اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ادھر بھی توجہ کیجئے ۔۔۔  قیوم بلوچ

بعض اوقات تو حق حلال کا رزق کمانے کیلئے گھر چھوڑنے والے  نوجوانوں  کی آباؤ اجداد کی زمینیں بھی علاقہ کے وڈیرے ہڑپ کر جاتے ہیں،

پاکستان کے جنوبی اضلاع میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان صوبائی دارالحکومت پشاور سے تقریبا 400 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے اور یہاں کی آبادی کی اکثریت محنت کش اور دیہاڑی دار طبقہ سے وابسطہ ہے، کیونکہ یہاں کی مقامی انڈسٹریز میں ان غریب لوگوں کو ترجیح نہیں دی جاتی بلکہ چند جاگیر دار اور سیاسی فائدے اٹھاتے ہیں، اور ان غریبوں پر آئے روز وڈیروں کا ظلم و ستم اور ہے۔

علاقہ دامان کے لوگ اور پٹھان قوم  اکثریت اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر صوبہ سندھ کے شہر کراچی،  بلوچستان سمیت پنجاب یا پھر بیرون ملک میں مزدوری کی غرض سے اپنی زندگی کا اکثر حصہ خاندان سے دور گزارتے ہیں تاکہ ان کا پیٹ پال سکیں۔

بعض اوقات تو حق حلال کا رزق کمانے کیلئے گھر چھوڑنے والے  نوجوانوں  کی آباؤ اجداد کی زمینیں بھی علاقہ کے وڈیرے ہڑپ کر جاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ ظلم کیخلاف آواز اٹھانے سے غربت کے ہاتھوں بے بس ہوتے ہیں اور نا ہی زمینوں کے دیوانی کیس لڑ سکتے ہیں۔

اسی طرح  اس ضلع میں قائم شوگرز ملز اور انڈسٹریز وغیرہ قائم ہیں وہ مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے بجائے پنجاب اور باہر کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو کہ سراسر زیادتی ہے۔

اگر صرف شوگر ملز فیکٹریز پر نظر دوڑائی جائے تو اس ضلع  میں 4 شوگر ملز ہیں جن میں چشمہ ون چشمہ 2 تاندلیانوالہ اور المعز شوگر ملز شامل ہیں فرض کے طور پر ایک شوگر ملز کا حساب لگایا جائے تو ہزاروں بے روزگار  مزدور لوگ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں لیکن ڈی آئی خان سے ہٹ کر باقی اضلاع اور دوسرے صوبوں سے لوگ آ کر مزدوری کر رہے ہیں اور مقامی نوجوانوں کو سیزن میں بھی کسی سیاسی یا جاگیرداروں  کے کہنے پر ڈیلی ویجز پر  بھرتی کیا جاتا ہے اور  وہ بھی جب کسی آفیسر کا دل کرے تو بغیر اجرت گھر بھیج دے،  نا کوئی قانون اور ناہی کسی ادارے کی مانیٹرنگ اور چیک اینڈ بیلنس کا خوف۔

جبکہ چاہئیے تو یہ کہ مقامی منتخب نمائندے اسمبلی سے ایسا قانون پاس کریں جس سے یہ فیکٹریاں اس بات کی پابند ہوں کہ اول ترجیح مقامی لوگوں کو دی جائے۔  اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہو۔

جیسے  ماحولیاتی آلودگی سے سیکنڑوں لوگ گلے ناک اور پھیپھڑوں کےمرض میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ چشمہ شوگر ملز ٹو کے ڈسٹلری انتھونل پلانٹ سے خارج ہونے والے مادے سے گزشتہ سال ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد لقمہ اجل بن گئے ان کو ملز انتظامیہ کی جانب سے انشور کرنے کے بجائے ڈرا دھمکا کر چپ کرایا گیا اور انکی جائیداد بھی ہڑپ کر لی گئی تھی اور اب پوری بستی ویران ہوگئی

حکومت وقت اگر ان انڈسٹریز اور ملز انتظامیہ کے خلاف کوئی  ٹھوس اقدامات نہیں کرتی تو ملز انتظامیہ ایک مافیا کا روپ دھار لیں گے جو کہ کافی حد تک دھار چکے ہیں اور مقامی عوام کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

اسی طرح اگر انڈسٹریز کی طرف دیکھا جائے تو این ایچ اے روڈ کے قریب ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروآ کے علاقہ میں لگائی جانے والی انڈسٹری میں گزشتہ ماہ ایک مقامی  مزدور نوجوان علاقہ شالہ شریف کا رہائشی کپاس ملز کے کارخانے میں ہاتھ پھنسنے سے کچلا گیا  کیا اس کا مداوا کیا گیا؟  آج تک اس نوجوان کے والدین دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں انڈسٹری انتظامیہ نے انکی جگہ کوئی ان کے خاندان کا ملازم رکھنا بھی گوارہ نا سمجھا اور صرف نعش ورثاء کے حوالے کر دی تھی بس۔

کارخانہ اپنی اوسط کے مطابق اپنے مزدوروں کو انشور کرتا ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں ایسا نظام اب تک رائج نہ ہوسکا جوکہ حکومت وقت اداروں اور انسانی حقوق  کیلئے  کام کرنے والی تنظیموں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے

جس طرح انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانوں کے حقوق کیلئے جدو جہد کر رہی ہیں اسی طرح ڈی آئی خان میں بھی کافی حد تک ان تنظیموں کی ضرورت ہے لیکن صرف  قیادت کا نا ہونا سب مسائل کی  جڑھ ہے۔

%d bloggers like this: