اس ایک تصویر نے ذہن میں یادوں کے ایسے ایسے دریچے کھول دیئے جنہیں گزرتا وقت کبھی کا بھیڑ چکا تھا۔

سب سے پہلے دور پہاڑوں پر گری ہوئی برف جاڑوں کے آنے کی منادی کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بچوں اور بڑوں کے گرم کپڑوں کو دھوپ دینے کی کارروائی شروع ہوجاتی تھی۔ کھلے آنگن میں یہ کپڑے چارپائیوں پر پھیلا دئیے جاتے تھے اور یقین دلایا جاتا تھا کہ فنائل کی گولیوں کی بو نکل جائے گی۔کچھ نئی بنڈیاں سی جاتی تھیں، کچھ پرانے کنٹوپ کھول کر پھیلائے جاتے تھے۔ بچے بڑے ہورہے تھے اور اسی مناسبت سے کپڑے چھوٹے ہو رہے تھے ، ان پر روٹھا راٹھی حیرت کی بات نہ تھی۔مجھے اپنے پرانے کوٹ سے نفرت تھی کیوں کہ ایک تو وہ چھوٹا ہو چکا تھا ، دوسرے لڑکپن میں اس کی آستین میں جو بہتی ہوئی ناک پونچھی گئی تھی اس کے آثار موجود تھے۔

جاڑے آتے ہی باجیاں گھر میں کئی طرح کے حلوے بناتی تھیں، حلوہ سوہن جوزی، حلوہ سوہن پپڑی، انڈے کی سفیدی اور زردی کے حلوے اور سب سے لذیذ چنے کی دال کا حلوہ۔اس کے لئے گیہوں کے دانے ایک رات پہلے بھگودئیے جاتے تھے اگلے دن اُن میں اکھوے پھوٹ جاتے توا نہیں سکھا کر ا ن کوپیسا جاتا تھا ، اس وقت ہم نے لفظ نشاستہ سنا تھا۔ اسی سے وہ جوزی حلوہ بنتا تھا جس کی جوزیں کاٹی جاتی تھیں۔

اب رہ گیا جاڑوں کا کھانا۔ اس کی بات ہی اور تھی۔صبح کا ناشتہ سارے بچے چولہے کے گرد بیٹھ کر کرتے تھے۔ بیٹھنے کے لئے لکڑی کے پٹرے پڑے ہوتے تھے۔سویرے کی سردی میں کچھ کھانے پینے کے لئے چولہے کے گرد ہی سب سے زیادہ آرام تھا۔ دوپہر کے کھا نے کا لطف جاڑوں ہی میں ہے ۔انگنائی میں الگنی پر چادر ڈال دی جاتی تھی جس کے سائے میں جاڑوں کی دھوپ کی تمازت ذرا کم ہوجاتی تھی۔ سارا گھرانا وہیں بیٹھ کر کھانے کا انتظار کرتا تھا تب پلیٹوں میں بھاپ اڑاتا کبھی مٹر پلاؤ آتا، کبھی طاہری، کبھی ارد کی کھچڑی اور اس کے ساتھ شلجم کا اچار وہ بھی پانی میں پڑا ہوا مرچوں والا۔ جس روز رات بھر پکنے والی شب دیگ کھلنے کا دن ہوتا تھا ، وہ تو جشن کا سماں ہوتا۔ اس کے لئے قریبی تنور سے لگ کر خمیری روٹیاں آتیں اور بے حد ملائم بوٹیوں اور تقریباً گھلے ہوئے شلجم کو کس چاؤ سے کھایا جاتا تھا، وہ بھی یاد رہے گا۔ کبھی کبھی پھلکے بھی ڈالے جاتے، اس روز کھانے کے بعد مٹھاس کے نام پر تازہ گڑ او ر گاؤں سے آیا ہوا دیسی گھی اس شان سے کھایا جاتا کہ نیلاہٹ لئے دانے دار گھی کے اوپر گڑ چاقو سے کھرچ کر چھڑکا جاتا اور توے سے اترے ہوئے گرم پھلکے کے ساتھ کھایا جاتا۔کبھی گاؤں سے رساول آجاتا۔ گنے کے رس میں پکے ہوئے چاول کی ایک قسم کی کھیر۔ اس میں کشمش اور کترا ہوا ناریل پڑا ہوتا تھا ۔ رساول خاص طور پر مٹی کی ہانڈی میں پکایا جاتا تھا جس کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے رات بھر کھلے آسمان کے نیچے اوس میں رکھا جاتا تھا ۔ اس کا ذائقہ آج تک دہن کے کسی گوشے میں دبکا بیٹھا ہے۔

سہ پہر چار بجے چائے کا وقت ہوتا۔ اس وقت کی چائے کہیں وسطی ایشیا سے آئے ہوئے سماوار میں پانی پکا کر بنائی جاتی تھی اور بلوریں شیشے کے فنجان (فن جان ) میں پی جاتی جس کے بارے میں سنا تھا کہ ملک شام سے آئے تھے۔

پھر صبح صبح اسکول کی طر ف دوڑ لگتی، راہ میں سینکڑوں لوگ سائیکلوںپر بیٹھے کام پر جارہے ہوتے۔ ان کے بدن پر موٹا لباس ،گلے میں دبیز مفلر اور ہاتھوں میں اونی دستانے ، مگر جو چیز بچے حیرت سے دیکھا کرتے وہ ان سب کی سانسوں کے ساتھ نکلنے والی بھاپ ہوتی تھی۔صبح کی ٹھنڈ میں ان کی حالت پر ترس آتا تھا۔

بچے پیدل لپک رہے ہوتے تھے، انہیں اتنی سردی نہیں لگتی تھی۔واپسی میں وہ چنے کے کھیتوں سے پورے پورے پودے اکھاڑ لاتے تھے جن پر سبز چنے لگے ہوتے تھے جن کو ہولے کہا جاتا تھا۔چنے کے ان پودوں کو آنچ پر لٹکایا جاتا تھا تو وہ کچے چنے بھن جاتے تھے اور مزے کے ہوجاتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ آنچ پر بھنے ہوئے سبز چنے کھانے سے منہ پر راکھ لگ جاتی تھی اور اماّں کہاکرتی تھیںکہ آگئے سنا ہوا منہ لے کر۔

وہ ٹھنڈے ٹھنڈے لحافوںمیں گھس کرسکڑ جانے اور اس کے لئے منہ اندر کرکے گرم گرم سانسوں سے بستر گرم کرنے کی کوشش کرتے کرتے سر کا تکیے میں دھنس جانا ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ ایسے ہی شب وروز کے لئے نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا:

جب سب ارمان نکلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

%d bloggers like this: