مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پولیس کی مساجد کھلی کچہریاں اور انصاف۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

آفیسران کی کھلی کچہریاں دفتروں میں یا تھانوں میں، بے شک کھلی کچہریوں کا انعقاد مساجد میں کیا جائے.

کھلی کچہریوں کا آغاز کب ہوا،کہاں سے ہوا، کس نے کیا، اس کی غرض وغایت کیوں پیش آئی.کھلی کچہریوں کے مقاصد کیا تھے اور اب کیا ہے. کھلی کچہریوں سے عوام کو کس قدر حصول انصاف اور مسائل کے حل میں مدد ملی. ان سوالات کے جوابات کے لیے علیحدہ علیحدہ تفصیلی کالم درکار ہیں. بہر حال شروع سے اب تک کھلی کچہریوں کے مقاصد میں جو نقطہ سرفہرست بتایا جاتا ہے وہ بڑے آفیسران تک عوام کی بلا روک ٹوک، آسان اور قریب تر رسائی ہے.دفتری اور دیگر رکاوٹوں، ماتحت عملے و سٹاف کی ہیرا پھیریوں اور طرفداریوں کی وجہ سے سائلین کی مشکلات کو حل کرنا اور انصاف کی فراہمی ہے. دور جدید میں سائلین کو مطمئن کرنا اور دلاسہ دینا بھی کھلی کچہریوں کے مقاصد میں شامل ہے
میرے آج کے کالم کا مقصد کھلی کچہریوں کی تاریخ بتانا ہرگز نہیں ہے. گذشتہ کئی روز سے میں دیکھ رہا ہوں کہ رحیم یار خان سٹی سرکل کا ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی تواتر کے ساتھ اپنے سرکل کے مختلف تھانہ جات کے علاقوں میں وہاں کی مساجد میں کھلی کچہریوں کا آغاز کیے ہوئے ہے. باقاعدہ مسجد میں کھلی کچہری بارے پہلے اعلان کیا جاتا ہے. میں سمجھتا ہوں کہ ڈی ایس پی موصوف کی یہ دور اندیشی اور نیک نیتی ہے. تھانوں سے متعلق تھانوں میں سجائی جانے والی کھلی کچہریوں بارے پہلی بات تو یہ ہے کہ لوگوں کو پوری طرح اطلاع ہے نہیں دی جاتی. چند مخصوص لوگوں کو بلا کر کاروائی شو کرکے خانہ پری ہو جاتی ہے.اِدھر اُدھر سے کچہری بارے جان کر وہاں پہنچ جانے والے حقیقی متاثرین کو پولیس کی جانب سے انہیں ٹیکنیکل طریقے سے اِدھر اُدھر کرنے کا بھی خوب بندوبست ہوتا ہے. میرا مقصد ان کھلی کچہریوں کا اندرونی بڑا آپریشن کرنا بھی نہیں ہے کیونکہ وطن عزیز میں پولیس کی مخالفت کرنا انتہائی مہنگا اور نقصان دہ کام ہے. سیانے لوگوں کی جانب سےگریز اور اجتناب میں ہی بچاؤ اور بہتری بتائی جاتی ہے.کرپشن اور رشوت خوری کا خاتمہ کرنے کے لیے لگائی جانے والی کھلی کچہریوں میں بیٹھنے کے انتظامات بھی اکثر کسی اور یعنی مافیا نما کے ذمے ہوتے ہیں.خیر اس طرح کی پھٹکیں تقریبا ہر محکمہ میں کسی نہ کسی کو بھگتنی ہی پڑتی ہیں.آگے پھر آپ خود سمجھ دار ہیں
ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی نے مساجد میں کھلی کچہریوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے. اول لوگ یہاں بآسانی اور بلا روک ٹوک پہنچ جاتے ہیں دوسرا یہ کھلی کچہری اخراجات فری ہوتی ہے. اس کے لیے کسی کو انتظامات کرنے اور پھر بدلے میں جائز نہ جائز ریلیف دینے کی مجبوری یا شراکت داری کا خاتمہ ہوا ہے. اگلی بات کے ان کھلی کچہریوں سے ماضی اور ماضی قریب کی نسبت کچھ فائدہ بھی ہو رہا ہے یا نہیں. بلاشبہ پولیس کے ظاہری رویوں میں تو ماضی کی نسبت خاصی مثبت تبدیلی محسوس ہوتی ہے. جہاں تک پولیس کی جانب سے میرٹ اور بلاتفریق انصاف ملنے کی حقیقت کا تعلق ہے. اس بارے مختلف کیسز کے ٹرائلز اور نتائج کا جائزہ لینا پڑے گا. سیاسی مداخلت کچھ نہ کچھ کم ضرور ہوئی ہے مگر اس کے خاتمے کی بات سے کسی طرح بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا. جس دور میں جس دن پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنا دیا گیا یقین کریں ففٹی پرسنٹ سے زائد معاملات اور مسائل از خود ختم ہو جائیں گے.پولیس میں کئی مثبت اصلاحات کے باوجود بھی پولیس کے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں.یہ کالی بھیڑیں ڄود جرائم کرتی ہیں یا جرائم میں شراکت دار ہوتی ہیں.اس شراکت داری کی وجہ سے نقل و حرکت محفوظ ہو جاتی ہے.ایسے کئی لوگ ٹریس بھی ہوئے ہیں. یہ کالی بھیڑیں جو پورے ڈیپارٹمنٹ کی بد نامی کا باعث بنتی ہیں. اچھے اور ایماندار آفیسران اور اہلکاروں کو بھی لوگوں کی اکثریت ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے.رحیم یار خان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے جاوید اختر جتوئی اور رانااکمل رسول جیسے اصلاحی سوچ کے حامل آفیسرز بیک وقت ایک ساتھ ملے ہیں. دونوں عوامی ہیں.ہر دو کو اچھا جرائم ٹریسر بھی کہا جا سکتا ہے. رحیم یار خان شہر میں جاوید اختر جتوئی پہلے ڈی ایس پی ہے جس کی عوامی حلقوں میں اچھے لفظوں سے تعریف ہی سنی ہے. مافیاز اور بے لگام قسم کے سیاست دان تو خوش دکھائی نہیں دیتے. کرپٹ اہلکاروں کو بھی ان کی یہ مساجد کھلی کچہریاں گراں گزرتی ہیں. شہر میں مختلف ملٹی قسم کے قبضہ گروپس پر نظر رکھنے اور عوام کو ان کے گھناؤنے طریقے ہائے واردات سے بچانے کی اشد ضرورت ہے. مختلف شعبہ جات کے لوگوں پر مشتمل ایسے گروہوں کا مستقل ریکارڈ مرتب کرنے کی ضرورت ہے.رحیم یار خان میں جعل سازی کے ذریعے بلیک میلنگ کر کے عوام کو لوٹنے اور ان کی جائیدایں ہڑپ کرنے والے کئی چھوٹے بڑے گروہ موجود ہیں. پتیاں اور شرکت داری کاسسٹم چلتا ہے.عام آدمیوں کا موقع سے لیکر تھانے اور وہاں سے کچہری تک لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے.جاوید اختر جتوئی جیسا جرائم ٹریسر آفیسر ہی ایسے گروہوں کو بے نقاب کر سکتا ہے. ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی نے پولیس کے بعض گلٹی لوگوں کے خلاف بھی کاروائیاں کرکے اس تاثر کو ذائل کرنے کی اپنے تائیں کوشش کی ہے کہ پولیس پولیس کے خلاف کچھ نہیں کرتی.
ویسے ایک بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ رحیم یار خان میں گذشتہ کئی ماہ کے دوران شراب کی بڑی بڑی کھپیں پکڑی گئی ہیں. اکثر دیسی شراب اور کپی شراب ہوتی ہے. ولایتی شراب کیونکر نہیں پکڑی جاتی. کیا اس کی وجہ مضر صحت شراب اور معیاری شراب کی ہے یا کوئی اور. ہو سکتا ہے کہ اوپر سے صرف بندے مار شراب کے خلاف ہی کاروائی کے آرڈرز ہوں. کیونکہ ضلع رحیم یار خان میں ناقص شراب پینے سے ہر سال کئی کئی جگہوں پر ایک ساتھ درجنوں کے حساب سے اموات واقع ہو جاتی ہیں. عموما ایسے واقعات کے بعد ہی چھاپوں کا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے. دوسری بات پکڑی جانے والی ایف آئی آر میں درج شراب و منشیات کہاں جاتی ہیں. اسے کہاں سٹور کیا جاتا ہے.کتنے عرصے بعد کس کی نگرانی میں اسے تلف کیا جاتا ہے. کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ پکڑی جانے والی شراب اپنے مخصوص لوگوں کے ذریعے بیچ دی جاتی ہے.ان رجسٹرڈ کی تو بات اور معاملہ ہی الگ ہوتا ہے. اندرونی راز رکھنے والوں کے مطابق منشیات پر چھاپوں کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں. مافیاز کے گروہوں کا باہمی ٹکراو، ٹسل بازی پولیس، ایکسائز اور دیگر نگران اداروں کا منتھلی کے تعین کے معاملات پر پھڈا وغیرہ.باہمی طے شدہ پروگرام کے تحت کارکردگی کاروائیاں بھی ہوتی ہیں. جن میں کسی چھوٹے کارندے کو پیش کیا جاتا ہے. ضلع رحیم یار خان سے آٹا گندم چینی اور ایرانی تیل کے کاروبار کے وسیع دھندے کی کہانی اور کہانی کے کرداروں کی صورت حال بھی بڑی دلچسپ ہے. خیر اسے پھر کسی وقت زیر بحث لائیں گے. خاص طور پر سمگل شدہ تیل کا پھیلا ہوا وسیع دھندہ اور اس کا طاقت ور نیٹ ورک.
محترم قارئین کرام،، آفیسران کی کھلی کچہریاں دفتروں میں یا تھانوں میں، بے شک کھلی کچہریوں کا انعقاد مساجد میں کیا جائے. بات میرٹ اور انصاف کی فراہمی کی ہے. مسائل کے حل، ریلیف اور آسانی کی ہے. اگر یہ چیزیں میسر آ رہی ہیں تو بہت ہی اچھی بات ہے ورنہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے. لوگوں کو کھلی کچہری کے دفتر مسجد مندر گرجا میں انعقاد سے کوئی غرض نہیں. انہیں بس انصاف چاہئیے، تحفظ چاہئیے، اپنے مسائل کا حل چاہئیے. چاہے جس جگہ سے ملے.یاد رکھیں لااینڈ آرڈرز، امن و سکون کے لیے قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور انصاف کی فوری و بلاتفریق فراہمی بنیادی چیز ہے.

%d bloggers like this: