اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مابعدنوآبادیاتی دور میں حرص، ہوس اور کرونا۔۔۔ دانیال حسین گھلو

آجکل ہمارے تمام بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں علم کے نام پر محض حرص ہوس اور دولت کے انبار لگانے کے گُر سکھائے جاتے ہیں.

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آج مابعدِ نوآبادیاتی عہد میں سانس لے رہے ہیں. آج ہمارے معاشرے کی پہچان حِرص, ہوس, لالچ اور مادہ پرستی سے متسک ہے. آج انسان ہی انسان سے اجنبی ہے. جبکہ پسِ نوآبادیاتی دور میں ہرگز ایسا نہیں تھا.

انیسویں صدی کے وسط میں جب برصغیر کے کالوں کو ‘جدید گورا’ بنانے کے منصوبے کے تحت وکٹورئین اقدار کو بڑی چالاکی اور خاموشی کے ساتھ ہندوستانی معاشرے میں سرائیت کروایا گیا تو یہ تمام سوغاتیں اُس دور میں ہمارے حصے میں آئیں اور بدقسمتی سے آج تک ہماری جان سے چمٹی ہیں.

آج کے برصغیر کا پسِ نوآبادیاتی فرد جیسے جیسے جدیدیت کے مراحل طے کرتا جا رہا ہے ویسے ویسے اُس کے نزدیک انسان کی اہمیت کم سے کم تر اور دولت کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے.

ہمارا آج کا معاشرہ ایک عجیب قسم کے تذبذب اور تضاد کا شکار ہے. ایک جانب ہم دولت کے انبار لگانے کو برا گردانتے ہیں تو دوسری جانب اِسے ہی عین فطرت جان کر خود بھی اِس حمام میں برہنہ ہو جاتے ہیں. اِس کی مثال یوں لیجئے کہ گُزشتہ زمانوں میں حصولِ علم کا مقصد انسانی اقدار کی ترقی ہوا کرتا تھا جبکہ آج ہمارے لئے حصولِ تعلیم کا مقصد صرف اور صرف اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ ہم بھی دولت کے انبار لگا سکیں.

آجکل ہمارے تمام بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں علم کے نام پر محض حرص ہوس اور دولت کے انبار لگانے کے گُر سکھائے جاتے ہیں. ہم لوگ بخوشی سرمایہ دار سے پیسے کے عوض پیسا کمانے کے داؤ پیچ سیکھتے ہیں. ہمارے نزدیک اگرچہ حرص و ہوس پست ترین معاشرتی اقدار ہیں مگر پھر بھی ہم اِنہیں خُدائی قانون جان کر خود اِنکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں. اِس بات کو سمجھانے کے لئے میں یہاں ذاتی مثال دوں گا. مجھے یاد کہ جب ہم بہن بھائی چھوٹے تھے تو ہمارے ابا ہمیں پڑھائی کی جانب تحریک دِلانے کے لئے اکثر کہا کرتے تھے کہ بچو پڑھو, کیونکہ آج کے دور میں بھائی بھائی کا نہیں اور بہن بہن کی نہیں.. تو گویا بھائی کا بھائی کو بھول جانا اور بہن کا بہن کو بِسرا دینا کوئی ایسا خُدائی قانون ہو گیا کہ جس سے انحراف ممکن نہیں.. اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم خود ابتدائی عمر میں اپنی اولاد کو یہ تعلیم دے رہے ہیں تو وہ بڑے ہو کر ایک دوسرے کی حق تلفی اور ایک دوسرے کے ساتھ طوطا چشمی اس یقین اور اعتماد کے ساتھ کریں گے کہ گویا یہی فطرت کا قانون ہے.

اور اب یہ کمبخت کرونا بھی حرص ہوس اور لالچ کے جُلو میں جھومتا, ڈولتا, بدمست چلا آیا ہے.. اور ایسے ایسے کارنامے سرانجام دے رہا ہے کہ انسان بے ساختہ کہہ اُٹھے…
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
کہیں کوئی کسی بھوکے کا نوالہ اُس کے منہ سے چھین کر سر بازار نیلام کرتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں کوئی غریبوں کے لئے امداد کی مد میں ملنے والا فنڈ ڈکار کر پارسا بنا ہے.. کہیں سرکاری ڈاکٹروں کے لئے آئی کٹس ان سے چھین کر پرائیویٹ اسپتالوں کے تحہ خانوں کی نذر کر دی گئی ہیں تو کہیں دوائیوں کو غائب کر کے انسانوں کی موت کا سامان کیا جا رہا ہے.. کہیں کسی گودام سے حفاظتی ماسک کا ذخیرہ برامد ہوتا ہے تو کہیں مصنوعی غذائی قلت پیدا کر کے روپے کھرے کئے جا رہے ہیں.. اب وہ وقت نہیں کہ جب دِلی میں طاعون پھیلنے پر حکیم عبدالمجید خان نے انگریز حکام کو کہا تھا کہ کسی کو شہر سے باہر ‘قرنطینہ’ میں مُنتقل نہ کیا جائے.. اور اپنے خرچے پر تمام مریضوں کا علاج شہر میں ہی کیا تھا.. نہ ہی اب حکیم اجمل خان ملیں گے کہ جنہوں نے 1918 میں وبائی انفلوئنزا کے علاج کے لئے طبیبوں کا ایک جال بچھا دیا.. اور حکام سے ایک دھیلہ بھی لئے بغیر وباء کو یوں شکست دی کہ انگریز حکام مُنہ دیکھتے رہ گئے.. آج اِس جنگ میں ہم سب تنہا ہیں… اور ہمیں تنہا ہی اِس وباء کا مقابلہ کرنا ہے.. کیوں کہ اب حرص ہوس لالچ اور کرونا کی بادشاہی ہے.. اور جدید انسان اِن سب کے آگے سربسجود ہے..

%d bloggers like this: