مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

 ستلج کوئین/انڈس کوئین

دریائے سندھ جسکو انڈس ریور بھی کہا جاتا ہے میں چلنے کی وجہ سے اسکا نام ستلج کوئین سے تبدیل کرکے انڈس کوئین رکھ دیا گیا

ریاست بہاولپور کے نواب صبح صادق نے 1867 میں ایک عالی شان سمندری/بحری جہاز بنوایاجو کہ نواب فیملی دریائےستلج جوکہ ریاست اور انگریز زیر انتظام علاقہ ملتان کے درمیان بہتا تھا میں سیر وسیاحت کی غرض سے اپنے زیر استعمال لاتی رہی۔

اس جہاز میں تین پورشن تھے سب سے نچلے حصے میں جہاز کا عملہ رہتا تھا درمیانی حصہ نواب فیملی کے لئے مختص تھا جہاں پر ایک بار روم بھی قائم تھا جبکہ اوپری حصہ جو کہ کھلے یارڈ (صحن) پر مشتعمل تھا میں ایک مسجد اور کپتان روم واقع تھا جہاز میں لائیٹ کے لئے جرنیٹر سسٹم بھی نصب تھا جہاز کو چلانے کے لئے طاقتور ڈیزل انجن لگا ہوا تھا۔

اپنے عروج کے زمانے میں انگریز صاحب اور میم صاحب نواب فیملی کے ساتھ جہاز میں سیر وسیاحت پر آتے رہتے تھے بعد ازاں نواب صادق محمد خان نے لودھراں اور بہاولپور کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کے لئے مخصوص کر دیا جب پاکستان بننے کے بعد دریائی پانیوں کے معاہدے ہوئے اور ستلج میں پانی کم ہونا شروع ہوا نیز پل کی تعمیر ہونا شروع ہوئی تو نواب نے 1957 میں اسے غازی گھاٹ پر بھیج دیا جہاں پر یہ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کیلئے استعمال ہوتا رہا تاہم پانی کے تیز بہاؤ کے پیش نظر اسکو نواب صاحب نے خواجہ غلام فرید کی خدمت میں پیش کردیا جہاں پر یہ چاچڑاں شریف اور کوٹ مٹھن شریف کے درمیان عقیدت مندوں اور دیگر مسافروں کی باربرداری کیلئے استعمال ہوتا رہا۔ جسے قادر بخش نامی ملاح (کپتان) جو کہ محکمہ ہائی وے کا ملازم بھی تھا چلاتا تھا ۔

جب سردیوں میں دریائے سندھ میں پانی کم ہو جاتا اور کشتیوں کا پل ڈال کر آمدورفت کے راستہ بنایا جاتا تو اس جہاز کی ضروری مرمت بھی کر دی جاتی۔

دریائے سندھ جسکو انڈس ریور بھی کہا جاتا ہے میں چلنے کی وجہ سے اسکا نام ستلج کوئین سے تبدیل کرکے انڈس کوئین رکھ دیا گیا 1998 تک یہ جہاز دریائے سندھ میں چلتا ریا بعد میں جب بے نظیر پل چالو ہوا تو اس پر لوگوں کی آمدورفت بھی کم ہوتی چلی گئی اور بعدازاں اسکو بند کر کے راجن پور اور کوٹ مٹھن کے درمیان پل سے زرادور کر کےلنگر انداز کر دیا گیا۔

اسطرح ایک شاندار جہاز جس پر 400 کے لگ بھگ لوگ ایک وقت میں سفر کرتے تھے کا سفر اختتام پزیر ہو گیا اسکا کافی سامان چوری ہو گیا ہے یہ اپنی بے بسی کی تصویر بنا ریت میں دھنسا پڑا ہے۔ اگر اسکی دیکھ بھال نہ کی گئی تو یہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

اس عظمت رفتہ کی نشانی کو محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ نواب آف بہاولپور کی یاد گار نشانی ہے اسلئے حکومت پنجاب اور بہاولپور انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اسے واپس بہاولپور لا کر اس ریسٹورنٹ کی شکل دی جائے اور ثقافتی ورثہ قرار دیا جائے۔.

%d bloggers like this: