مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسیحا یا جلاد۔۔۔محمد طارق قیصرانی

محمد طارق قیصرانی پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں ۔ڈیلی سویل پر آپ انکی تعلیم سمیت زندگی کے دیگر شعبوں سے متعلق بھی اچھوتی تحریریں پڑھ سکیں گے

آج وہ مہینے بھر کے ڈبل شفٹ کی مزدوری فیکٹری کے مالک سے وصول کرکے خوشی خوشی گھر آرہا تھا، خوش آخر کیوں نہ ہوتا کہ اسکی لاڈلی بہن دلہن بننے جا رہی تھی اور جہیز کیلئے صرف تھوڑی سی رقم رہ گئی تھی جو اب پوری ہونے والی تھی ۔

بازار سے جاتے ہوئے اس نے بچوں کیلئے ریوڑیاں خریدیں، مرغی والے سے ایک پاو گوشت لیا، فروٹ والے سے ایک کلو آم خریدے اور اپنی سائیکل پر بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ 

شہزادہ ماں باپ کا اکلوتا لاڈلا بیٹا تھا۔( پتہ نہیں کیا سوچ کر نام شہزادہ رکھا وگرنہ فقیر خان یا غریب خان بھی اچھے نام تھے) شہزادے کا باپ فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ ہر باپ کی طرح اسکی بھی خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔لیکن غریبوں کی خواہشات کب پوری ہوتی ہیں۔ ابھی شہزادہ صرف 12 سال کا ہی تھا کہ باپ داغ مفارقت دے گیا۔ دو وقت کی روٹی کا حصول ناتواں کندھوں پر کوہ گراں بن کر گرا۔ آخر کیا کرتا۔ گھر میں والدہ، بڑی بہن اور دو چھوٹے بھائیوں کا سہارا اب صرف یہی شہزادہ ہی تھا۔ سو شہزادے نے بھی باپ کیطرح فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔ 

دن گزرتے گئے بڑی بہن کو دیکھنے کچھ لوگ آئے تو وہ ان کو پسند آگئی۔ دونوں طرف کی چھان بین کے بعد بات پکی ہو گئی۔

اب جہیز کا اژدہا اس کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا تھا۔ صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے شہزادہ ڈبل شفٹ میں کام کرنے لگ گیا۔ 2 سال کی مسلسل اور انتھک محنت کے بعد وہ اس قابل ہوگیا تھا کہ بہن کے ہاتھ پیلے کر سکے۔

وہ خراماں خراماں گنگناتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا کہ اچانک "چررر” کی زوردار آواز آئی۔ یوں لگا جیسے اسے کسی نے آسمان سے پٹخ کر زمین پر دے مارا ہو۔ 

اسے جب ہوش آیا تو اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکا۔ ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ہسپتال میں ہے۔ ہاتھ پاوں اور پیشانی پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ایک سفید ریش مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ بولے،” بیٹا آپ کو کار والے نے ٹکر ماری تھی اور وہ موقع سے فرار بھی ہو گیا، میں آپکو ہسپتال لایا ہوں اور ہاں جس کار نے ٹکر ماری اس کا نمبر میں نے نوٹ کر لیا ہے”

اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں ہاتھ میں بھی فریکچر تھا۔اس نے ڈاکٹر صاحب کو بھی اس کار کا نمبر بتا دیا۔ 

شہزادے کے آپریشن اور میڈیسنز پر ایک لاکھ ستر ہزار لگ گئے۔ 

ڈاکٹر صاحب اللہ والے تھے انہوں نے بیس ہزار کر رعایت کردی۔

شہزادہ 4 ماہ تک گھر پڑا رہا جو باقی 50000 بچے تھے وہ بھی خرچ ہو گئے۔

شہزادے کو دو سال کی ڈبل ڈیوٹی آج پھر اپنے سامنے چڑیل کی مانند دانت نکالے نظر آنے لگی۔

فرشتہ صفت ڈاکٹر صاحب نے آپریشن کے بعد گھرپہنچ کر بیٹے کو کہا،” کتنی مرتبہ کہا کہ گاڑی تیز نہ چلاو تمھاری وجہ سے بیس ہزار کا نقصان برداشت کرنا پڑا، شکر ہے کہ وہ غریب آدمی تھا ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے”۔

%d bloggers like this: