اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ ملک مشتاق کے بارے میں۔۔۔ شکیل نتکانی

جب ہم نے بتایا کہ ہم حوالات میں کیوں بند ہیں تو وہ انچارج تھانہ کے پاس گئے اور اسے بتایا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں ہم بہت شریف گھرانے کے بچے ہیں

ملک مشتاق پیشے کے اعتبار سے ایک گورنمنٹ کنٹریکٹر تھے۔ کھوسہ گروپ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ن لیگ سے وابستہ تھے یہ نہیں معلوم کہ کہ جب کھوسہ خاندان نے ن لیگ کو الوداع کہا تو وہ کھوسہ گروپ کا ہی حصہ رہے یا پھر ن لیگ سے اپنی سیاسی وابستگی برقرار رکھی۔

کونسلر کا الیکشن بھی لڑتے رہے ہیں۔ کھوسہ ہاؤس کے عقب میں اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ میرا گھر دو گلیاں چھوڑ کر تھا اس لئے ہمسائیگی کا ایک تعلق بھی تھا۔

لیکن میری ان سے جان پہچان فٹ بال کی وجہ سے تھی۔ ہم شروع میں بلاک سولہ میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر رہے پھر اپنا گھر بنا تو بلاک سترہ آ بسے۔

میری تمام دوستی، اٹھنا بیٹھنا، سولہ بلاک اور اردگرد کے بلاکوں کے دوستوں کے ساتھ تھا۔

کمپنی باغ گھر سے زیادہ وقت گزرتا۔ کبھی کرکٹ، کبھی فٹبال، کبھی شطرنج تو کبھی والی بال کھیلی جا رہی ہوتی۔ ڈیرہ غازیخان ہاکی، فٹبال اور والی بال کے حوالے سے ایک زرخیز شہر رہا ہے۔

بلاک بارہ، پندرہ اور سولہ سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کرکٹ، فٹبال اور والی بال کی قومی ٹیموں کا حصہ بھی رہے ہیں میں کسی بھی کھیل کا کوئی نمایاں کھیلاڑی تو نہیں تھا لیکن کھیل کے میدانوں میں موجود ضرور رہتا تھا ہم سب شاہین فٹبال کلب کا حصہ تھے۔

ملک مشتاق کا شمار شاہیں فٹبال کلب کے سرپرستوں میں ہوتا تھا۔ وہ باقاعدگی سے گراؤنڈ آتے اور ایمپائرنگ کراتے تھے۔ وہ ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ شیخ شاہد اقبال کے ساتھ میرا یارانہ ہوا کرتا تھا اس کا گھرانہ بھی سولہ بلاک چھوڑ کر جا چکا تھا۔

وہ بھی میری طرح بلاناغہ سولہ بلاک پہنچ جاتا تھا سب لوگ اپنے اپنے گھر میں ہوتے اور ہم محلے کی گلیوں میں گھوم رہے ہوتے، چوک میں پڑے تخت پوش، پندرہ سولہ بلاکوں کی مشرقی نکڑ پر کمپنی باغ کے تین مرکزی گیٹوں میں سے ایک گیٹ کے سامنے وقار بھٹی کے گھر کے آگے رکھے ہماچے پر براجمان ہوتے اور دوستوں کے اکھٹے ہونے کا انتظار کرتے کہ کمپنی باغ جائیں اور کھیلیں۔ زندگی کے کئی مہ و سال یہی معمول رہا۔

ابا جی کا ایک یاماہا کمپنی کا موٹر سائیکل تھا جسے ہم تبدیل کرنا چاہیے تھے کہ یاماہا کی بجائے سی ڈی زیادہ مقبول سواری تھی دوسرے وہ موٹر سائیکل پرانے ماڈل کا تھا۔

ایک دن میں اور ہمارا ایک اور قریبی مشترکہ دوست عدیل رضوان لقب جس کا شازم ہے اس موٹر سائیکل پر شیخ شاہد کو ملنے غازی کالونی جاتے ہیں۔

وہ گھر پر نہیں تھا ہم واپس جا رہے ہوتے ہیں کہ کالونی کے گیٹ پر شیخ شاہد ہمیں مل جاتا ہے ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے تھے اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔

غازی کالونی کے سامنے ڈیرے کا سرکٹ ہاؤس ہے۔ ہم سرکٹ ہاؤس کی دیوار جس کی اونچائی روڈ کے اونچا ہونے جانے کی وجہ سے معمولی سی رہ گئی تھی پر بیٹھ گئے اور گپ شپ جاری رکھی، قہقہے لگا رہے ہیں اور خوب موج میں تھے کہ اچانک پولیس کی ایک جیپ جس کے پیچھے پولیس کی ایک وین ہے گزرتی ہے آگے والی گاڑی ہم سے تھوڑا دور جا کر اچانک رک جاتی ہے اور چند ہی لمحوں میں ایلیٹ فورس کے جوان ہم پر بندوقیں تانے کھڑے ہوتے ہیں

وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم دیوار پر کیوں بیٹھے ہیں ہم نے کہا کہ باتیں کر رہے ہیں جانے والے ہیں۔ وہ جا کر جیپ والے افسر جو ایس پی تھا کو بتاتے ایس پی کے کہنے پر وائرلیس کے ذریعے گشت پر موجود پولیس ٹیم کو بلایا جاتا ہے ایس پی ہمیں ان کے حوالے یہ کہہ کر کرتا ہے کہ پتہ کرو کہ یہ کون لوگ ہیں کیونکہ ان دنوں فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر تھی اور قتل و غارت ہو رہی تھی اور سرکٹ ہاؤس میں انسداد دہشت گردی کا جج رہائش پذیر تھا۔

پولیس ٹیم ہمیں لے جا کر تھانہ بی ڈویژن کے لاک اپ میں بند کر دیتی ہے۔ اب ہم پریشان اور سبکی بھی محسوس کر رہے ہوں کہ حوالات میں بند ہیں آدھا گھنٹہ گزر گیا کہ اچانک کسی کام سے ملک مشتاق کا پولیس اسٹیشن آنا ہوتا ہے۔

ہم انہیں دیکھ کر شرمندہ ہو رہے ہوں تاہم ان کی نظر ہم پر نہیں پڑی۔ وہ جانے لگے تو پتہ نہیں مجھ میں کہاں سے حوصلہ آیا اور بلند آواز میں ان کا نام پکارا وہ حوالات کے قریب آئے اور ہم لوگوں کو اندر دیکھ کر حیران رہ گئے۔

جب ہم نے بتایا کہ ہم حوالات میں کیوں بند ہیں تو وہ انچارج تھانہ کے پاس گئے اور اسے بتایا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں ہم بہت شریف گھرانے کے بچے ہیں اس طرح ان کی تصدیق پر پولیس نے ہمیں لاک اپ سے باہر نکالا اور گھر جانے کی اجازت دی۔

ہمیں اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ لوگوں کو بتائیں گے کہ حوالات میں بند تھے اور اس سے ہماری سبکی ہو گی لیکن انہوں نے اس بات کا ذکر کبھی بھی کسی سے نہیں کیا۔ آج استاد یعقوب (ہماری فٹبال ٹیم کا ایک سینئر کھلاڑی اور دوست) کا وٹس آپ پر میسج موصول ہوا کہ ملک مشتاق وفات پا گئے ہیں۔ مرحوم بہت ملنسار اور سادہ طبیعت کے تھے۔

ایک ایسے وقت میں جب کھیل اور صحت مند جسمانی سرگرمیاں پاکستانی معاشرے زوال پذیر ہو رہی تھیں، یہ ملک مشتاق جیسے لوگ ہیں جو وقت نکال کر کھیل کے میدانوں میں آتے ہیں اور نوجوان نسل کو صحت مند سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرتے ہیں

%d bloggers like this: