اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تباخی ۔۔۔گلزار احمد

مجھے یہ نہیں پتہ کہ سرائیکی کا تباخی لفظ کہاں سے آیا لیکن ہم چھوٹے تھے تو جو بندہ سالن تیار کر کے بیچتا تھا اس کو تباخی کہتے تھے۔

مجھے یہ نہیں پتہ کہ سرائیکی کا تباخی لفظ کہاں سے آیا لیکن ہم چھوٹے تھے تو جو بندہ سالن تیار کر کے بیچتا تھا اس کو تباخی کہتے تھے۔

ایک مقولہ بھی مشھور تھا۔۔تباخی دی اول تے قصائی دی چھیکڑ ۔جس کا مطلب تھا اگر سالن بیچنے والے تباخی سے پہلے پہلے سالن خریدیں تو بہت عمدہ ملے گا آخر میں سالن میں نہ بوٹیاں نہ گھی بس پتلا پانی اور مصالحے رہ جاتے ہیں اس لیے پہلے خریدنے والا فاعدے میں رہتا ہے اسی طرح قصائی کے پاس آپ پہلے پہلے جائیں تو وہ چھیچھڑے اور ہڈیاں دے گا اور آخر میں ران کا گوشت بیچتا ہے۔بچپن میں اپنے رشتہ داروں کے گھر شھر جاتا تو بازار میں جگہ جگہ تباخی سالن پکا کے بیچ رہے ہوتے۔ہمارے ڈیرہ شھر میں آج بھی ایک مشھور گلی کا نام ڈبہ تباخی والی گلی ہے ۔

شھر کے بازار میں جگہ جگہ سرے پاے۔اوجھری۔آلو گوشت۔چھولے۔سیخ کباب۔بہت صاف ستھرے اور عمدہ کوالٹی میں سستے نرخ پر مل جاتے تھے۔بس ایک کٹوری یا مُنگری اور کچھ سکے ہاتھ میں لے کر جاتا اور منگری بھر کے سالن واپس گھر آکے دو بندے آرام سے کھاتے۔

مجھے سمجھ نہیں آتی وہ کاریگر قسم کے باورچی کہاں چلے گیے جن کے نام سے پکوان مشھور تھا اور اب تو ایسی دکان بھی نظر نہیں آتی جہاں سالن بیچنے والا تباخی بیٹھا ہو اس کے ہاتھ میں لمبا چمچہ ہو اور اردگرد بچوں اور بڑوں کا رش ہو جو ہاتھ میں منگریاں تھامے کھڑے ہوں۔

اب پیزے کا زمانہ ہے ہمارے بچے 1500روپے میں تین پیزے لے آتے ہیں اور بڑے خوش ہوتے ہیں کہ دو کی قیمت میں تین پیزے مل گیے۔ کبھی کبھی میں ان کو بتاتا ہوں کہ یار آپ کی عمر میں ہم پندرہ روپے میں ایک بکری خرید لیتے تھے جس کے دو بچے ساتھ ہوتے اور دو کلو صبح دو شام دودھ دیتی تو وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں اور کبھی تو میں خود سر ٹٹولنے لگتا ہوں یار کہیں ایسا تو نہیں کہ میں خود پاگل ہو گیا ہوں۔

تین چار سال پہلے میرے ایک پیارے راج دلارے دوست نے قریشی موڑ کے قریب ایک ہوٹل ڈھونڈ نکالاجو پچاس روپے کی فل ڈیلکس پلیٹ پکی پکائی روسٹ گوشت کی دیتا اور ہمارا دوست ہفتے میں دو دن انجاۓ کر کے آتا اور مجھے بھی دعوت دے رکھی تھی۔ میرا بلڈپریشر ذرہ اونچا چل رہا تھا معذرت کرتا رہا۔ایک دن شام کو ملا تو کہنے لگا یار گلزار وہ ہوٹل والا تو گدھے ذبح کر کے پکاتا تھا آج پولیس بمع مال مسروقہ پکڑ کے لے گئی۔

مجھے ہنسی آ گئی تو کہنے لگا آپس کی بات ہے حرامی ہوٹل والے کے ہتھ میں چَس بڑی تھی یعنی روسٹ گوشت غضب کا پکاتا تھا۔ میں نے اپنے رپورٹنگ کے پیشے میں ملک کے طول و عرض میں بڑے لمبے سفر کیے ۔ اکثر میں سڑک کے کنارے ہوٹلوں سے ایک تازہ تنوری روٹی تازہ چاے کے کپ کے ساتھ کھا کے کام چلاتا اور منزل پر پہنچ کر میزبان کے پاس یا اچھا ہوٹل تلاش کر کے کھانا کھاتا۔

میرے بچپن کے لاھور کے سفر کے لیے ساتھ لے کر جانے والے کھانوں میں دیسی گھی۔گڑ۔آٹا ملا کر ڈھوڈا پکا کر دیتے جو دو دن بالکل خراب نہیں ہوتا تھا اور جب بھوک ستاتی ایک بھورا لے لیتا جس سے پیٹ بھر جاتا۔ اسی طرح شامی کباب کی شکل کی مٹھڑیاں تل لی جاتیں جو چار دن تک فریش رہتیں۔

یہ مٹھڑیاں بھی گھی چینی آٹا مکس کر کے بنتیں۔میری نانی کے پاس گڈولیاں بنانے کا فارمولا تھا جو ہوتی تو مٹھڑیاں کی شکل کی مگر بڑی اور اندر سے خلا بن جاتا ان کی لذت مختلف تھی ۔وہ ان گڈولیوں میں سمندر کی جھاگ اور زیرا پنساری سے خرید کر ڈالتی تھی۔اب کافی عرصے سے گڈولیاں کہیں نہیں دیکھیں۔ میری پسندیدہ ترین چیز پنجیری تھی اور ہے ۔

پنجیری خالص گاے کے گھی۔چینی اور آٹے سوجی میں بھون کر تیار ہوتی ہے جس میں بادام اخروٹ گری ملا دی جاتی اور ایک ہفتہ تک چل جاتی۔ شادیوں میں بھی دلھن کے گھر پنجیری کے تھال دلھا کے گھر سے آتے تھے۔

جب چھٹیوں کے بعد لاھور واپس لاھور جاتا مجھے ڈیرہ سے لاھور پہنچتے دو دن لگتے تھے۔ایک سارا دن ایس ایس جہلم جہاز دریا کو عبور کرنے پر لگاتا۔ اگر جہاز میں کوئی بارات جا رہی ہوتی تو ڈھول والے ساتھ ہوتے اوپر عرشے پر وقفے وقفے سے جھومر دریس گانا بجانا ڈھول شہنائی شرنا کا میوزک چلتا رہتا اور وقت جلدی پاس ہو جاتا۔جہاز کے کچن سے تازہ پکی دال اور روٹی بھی مل جاتی تھی۔ویسے جب چاروں طرف پانی ہی پانی ہو ۔

مرغابیوں ۔منگھ کے پرندوں کی آوازیں ہوں اور شہنائی پر گیت گایا جا رہا ہو تو مزہ بڑا آتا۔اکثر ؎ بھانویں جانڑیں یار نہ جانڑیں شالا ڈھول جوانیاں مانڑیں کا گیت چلتا رہتا۔ دریا خان پہنچتے شام ہو جاتی اور وہاں سے ٹرین پکڑ کر کندیاں رات کو گیارہ بجے پہنچتے۔ پھر رات دوبجے ماڑی انڈس ٹرین کندیاں سے روانہ ہو کر دوسرے دن دوپہر کو لاھور سٹیشن اتار دیتی۔

رات تک سر چکراتا رہتا۔ میری ماں مجھے ڈھوڈے۔پنجیری۔مٹھڑیاں پکا کے ایک ہفتے کا کوٹہ دے دیتی کہ بچہ کہیں بھوکا نہ رہے۔ میرے لاھوری دوستوں کو پتہ تھا کہ میں ڈیرہ سے سوہن حلوہ۔اور پنجیری وغیرہ کا راشن ساتھ لاتا ہوں تو وہ دوسرے دن خوب جشن مناتے اور دوپہر تک سارا کوٹہ صاف کر دیتے۔

ادھر میری ماں کو پکا یقین تھا میں ہر صبح اس کی بنی پنجیری کھا رہا ہونگا جبکہ میرے سامنے باقر خانی اور ڈبل روٹی ہوتی تھی۔ ہمارے گاوں میں رواج تھا جب کسی کی آس مراد پوری ہوتی تو گھنگھڑیاں پکا کر اللہ کے نام پر خیرات کی جاتیں۔

یہ کالے چھولے ہوتے تھے جن کو مصالحہ ڈال کے دیگچی میں ابال لیا جاتا اور کافی لذیذ بن جاتے۔ پلیٹ کی جگہ کچالو کے بڑے بڑے پتوں پر رکھ کر تقسیم کر دیے جاتے۔ میں ایک دن مکتہ المکرمہ میں فائیر بریگیڈ سائیڈ سے حرم پاک داخل ہو رہاتھا تو دیکھا ایک اللہ والی خاتوں شٹل کاٹ برقعہ پہنے بیٹھی ہاتھ میں ایک چمچہ اور چھوٹی سی دیگچی میں پکا کر کوئی چیز بانٹ رہی ہے مجھے اپنے گاوں کی گنگھڑیوں کی خیرات یاد آ گی پھر فورا” خیال آیا کہ اس بی بی کے ایک چمچے کی خیرات تو ہمارے ایک لاکھ چمچے خیرات کے برابر ہے۔ بس اللہ بھی ہمیں اپنی رحمت کی جوش کے بادل اور بارش کہاں کہاں دکھاتا رہا۔اللہ اکبر۔

%d bloggers like this: