مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اگر مطیع اللہ جان رہا نہ ہوتے؟۔۔۔ رضازیدی

خبر یہ لگتی کہ عدالت کی توہین کرنے والا مطیع اللہ جان روپوش ہوگیا، مطیع اللہ جان نے عدالتی کارروائی سے فرار اختیار کرلیا،

صحافیوں کے ساتھ ناروا سلوک، انہیں دھمکیاں ملنا، قتل اور اغوا جیسے واقعات پاکستان میں تواتر سے سامنے آرہے ہیں، کبھی سلیم شہزاد کے قتل کی شکل میں تو کبھی عمر چیمہ، حامد میر، احمد نورانی پر حملوں، کوئٹہ کے صحافی افضل مغل کے اغوا اور نوشہرو فیروز کے عزیز میمن کے قتل کی صورت میں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو ہدف بناکر قتل کیا گیا اور آج تک کسی ایک کے قاتل بھی کیفرِ کردار تک نہیں پہنچے، ایسے میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا وفاقی دارالحکومت سے اغوا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔۔

21 جولائی کی صبح مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس تھری سے اغوا کرلیا گیا، اور اغوا کی تصدیق اس کلوز سرکٹ کیمرہ کی فوٹیج سے ہوئی جو اغوا کے وقت کام کررہا تھا اور اغوا کاروں کی نظروں سے اوجھل رہا، یا پھر ان کی خودسری نے اسے غیر اہم سمجھا، لیکن وہ چند منٹ کی فوٹیج مطیع اللہ جان کو محرم سے مجرم بنانے کی راہ میں سب سے بڑی دیوار ثابت ہوئی

مطیع اللہ جان کو اگلے روز یعنی 22 جولائی کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے کیس میں طلب کررکھا تھا، اب سوچیے کہ اگر وہ سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر نا آتی تو کیا ہوتا؟ اگلے روز اخبار میں خبر کیا لگتی؟

خبر یہ لگتی کہ عدالت کی توہین کرنے والا مطیع اللہ جان روپوش ہوگیا، مطیع اللہ جان نے عدالتی کارروائی سے فرار اختیار کرلیا، اداروں اور عدلیہ پر تنقید کرنے والا مطیع اللہ جان فرار، قانون کی بالادستی کا نعرہ لگانے والا مطیع اللہ جان قانون کا سامنا کرنے کے بجائے بھاگ گیا وغیرہ وغیرہ، ممکنہ طور پر مطیع اللہ جان کی اہلیہ یا اہل خانہ کی جانب سے اغوا کے دعوے کو بھی ڈھونگ قرار دیا جاتا، ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے

اسلام آباد کے صحافی احمد نورانی پر حملے کے وقت، جب اطراف کے تمام سی سی ٹی وی کیمرے بند تھے اور احمد نورانی پر بدترین تشدد کیا گیا، موٹرسائیکل لاک کرنے والی راڈ اس کے سر پر ماری گئی، اور پھر اگلے روز ایک اخبار میں خبر لگی کہ احمد نورانی کا کسی لڑکی سے چکر تھا اور لڑکی کے بھائیوں نے احمد نورانی پر حملہ کیا، گو کہ آج تک وہ لڑکی اور اس کے بھائی منظر عام پر نہیں آسکے۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر نا آتی تو مطیع اللہ جان کے ساتھ کیا ہوتا؟ اور یہ سب سے خطرناک بات ہے

کیا معلوم اغوا کار مطیع اللہ جان کو زندہ بھی چھوڑتے یا نہیں، کیا معلوم مطیع اللہ جان کی اہلیہ ساری زندگی ان کو ڈھونڈنے کیلئے دھکے کھاتی پھرتیں، روز اس آس پر جیتیں کہ آج مطیع اللہ جان کے بارے میں کوئی خیر کی خبر ملے گی، ان کے بچے خود کو انتہائی غیر محفوظ سمجھتے، لوگ مطیع کی فیملی کو اور مطیع کے گھر والے لوگوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے۔

مطیع اللہ جان کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی فوٹیج نے جیسے آنکھوں کے سامنے سے تمام پردے ہٹا دیے۔۔ لیکن اتنا کافی نہیں، یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے

اختلاف یا تنقید کرنے والوں کو مناسب دلیل کے ساتھ جواب دینے کا رواج عام کرنا چاہیے، کیونکہ جن معاشروں میں اختلاف یا تنقید کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں شعور خودبخود ختم ہوجاتا ہے، اور بے شعوری کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی، یہ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے۔۔

%d bloggers like this: