اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط6 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

پہاڑپور میں تقریباً تین ہزار کے لگ بھگ لوگ آباد ہیں‘جن کی زمینوں کی زرخیزی دریائے سندھ کی مرہون منت ہے۔ پہاڑ پور کا شمالی علاقہ جو خیسور سے ملا ہوا ہے‘ دریائے سندھ کے زیادہ قریب ہے‘اسی لیے پہاڑ کے ساتھ کچی کا علاقہ زیادہ زرخیز ہے۔سندھ پار کی جانب کچی کے کچھ علاقوں میں کنوؤں کی بہتات ہے‘جس کے اردگرد کھجور‘بوہڑ اور پیپل کے درخت اُگے ہوئے ہیں۔کھجور کے یہ درخت سڑک کے ساتھ ساتھ پہاڑ کے دامن تک چلے گئے ہیں۔ خیسو رکی سنگلاخ پہاڑی پر بھی یہاں کے لوگوں نے گھر بنا رکھے ہیں۔خیسور کے شمالی کونے سے جنوب تک خصوصاً بلوٹ کے قریب ہندوؤں کے دو مشہور قلعے واقع ہیں‘جنہیں یہاں کے مقامی لوگ کافرکوٹ کے نام سے پکارتے ہیں۔بل اوٹ میں مشہور بزرگ پیر شاہ عیسیٰ کا مزار بھی واقع ہے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پتھر کی کشتی پر بیٹھ کر یہاں تک پہنچے تھے۔بل اوٹ میں پیر شاہ عیسیٰ کی اولاد کواحتراماً مخدوم کہا جاتا ہے‘بل اوٹ کے مخدوموں کودو ہزار روپے سالانہ کی مد میں اس علاقے کی جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔کوہِ خیسور کا سارا شمالی حصہ خیسوری(خسوری)‘ملی خیل اور عمر خیل نامی پٹھان قبائل کا مسکن ہے‘جبکہ جنوب مغربی حصے پر بڑی تعداد میں بلوچ قبائل آبا دہیں۔ کوہ خیسور جسے رتہ کوہ بھی کہا جاتا ہے‘سطح سمندر سے کوئی 2,000 سے 3,500 فٹ بلندہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کوئی پچیس میل تک عیسیٰ خیل سے بل اوٹ تک پھیلا ہوا سلسلہ ہے‘جو بل اوٹ سے ہوتا ہوا مغرب میں پنیالہ کی طرف مڑ جاتا ہے‘جہاں پر یہ دریائے سندھ سے سولہ کلومیٹر کے فاصلے پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔کوہ خیسور کا مغربی ا ور شمال مغربی حصہ مکمل طور پرریتلے پتھروں کے ڈھیر کا مرکب ہے۔ا س کی سطح پر تھوڑی بہت مقدار میں چونے کا پتھر بھی دستیاب ہے۔اس کا شمال مشرقی حصہ کوئلے اور چونے کے پتھر کا مرکب ہے‘جس پرجانوروں کے فوسلزبغور دیکھے جا سکتے ہیں۔خیسور پہاڑ کا بیشتر حصہ پتھریلا ہے جس پر پانی اورنمو کے آثار ناپید ہونے کی وجہ سے زراعت ممکن نہیں۔اگرچہ اس پرکہیں کہیں پانی کے ننھے چشمے بہہ رہے ہیں‘ مگر پانی کی مقدار اتنی کم ہے کہ یہ کھیتی باڑی کیلئے ممکن نہیں۔ کوہ خیسور میں کڑی خیسور کے نزدیک ایک چشمہ واقع ہے‘جس کے اردگرد کھجوروں کے درخت ہیں‘مگرمال مویشیوں کے لیے پینے کا پانی کچے کے تالابوں سے حاصل کیا جاتاہے‘جو کڑی خیسور کے بالائی حصے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ دو ایکڑ رقبے پر پھیلا بدری وال کا تالاب یہاں کا مشہور تالاب ہے۔یہاں کے قابل کاشت رقبے دو سے بیس ایکڑ تک کے علاقے پر مشتمل ہیں‘جہاں پرزیادہ تر کھیتی باڑی بارش کے پانی سے کی جاتی ہے۔جس سال زیادہ بارشیں برسیں تو اس سال یہاں پر ہر طرف گندم اور باجرے کے کھیت لہلہانے لگتے ہیں۔کوہ خیسور کے پہاڑ کے دامن میں جو کنوئیں کھودے گئے ہیں اُن کے اردگرد تمباکو بھی اُگایا جاتا ہے۔ کوہِ خیسور کے متوازی شمال مغربی جانب ایک اور پہاڑی سلسلہ بھی واقع ہے جسے نیلا کوہ کہا جاتا ہے۔نیلا کوہ ضلع ڈیرہ کو بنوں سے جدا کرتے ہوئے شیخ بدین کے بلند ترین مقام(4516فٹ) پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ نیلا کوہ کے دو سلسلے ہیں۔

ایک سلسلے کو کوہ بھٹنی جبکہ دوسرے کا نام شیخ بدین ہے۔ بھٹنی پہاڑ آگے چل کربنوں کے وزیری پہاڑی سلسلے کے ساتھ مل جاتا ہے۔اس پہاڑ کے دونوں سروں پر یعنی مشرق میں درہ پیزو اور مغرب میں درّہ بین واقع ہے‘ان دونوں درّوں سے بنوں کو راستہ نکلتاہے۔کوہ نیلا کا دوسرا پہاڑی سلسلہ شیخ بدین ہے‘جو سب سے زیادہ بلند اور باقی سلسلے سے نسبتاً کٹا ہو اہے۔یہ ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کا صحت افز اء مقام گردانا جاتا ہے۔ا س پہاڑ کے متعلق باب ششم میں تفصیل پیش کی جائے گی۔نیلا کوہ شیخ بدین سے بہت نیچے ہے۔ نیلا کوہ اور خیسور کے سلسلے کے درمیان لرگئی کی وادی واقع ہے۔یہ ایک صحرائی خطہ ہے جوتقریباً ایک سے پانچ میل تک چوڑا ہے۔اس وادی کا ایک کونا عیسیٰ خیل‘دوسرا پنیالہ سے ملا ہوا ہے۔یہ صحرائی علاقہ رگ پہاڑ پور کی مشرقی جانب واقع ہے‘جو شیخ بدین سے ہوتا ہوابھٹنی سلسلے کے جنوب تک اور پھر وہاں سے ٹانک کے شمال سے کلاچی کی تحصیل تک چلا جاتا ہے۔جنوب میں اسے سہیلی اور ٹکواڑہ کے نالوں سے سیراب کیا جاتاہے۔پنیالہ کے ریتلے تھل اور لرگئی وادی کی زمینی ساخت وادی مروت سے کافی مشابہہ ہیں کہ وہاں کی زمین بھی ریتلی اور بارانی ہے۔ ٹانک کے علاقے میں پہاڑی کے ساتھ ساتھ بہادری‘گلوٹی اور شیر علی کے علاقے کی زمینیں تھوری بہت قابل کاشت ہیں۔گنڈہ پور قبیلے کی ملکیت تحصیل کلاچی کا سارا علاقہ صحرائی ہے۔کلاچی کی زمینیں کھیتی باڑی کی بجائے پاوندوں کیلئے چراگاہوں کے طور پر کام میں لائی جاتی ہیں۔کچھ اسی قسم کا سوکھا‘خشک علاقہ پنیالہ اور پہاڑپور کے درمیان بھی واقع ہے۔ امید ہے کہ انگریز سرکار ان سارے خشک و بیابان اور بنجر علاقوں کو قابل کاشت بنائے گی۔پنیالہ کے صحرائی حصے میں درخت بہت کم ہیں اورناقابل کاشت حصے میں گھاس پھوس‘خودرو پودے اور نوکیلی جھاڑیاں بھی اُگی ہوئی ہیں۔اس علاقے میں اگر کچھ اُگتا بھی ہے تو وہ چنا اور گندم ہے جبکہ کچھ قابل کاشت حصوں میں باجرہ بھی اُگایا جاتا ہے۔یارک کے علاقے میں بھی باجرہ کافی مقدار میں اگایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: