اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر امان اللہ کلینک کی یادیں۔۔۔عباس سیال

دس پندرہ منٹ گزرنے کے بعد زنانہ سیکشن سے آوازیں ا ٹھنا شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر صیب کوں سڈو، ڈاکٹر صیب کوں سڈو

ایک زمانہ تھا جب طب کے حوالے سے ہمارا شہر چار ڈاکٹروں، دو حکیموں اور ہڈی پسلی کے ماہر سرجن کی مرہون منت تھا،اگرچہ شہر میں سرکاری ہسپتال شروع دن سے موجود تھا مگر سول ہسپتال کی ذلت و خواری سے بچنے کیلئے زیادہ تر لوگ ڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹرغلام قاسم، ڈاکٹر ناصر اور ڈاکٹر بگو کے مطب کو ترجیح دیتے تھے، اس کے علاوہ حکیم سبطین عرف سبطو شاہ، گھٹنوں،جوڑوں، پٹھوں،ہڈیوں کی سوجن اورپیپ دانوں کے ماہر نازو خان اور ڈگری کالج مردانہ کے نزدیک حکیم شمس الدین آب حیات والے کافی مشہور تھے۔

اپنے پیشے کے لحاظ سے سارے مسیحا تھے مگرڈاکٹر امان اللہ ایک خدا ترس انسان تھے کہ جن کی نہ صرف فیس کم تھی بلکہ وہ اکثر مریضوں کو بلا معاوضہ بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔

ہماری ماسی کو اللہ غریقِ رحمت کرے جب کبھی موضع حسام سے ڈیرہ تشریف لاتیں تو اپنے ہمراہ کسی نہ کسی مریضہ کو بھی ساتھ لے آتیں اور ہمارے گھر کچھ دیر سستا کر مریضہ کو ساتھ لئے اکثر ڈاکٹر کے پاس جاتیں، رات کوہمارے ہاں قیام کرتیں، دوسرے دن ٹانگے پر سوار ہوکر واپس اپنے گھر حسام چلی جاتی تھیں۔ وہ ایک بار آئیں تو ہاتھ پاؤں میں کھجلی کی شکایت کر رہی تھیں۔اماں کے پوچھنے پر ماسی نے بتایا کہ انہیں گزشتہ کئی دنوں سے ہاتھ پاؤں میں خارش ہو رہی ہے اسی لئے آج ڈاکٹر کو دکھانے کیلئے آئی ہیں۔چائے پینے کے بعدماسی نے اپنے ساتھ لائی گرائپ واٹر کی خالی شیشی اٹھائی، شٹل کاک برقع پہنا اور اعلان کیا۔میں ذرا ڈاکٹربگو کوں ڈِکھائی آواں، وت آندی پئی ہاں۔ماسی ابھی جانے کیلئے پر تول رہی تھیں کہ اماں کہنے لگیں۔ بگو کھنگ زکام دا ڈاکٹرھ، امان اللہ دو لگی ونج۔ اماں کی بات سنتے ہی میں نے درخواست کی۔اماں، میں ماسی نال لگا ونجاں؟۔۔ ٹھیک ھ ونج۔

یہ سنتے ہی خوشی خوشی ماسی کے ہاتھ سے خالی شیشی پکڑی اور دونوں ماسی بھڑینجا ڈاکٹر امان اللہ کی دکان کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔

مسلم بازار میں گلی جمنداں کے کونے پر لگے بجلی کے ٹرانسفارمر کے سامنے سے گزرنے کے بعد دائیں جانب دو سائلنسروں والی موٹر سائیکل دیکھتے ہی ماسی کو کہا۔ماسی! ڈاکٹر صیب ہسپتال وچ ہن، کیوں جو اُنہاں دی موٹر سیکل کھڑی ہے۔

ڈاکٹر امان اللہ کلینک کے دو داخلی دروازے تھے۔ایک بڑا دروازہ سطح زمین سے غالباً ڈیڑھ میٹر بلند تھاجہاں سیڑھیاں چڑھ کراندر پہنچا جاتا تھا جبکہ دوسرا چھوٹادروازہ خواتین کیلئے مختص تھا جو ایک وسیع و عریض مستطیل ہال سے منسلک تھا۔زنانہ ہال کے تینوں اطراف دیواروں کے ساتھ پیوستہ پنچوں پر زنانہ مریض اور بچے بیٹھا کرتے تھے اور ہال کو بڑے سے پردے کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا تھا جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع تھا۔زنانہ ہال میں داخل ہوتے ہی ماسی کسی جان پہچان والی خاتون کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئیں۔ ہمارے سامنے والے بنچ پر کوئی خاتون بچہ گود میں اٹھائے بیٹھی تھیں، اسی اثناء میں ناک پر عینک لگائے کوئی کمپاؤنڈر سٹیل کی تھالی ہاتھ میں پکڑے اندرداخل ہوا اور اس خاتون کے قریب جا کر رک گیا۔ تھالی کے اندر کپاس کا گولہ، سرنج اورانجکشن کی چھوٹی شیشی تھی۔انجکشن کی دوائی کو سرنج کے اندر بھرنے کے بعد کمپاؤنڈر نے خاتون سے کہا۔

بال دِی بُنڈھڑی کڈھ، سُوا لاونڑے۔خاتون نے یہ سنتے ہی گود میں بیٹھے بچے کو الٹا لٹا کر ران کے تھوڑا سا اوپر کولہو کے پٹھے کو عیاں کیا،کمپا ؤنڈر نے الکحل سے بھیگی کپاس کے بُنڑوے(گولے) کو سوئی والی جگہ پر رگڑنے کے بعد ٹیکہ لگا دیا۔سوئی کی نوک چبھتے ہی بچہ درد کی شدت سے ایسا تڑپا کہ ساتھ بیٹھی دوسری خاتون نے اس کی ٹانگ پکڑ لی مبادا سوئی گوشت کے اندرنہ ٹوٹ جائے۔انجکشن لگانے کے بعد کمپاؤنڈر شریر مسکراہٹ بکھیرتا واپس چلا گیا۔یہ حسینوں کمپاؤنڈر تھے،ڈیرے کا واحد دلیر مرد کہ جس سے ڈیرہ بھر کی عورتیں ڈرتی تھیں اور وہ اپنے ظالمانہ انجکشنوں کے بہانے شہر بھر کے مظلوم مردوں کا بدلہ لیا کرتا تھا، حیسنوں کے لگے انجکشن کی سوجن دو تین دن تک برقرار رہتی تھی۔بچے کی حالت دیکھ کر پاس بیٹھی عورت بول پڑی۔۔۔ حسینوں بندہ نیں قصئی ہے، مسوم بال داحال تاں ڈیکھ گھن، کتنا بھاری ہتھ ہے بی بختے دا۔۔ شاہ صیب سُوا ٹھیک لاندے، جمشید وی گزارا کریندے, حسینوں قصئی ہے۔ساری عور توں نے اس عورت کی ہاں میں ہاں ملائی۔

دس پندرہ منٹ گزرنے کے بعد زنانہ سیکشن سے آوازیں ا ٹھنا شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر صیب کوں سڈو، ڈاکٹر صیب کوں سڈو۔۔عورتوں کا احتجاج دیکھتے ہی ماسی بولی،توں ڈاکٹر کوں ونج کے آکھ کہ زالیاں کوں ڈیکھ ونجے۔میں ہال کاپردہ سرکا کر ڈاکٹر امان اللہ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ ڈاکٹر امان اللہ اپنے مخصوص پینٹ کوٹ میں ملبوس ساتھ بیٹھے کسی پڑھے لکھے شخص کے ساتھ فلموں پر بات چیت کرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کو بھی برابر چیک کر رہے تھے، ساتھ ہی کلینک کے قابل کمپاؤنڈر شاہ صاحب کسی مریض کو انجکشن لگا رہے تھے۔مردانہ حصے میں کھڑے ہو کر جونہی زنانہ ہال کے پردے پر نظر پڑتی تو ایسے گمان ہوتا جیسے کسی سینما ہال کے دبیز پردے کے پیچھے خواتین کی آوازیں، انجکشن والے بچے کی چیخیں اور جمشید کمپاؤنڈر کے قہقہے امڈ امڈ کر باہر آ رہے ہوں۔

ڈاکٹر کے ساتھ بیٹھے شخص نے مینا کماری کی فلم پاکیزہ کا ذکر چھیڑ رکھا تھا اور ڈاکٹر صاحب اسے بتارہے تھے کہ ”پاکیزہ تو بہت بعد میں بنی تھی، مینا کماری کو اصل پہچان ”بیجو باورا“ سے ملی تھی۔تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا، بچپن کی محبت کو وغیرہ کیا گانے تھے، کیا سپر ہٹ فلم تھی اورکیا غضب کی ایکٹریس تھیں مینا کماری،افسوس جگر کے عارضے میں مبتلا ہو کر جوانی میں فوت ہوگئی تھیں“۔پرانی فلموں کے بارے میں ڈاکٹرامان اللہ کا شوق اور مطالعہ دیکھ کر میں کسی بت کی طرح حالت ِ سکوت میں کھڑا تھا کہ اسی اثناء میں جمشید کمپاؤنڈر نے آکر کہا۔ ڈاکٹر صیب ہال میں عورتوں کا جگمگھٹا لگا ہوا ہے،یہ سنتے ہی ڈاکٹرامان اللہ نے سٹیتھو سکوپ اٹھایا اور جمشید کے پیچھے ہال کے اندر داخل ہوگئے۔جمشید کسی خاتون کو ٹیکہ لگانے میں مصروف ہو گیا جبکہ ڈاکٹرامان اللہ میری ماسی کے ساتھ بیٹھی کالے برقعے میں ملبوس ایک عورت سے مخاطب ہوئے۔ ان دنوں ڈیرہ میں چادر کا چلن عام نہیں تھا، خواتین سفید شٹل کاک اور لڑکیاں کالا فیشنی برقع پہنا کرتی تھیں۔ جی بتائے کیا مسئلہ ہے؟ ڈاکٹر صیب ڈُوپاراں کول پیٹ وِچ سخت مروڑ اٹھ رہی ہے؟ جی کیا کھایا تھا؟ڈاکٹر صیب گھر میں بُہاری دینے کے بعد بتوؤں کھائے تھے۔۔ ہاں ہاں بتاؤ۔۔ ڈاکٹر صیب بتوؤں۔۔جی جی وہی توپوچھ رہا ہوں کہ بتاؤ۔۔ ڈاکٹر صیب وہی تو کہہ رہی ہوں کہ بُہاری دینے کے بعد بتوؤں کھائے تھے۔ڈاکٹر امان اللہ نے مجبوراً جمشید کو مد دکیلئے پکاراکہ اس خاتون سے دریافت کرے کیا کھایا تھا؟جمشید باچھیں کھولتے ہوئے اس سے پوچھنے لگے۔۔۔ہاں بی بی ڈسا کیشے کھادی ہاوِی؟۔ میں ڈاکٹر صیب کوں کہہ تو رہی ہوں کہ ”بتوؤں کھائے تھے“مگر ڈاکٹر صیب کوں میری سمجھ نہیں آرہی ہے۔

اوئے اللہ تیکوں ہدایت ڈیوے سدی طراں آکھ جو بینگن کھائے تھے۔ڈاکٹر امان اللہ بینگن کا قصہ سننے کے بعد ہلکے سے مسکرائے تو جمشید کمپاؤنڈر درمیان میں بولے۔۔ ڈاکٹرصاحب ڈھکی موڑ سے قریشی موڑ، دین پور روڈ سے دریا کنارے تک۔۔ڈیرہ میں واحد آپ کا کلینک ہے کہ جہاں اردو بولی، سمجھی اور سیکھی جاتی ہے۔یہ عورتیں بیمار نہیں ہوتیں بلکہ آپ کے ساتھ نیلی پیلی گلابی اردو بولنے اور سیکھنے سمجھنے کیلئے آتی ہیں۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر امان اللہ نے ایک بھرپور قہقہہ مارا، دوائی لکھی اور ماسی کی طرف متوجہ ہوئے۔ ماسی نے ٹھیٹھ سرائیکی میں اپنا دکھڑا سنایا۔ ڈاکٹر امان اللہ بولے چونکہ موسم سرد اور خشک ہے اسی لئے جلدی خارش آج کل عام ہے، فکر مت کریں جلد افاقہ ہو جائے گا۔ڈاکٹر صاحب نے نسخہ تجویز کیا، ماسی نے بوچھن کے کونے میں لگی گانٹھ کھول کر ایک ایک روپے کے چار مرڑے ترڑے نوٹ باہر نکالے، ڈاکٹر صاحب نے بغیر گنے پیسے اپنی جیب میں ڈالے،نسخے کی پرچی جمشید کے حوالے کی اور اگلی مریضہ کی طرف بڑھ گئے۔میں دوائی کی خالی شیشی پکڑے جمشید کمپا ؤنڈر کے ہمراہ دوائیوں والے سیکشن میں پہنچا، اس نے لال رنگ کی دوائی سے شیشی بھری، کچھ گولیاں اور خارش کی کریم تھماتے ہوئے دوائیاں کھانے کی ترکیب و ترتیب سمجھائی،میں زنانہ ہال کے اندر واپس آیا، وہاں سے ماسی کو ساتھ لیا اور گھر کی راہ لی۔ عباس سیال

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: