اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غریب کی کٹیا تو پہلے سے بوسیدہ ہے۔۔۔ احمد علی کورار

غربت کی چکی میں پستے ان لوگوں کیے لئے کیا عید کیا تہوارکیا شعبان کیا رمضان ان کی تو سب سے بڑی خوشی دو وقت کی روٹی ہے

وبا کے موسم سے پہلے کم فرصتی تھی دنیا کے دھندوں میں الجھے ہوئے تھے لیکن جب فرصت ملتی تو شام کے وقت  وقت گزاری کے لیے چند دوستوں کے ہمراہ چائے خانے کا رخ کرتے جس چائے خانے کی ہمیں چاِئے نصیب تھی وہاں ہر روز چائے پیش کرنے والے کی فریاد و فغاں بھی سننی پڑتی تھی۔ ہمیشہ مہنگائی کا رونا روتے کہتے رہتے مہنگائی کی اس عفریت سے کب جاں خلاصی ہوگی اس روز افزوں بڑھتی مہنگائی نے گھیرا تنگ کیا ہے ہم اسے طفل تسلیاں دیتے کہ ایک دن اس بلا کی بیخنی ہو جائے گی زندگی آسودہ بن جائے گی آپ فکر نہ کریں۔
بے چارہ کہتا تھا کہ 500 دیہاڑی  ملتی ہے سارا دن کام کرنا پڑتا ہے جس دن اگر ضروری کام سے چھٹی کرنی پڑے مالک اس دن  کےپیسے نہیں دیتا
اس رقم سے اشیائے ضروریہ پوری نہیں ہوتیں۔آج کے دور میں کون کس کی مالی معاونت کرتا ہے بس لے دے کے گزارا کرتے ہیں۔

اس ساٹھ سالہ شخص کا بھی خیال آتا ہے جو سارا دن ساری مارکیٹ کو چائے دیتا تھا اس عمر میں سارا دن کام میں جت رہتا کہتا تھا بیٹے کی اولاد نہیں بیٹیوں کا بار سر پر ہے اس لیے اس عمر میں زندگی کاٹنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے

خیال آتا ہے کہ وبا کے موسم میں اس پر کیا بیت رہی ہو گی کیسے زندگی کا پیہہ چلتا ہو گا۔
یہ تو ان دو کی داستان ہے جو آنکھوں دیکھی ہے ایسے کئی ژولیدہ حال لوگ ہیں جو وبا سے پہلے بھی اجیرن زندگی گزار رہے تھے بمشکل گزارا ہوتاتھا لیکن وبا نے انھیں اور پراگندہ حال بنا دیا ہےایسے لوگوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں آپ کو کہیں نو برس کا بچہ تو کہیں جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا ساٹھ سالہ بڑی عمر کا شخص زندگی کا بار لیے اپنا اور اپنے اہل وعیال کے گزر بسر کے لیے تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں۔

لاک ڈاون کی سختی کی کیا بات کریں۔ ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بھوک سے لڑنا کتنا محال ہے اب تو کوئی چارہ بھی نہیں آخر کب تک ایسے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے رہیں کب تک پیٹ کو تسلیاں دیتے رہیں آج نہیں تو کل غربت کا یہ لاوا پھٹے گا۔
غربت کی چکی میں پستے ان لوگوں کیے لئے کیا عید کیا تہوارکیا شعبان کیا رمضان ان کی تو سب سے بڑی خوشی دو وقت کی روٹی ہے جو کم بخت کرونا نے وہ بھی ان سے چھین لی
جب ان کے چولہے ٹھنڈے ہوتے ہیں اور جب بھوک سے ان کے بچے بلبلاتے تو ان پر کیا گزرتی ہے ان کی زندگی میں ایک حشر بپا ہوتا ہے
ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف سرمایہ داروں نے ان کی خون پیسنے کی کمائی سے دولت کے انبار لگائے ہوئے ہیں من مرضی سے ان غریبوں کی تنخواہیں مقرر کرنا
ان سے اجرت سے زیادہ کام لینا جب چاہا رکھا جب چا ہا نکال دیا ۔

کوئی اس طرح کا میکنزم نہیں بنایا گیا کوئی اس طرح کی پالیسی سا منے نہیں آئی جس میں غریب لوگوں کی اجرت اوران کے کام پر مستقل طور پر رکھنے کی ضمانت ہو۔
مگرسرمایہ دارانہ نظام نے تو غریب مزدور طبقے کو نچوڑ کر منافع نکالنے کی ٹھان رکھی ہے
آج اگر لیبر قوانین کا نفاذ ہوتا تو کئی دیہاڑی داروں کو ملازمت سے ہاتھ دھونے نہیں پڑتے ان کی روزی روٹی کا سامان ہوتا لیکن بدقسمتی سے یہ طبقہ کسی کی نظر میں ہی نہیں آتا ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے یہ کوئی اور مخلوق ہے۔

لاک ڈاون کی مزید سختی سے پیٹ کو مزید سخت نہیں کیا جا سکتا۔غریب کی کٹیا تو پہلے سے بوسیدہ ہے۔۔
رحم کیجیے۔

%d bloggers like this: