مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط4 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

عباس سیال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قدرتی طور پر بنجر دامان میں آب پاشی کا نظام

دامان کی زمین پر بارش پڑنے سے پانی زمین کے اندر جذب ہونے کی بجائے ایک چھوٹی سے ندی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس سے وہاں پر نکاسی آب کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔یہ پانی بھی زمین کو سیراب کرنے کیلئے کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔دامان کو اگر ہم قدرتی حالت میں چھوڑ دیں تو یہ ہمیشہ خشک و بنجر ہی رہے گا،مگر اس علاقے کو قابل کاشت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سارا پانی جو ندی نالوں میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے اسے کسی طور قابو میں کر لیا جائے اور اگر پورے علاقی کی سیرابی مقصود ہے تو اس سارے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر بند بنا کر اس کا ذخیرہ کر لیاجائے۔ان بندوں میں بارشوں،ندی نالوں اور طغیانیوں سمیت ہر قسم کا پانی اسٹور کیا جائے،جسے بعدمیں آبپاسی کیلئے کام میں لایا جائے۔مگریہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا؟۔ کس طریقے سے پانی کو ایک جگہ روک کر جمع کرنے کے بعد استعمال کیا جائے گا؟۔یہ سب کچھ باب چہارم میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔

دامان میں جہاں جہاں پر طغیانیوں کا پانی قابو میں کیا جائے گاوہاں اردگرد کی زمینوں کی سیرابی ممکن ہو سکے گی۔اس کے ساتھ ساتھ زمین کی ساخت میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہو گی اور یہ قیمتی پانی ضائع ہونے کی بجائے کاشتکاری کا موثر زریعہ بنے گا،جس سے گندم،جو،جوار،باجرہ،سرسوں اور کپاس جیسی فصلیں اگائی جا سکیں گی۔آج بھی دامان کے قابل کاشت علاقوں میں جہاں جہاں سے پانی کے نالے گزرتے ہیں ا س کے کنارے فراش کے درخت بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔ فراش کے علاوہ دامان کے دیہی علاقوں میں اگرچہ بیر اور ببول کے درخت بھی نظر آتے ہیں،خصوصاً جنوب میں استرانہ اور کیتھرانی علاقوں کی جانب پہاڑ کے دامن میں بیر کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔کچھ مقامات پر لانا کے درخت ہیں جو اونٹوں کے چارے کے کام آتے ہیں اور ان لانا درختوں کے بیچ کہیں کہیں کریٹہ کے درخت بھی ہیں،مگر عمومی طور پر اگر دیکھا جائے تو درخت بہت ہی کم ہیں۔

دامان میں چونکہ زیر زمین پانی کھارا اور سطح زمین سے کافی نیچے ہے،اسی لیے یہاں پر کنوئیں بہت ہی کم ہیں۔دامان کے وہ علاقے جو دریاکے انتہائی قریب واقع ہیں وہاں پر میٹھے پانی کے کنوئیں کھودے گئے ہیں اور ہر کنوئیں کے نزدیک چھوٹی چھوٹی بستیاں آبا دہیں۔دامان کے محنت کش لوگ عموماًپانی کے ٹوبوں (جوہڑوں) سے پانی پیتے ہیں۔اکثر ٹوبے بارش کے پانی سے یا پھر ندی نالوں میں طغیانی کے باعث بنتے ہیں،جو وقت کے ساتھ ساتھ غلیظ جوہڑ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور پھر اسی جوہڑ پر انسان اور جانو ر دونوں مل کر پانی پیتے ہیں۔اس گدلے پانی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کینچوے،لاروے،جونکیں اور مختلف ذہریلے کیڑے مکوڑے بھی پیدا ہو جاتے ہیں،جسے پینے سے یہاں کے لوگ مختلف اقسام کی جلدی اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں،جن میں سرفہرست پیٹ درد،مروڑ،پیٹ میں کدو کیڑے،یرقان،ہیضہ اور گردے میں پتھرے کی شکایات عام ملتی ہیں۔

صاف پانی کے قطرے کی طلب یہاں پر ہمیشہ ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔خشک موسموں میں یہاں کے لوگ پانی کی تلا ش میں میلوں کی مسافتیں طے کرتے ہیں اور پانی کا ایک ٹوبہ خشک ہو جانے کے بعد اپنے مال مویشیوں سمیت دوسرے ٹوبے کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔خشک گرم موسموں میں جب سارے ٹوبے خشک اور پانی ناپید ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ مجبوراً اپنے گھر بارچھوڑ کر مال مویشیوں سمیت دریائے سندھ کا رخ کرتے ہیں۔

پانی کی طلب دامانیوں کو ہمیشہ اکھٹا رکھتی ہے اور جہاں کہیں کوئی ٹوبہ یا تالاب نظر آئے یہ اسی کے گرد پڑاؤ ڈال لیتے ہیں،جیساکہ شیرانی گا ؤں، جو سر سبز کھیتوں کے درمیان میں وا قع ہے اور جہاں پانی کی وافر مقدار دستیاب ہونے کے باعث سارا سال کاشتکاری ہوتی رہتی ہے۔

دامان کے وہ علاقے جہاں پر پانی کے بند نہیں ہیں،اُس علاقے کے لوگ سیلابی نالوں کے اردگرد پڑاؤ ڈالے رکھتے ہیں اور جب سیلابی پانی کے باعث زمین تر ہوجا تی ہے تو پھر وہاں پر کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ پانی کا کوئی تیز ریلہ ندی نالوں سے نکل اردگرد کی پوری بستی کو ڈبو کر رکھ دیتا ہے۔دامان میں آج بھی چالیس پچاس سال پرانی اجاڑ وبیابان بستیاں دیکھی جا سکتی ہیں،جنہیں پانی کا ریلہ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔دامان کے رہائشی اپنے گھر کچی مٹی کی اینٹوں،گارے اور مٹی کی چویڑی سے بناتے ہیں۔ان کے گھروں کی چھتیں نسبتاً ہموار ہوتی ہیں۔شیخ بدین سے لے کر وہووا تک بمشکل ہی کوئی پکی اینٹوں کی عمارت یا کوئی مسجد دکھائی دے گی۔

دامان کا پورا خطہ سال بھر اداسی اور خاموشی کی خشک چادر اوڑھے ر کھتا ہے اور اس اداسی کا خاتمہ اس وقت ہوتا ہے جب پہاڑ کی چوٹی سے موسمی ندی نالوں میں پانی بہنا شروع ہو تا ہے۔اس ٹھنڈے پانی کو اکثر پتھروں کے بند باندھ کر روک لیا جاتا ہے اور پھر اس سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔پانی کے ان بندوں کے کنارے شیشم کے درخت بھی اگائے جاتے ہیں،مگر ان سب کوششوں کے باوجود یہ پانی ابھی تک دامان کو اُس طرح سے سیراب نہیں کر سکاجیسا اسے کرنا چاہیے تھا۔دامان کا کافی علاقہ کاشت کے قابل نہیں جو ایک انگلش مین کی نظروں کو کبھی اچھا نہیں لگتا۔ (جاری ہے)

فوٹو کریڈٹ: احسان اللہ لاشاری

یہ بھی پڑھیے:

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط3 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط2 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط2 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط1) ۔۔۔عباس سیال

 پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: