اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط3 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

ڈیرہ اسماعیل خان کے پہاڑی درّے

کوہ سلیمان ایک سیدھی لکیرکی طرح اس ضلع اور افغانستان کے درمیان واقع ہے،اس کے علاوہ اور بھی کئی پہا ر ہیں،جو شمال سے جنوب کی طرف ٹیڑھی میڑ ھی قطاروں کی شکل میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان قطاروں کا درمیانی فاصلہ ایک جیسا ہے،ان قطا روں کے بیچ شمالاً جنوباً خاصا رستہ ہے لیکن خاص خاص مقامات کے علاوہ شرقاً غرباً گزر ممکن نہیں،ان خاص مقامات کو درّہ کہتے ہیں۔ جنوب میں وھووا کے دروں سے لے کر بین درہ تک جہاں سے ضلع بنوں کو راستہ جاتا ہے کوئی 71 درے واقع ہیں۔چند مشہور درے یہ ہیں۔ درہ وھووا، درہ زاؤ، درہ گمل، درہ ٹانک زام اور درہ شُزہ وغیرہ۔یہ سارے درے کوہ سلیمان کے سلسلے سے ہو کرگزرتے ہیں۔کوہ سلیمان سے آگے چھوٹے موٹے پہاڑوں کے درمیان بھی درے بنے ہوئے ہیں۔ درہ وھووا، درہ زاؤ اور درہ گمل تحصیل ٹانک کی باونڈری لائن سے منسلک ہیں۔سارے دروں کی تفصیل باب پنجم میں تفصیل سے لکھی گئی ہے۔

دامان: کوہ سلیمان کے مشرقی نشیبی حصے سے لے کر دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک پھیلی وسیع پٹی کو دامان کہا جاتا ہے۔ لفظ دامان دراصل دامن کوہ سے اخذ کیا گیا ہے،یعنی ایسا خطہ زمین جو پہاڑ کے دامن میں واقع ہو۔یہاں کے مقامی لوگ اسے اپنی زبان میں دَمان کہتے ہیں۔دامان شمالاً،جنوباً اورمغرباً ایک کھلے میدان کی شکل میں مغربی جانب کے پہاڑ (کوہ سلیمان) کے ساتھ ساتھ دور تک پھیلا ہو اہے۔کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کی سب سے بلند چوٹی کا نام تخت سلیمان ہے،جو 11,295فٹ بلند ہے۔

دریائے سندھ کے ساتھ پیوستہ دامان کے مشرقی حصے کو کسی زمانے میں ”مکل واد“ بھی کہا جاتا تھا،لیکن بعدمیں اس نام کا استعمال آہستہ آہستہ ترک ہونے لگا اور پوری پٹی کیلئے صرف ایک متفقہ اصطلاح (دامان/دَمان) استعمال کی جانے لگی۔ ابھی بھی کبھی کبھار اس علاقے کو مکل واد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہاں کے مقامی (دامانیوں) کے نزدیک مکلواد کا مقصد دریا کے مشرقی حصے کو کوہ سلیمان کی پہاڑی سے منسلک مغربی حصے سے علیحدہ کرنا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ مغربی جانب کا پہاڑی علاقہ پٹھان قبائل کا رہائشی علاقہ کہلاتاہے۔

دامان کے علاقے میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے دریا پار کا سارا علاقہ شامل ہے،بلکہ دوسرے لفظوں میں دریا پار کا سارا خطہ دامان ہی ہے۔دریا پار کے اس خطے کے شمال میں پہاڑپور،رنگ پور،پنیالہ اور خیسور کی پہاڑیاں ہیں۔دامان کی سطح زمین بلیئرڈ کی میز کی طرح ہموار ہے۔اس پورے علاقے میں درخت ناپید ہیں اور زیادہ تر خطہ خشک و بنجر ہے۔کہیں کہیں لانا درخت کی جھاڑیاں اُگی دکھا ئی دیتی ہیں۔قدرتی طور پر یہاں گھاس نہیں اگتی اور دور تک مٹیالے رنگ کا سخت میدان پھیلا دکھائی دیتاہے۔

دامان کی زمین آتشیں مٹی کی طرح خصوصیات کی حامل ہے۔جب یہ خشک ہو جائے تو اسے ہموار کرکے قابل کاشت بنایا جاتا ہے۔یہ چونکہ چکنی ہے اسی لیے پانی اس میں جلد جذب نہیں ہوتا۔عموماً سال میں ایک بار بارش ہوتی ہے،اور جہاں جہاں بارش کا پانی ٹھہرتاہے وہ جگہ نرم ہو کر کیچڑ بن جاتی ہے جس پر سے گزرنا دشوار ہو جاتا ہے۔بارشوں کے موسم میں یہ علاقہ سر سبز و شاداب ہو جاتا ہے،دوسری صورت میں یہ خشک و بنجر رہتا ہے۔

دامان کی مٹی قدرتی طور پر کافی زرخیز ہے۔جہاں جہاں سے پہاڑی ندی نالوں اور بارش کا پانی گزرتا ہے،وہاں کی اردگرد کی زمین کو ہموار کرکے اسے قابل کاشت بنایا جاتا ہے،مگردامان کے وہ علاقے جو بارش کے پانیوں اور پہاڑی ندی نالوں سے دوری پر ہیں،وہاں کچھ نہیں اگتا۔دامان کی سخت زمین جب بارش کے پانی کے باعث گیلی پڑتی ہے تو عموماًکیچڑ میں تبدیل ہو جاتی ہے،جس پر بھیڑ بکریوں کے چلنے سے جگہ جگہ کچلے جانے کے بعد خشک ہوتے ہی دوبارہ سے پتھریلی بن جاتی ہے۔اس قسم کی زمین کو مقامی زبان میں کُرے کہتے ہیں۔اگرچہ بارش کا پانی دامان کی مٹی کو گیلا ضرور کرتاہے لیکن اس کی سیرابی کا زیادہ ترانحصار ندی نالوں میں آئی طغیانیوں پر ہی ہوتا ہے۔یہ ندی نالے دامان کو کئی اطراف سے کاٹ کر نکلتے ہیں اور اپنے کناروں کے اردگرد کے علاقوں کو سیراب کرتے چلے جاتے ہیں۔جہاں جہاں پر ندی نالوں کے کنارے چوڑے ہیں وہاں اردگرد درخت بھی اگے دکھائی دیتے ہیں۔ان علاقوں کو مقامی زبان میں کچا کہا جاتا ہے اور یہاں کی زمین سے گندم کی پیداور حاصل کی جاتی ہے۔

دامان کے اکثر ندی نالے سال کے بیشتر دنوں میں خشک رہتے ہیں،مگر بارشوں کے موسموں میں یہ پانی سے لبالب بھر جاتے ہیں،جو بڑی تیز رفتاری سے سندھ دریا کی طرف بہنے لگتا ہے۔ان پہاڑی ندی نالوں کے بارے میں مکمل تفصیل مسٹر ٹکرکی ”آبادکاری“ رپورٹ میں درج ہے۔سارے پہاڑی ندی نالوں میں سال بھر تھوڑی تھوڑی مقدار میں پانی رواں رہتاہے،جو بالآخر دریائے سندھ میں جا کر مل جاتا ہے۔ دامان کے نالوں میں بہنے کا یہ سیلابی پانی چونکہ بارشوں کا پانی ہوتاہے جو دامان کی مٹی میں ملنے کے باعث گدلی مائل رنگت میں تبدیل ہو جاتا ہے،پانی کی ا س قسم کو کالا پانی کہا جاتا ہے۔پورا سال چلنے والے ان ندی نالوں کو مقامی زبان میں زام بھی کہتے ہیں، جیسا کہ چودھوان زام اور ٹانک زام وغیرہ وغیرہ۔

سرد موسم سے موسم بہار تک ان زاموں میں پانی کی مقدار تبدیل ہوتی رہتی ہے۔اس عرصے کے دوران گومل زام میں 200 مکعب فٹ فی سکینڈ،درابن زام میں 20مکعب فٹ فی سیکنڈ اورچودھوان زام میں 40مکعب فی سیکنڈ ریکارڈ کی گئی ہے۔طغیانی کے پانی کی طرح اگر پہاڑ سے آنے والے کالے پانی کو بھی اسی طرح چھوڑ دیا جائے تو ا س کی بڑی مقدار تیز دھار کی طرح دامان کے اردگرد کے علاقے کو خشک چھوڑتی سندھ دریا میں جا گرے گی۔

(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: