مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپلز پارٹی ضلع ڈیرہ غازی خان کے جنرل سیکریٹری میر آصف خان دستی سے خصوصی گفتگو

موجود حکومت نے سو دن میں سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اب کئی سو دن گزر چکے اس متعلق آپ کا اور پارٹی کا کیا موقف ہے

انٹرویو و تصاویر نعیم صابر , رضوان ظفر گورمانی


سوال : پیپلز پارٹی ڈیرہ ڈویزن میں ٹاپ پہ ہوتی تھی اب کہیں بیک فٹ پہ نظر آتی ہے اس کی کیا وجہ ہے

جواب : ڈیرہ غازیخان ہی نہیں پیپلز پارٹی پورے سرائیکی وسیب میں موجود ہے اسی آب و تاب سے موجود ہے آپ دیکھیں سابقہ الیکشن میں سلیکشن کے باوجود پیپلز پارٹی نے ضلع مظفرگڑھ سے ہی تین ایم این اے منتخب کیے ہیں
اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا ورکر موجود ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے متحرک کیا جائے اور اسی کی ہم کوشش بھی کر رہے ہیں

سوال : موجود حکومت نے سو دن میں سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اب کئی سو دن گزر چکے اس متعلق آپ کا اور پارٹی کا کیا موقف ہے

جواب : دیکھیں ہمارا سرائیکی وسیب ہمیشہ سے معصوم طبیعت رہا ہے اور یہاں کے سردار اور جاگیردار ہمیشہ ان کا سودا کرتے چلے آئے ہیں سرائیکی خطے کی محرومی کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے ہی سب سے پہلے سرائیکی صوبے کی بات کی تھی عوام نے اس کو قبولیت بخشی اسی پاپولر بیانیے کو لے کر چند سرداروں نے سرائیکی صوبہ محاذ بنا کر عوام کو بے وقوف بنایا اور اب وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں میرا نہیں خیال یہ حکومت سرائیکی صوبہ بنانے میں مخلص ہے پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو سرائیکی وسیب کے دکھ کو سمجھتی ہے اسی لیے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سے اس خطے کو عزت دی یہاں سے وزیراعظم وزیراعلیٰ گورنر اور وزارت داخلہ جیسے اہم عہدے پیپلز پارٹی کی ہی دین ہیں

سوال: پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ سے ایکٹو کرنے کے لیے آپ کا کیا لائحہ عمل ہے

جواب : یہ آپ نے اک اہم سوال کیا ہے میرا نہیں خیال کہ پارٹی کو یہاں ایکٹو کرنے کی ضرورت ہے پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو اپنے سیاسی کارکن کی تربیت کرتی ہے ان کو سیاست سکھاتی ہے اور پھر انہی میں سے کسی کارکن کو الیکشن لڑواتی ہے پیپلز پارٹی کا ہر کارکن پیرا شوٹ لیڈران سے بھی زیادہ شعور رکھتا ہے اس لیے اس کو ایکٹو کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہاں کارکن پیپلز پارٹی کے میڈیا ٹرائیل سے مایوس ضرور ہے اور اسی لیے ہم ہر کارکن تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کو تیار کر رہے ہیں کہ وہ زہریلے پروپیگنڈے کا موثر جواب دے سکے

سوال : پیپلز پارٹی کارکنان میں اختلاف کی خبروں میں کتنی صداقت ہے

جواب : مجھے نہیں معلوم آپ کن اختلافات کی بات کر رہے ہیں پارٹی پالیسی و پارٹی منشور پہ تو کسی کارکن کا کوئی اختلاف نہیں ہاں دیگر معاملات پہ اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ صرف ہماری پارٹی میں ہی یہ اختلافات ہوتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اپنے کارکنان کو اتنا وقعت و جرات عطا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کر سکیں وگرنہ دیگر پارٹی میں اگر کوئی اختلاف کی جرات کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے وہ باہر ہوتا ہے

سوال: پیپلز پارٹی اپوزیشن میں موثر کردار ادا کرتی نظر نہیں آ رہی اور پارٹی کا مستقبل کا کیا لائحہ عمل ہے

جواب : میں آپ کے سوال کے پہلے حصے سے اختلاف کی جسارت کروں گا پیپلز پارٹی ہی اس وقت موثر اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے کہنے کو تو اپوزیشن رہنما شہباز شریف ہیں مگر کہاں ہیں وہ ن لیگ ہمیشہ کی طرح لین دین اور خاموشی پہ اکتفا کیے ہوئے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی خصوصاً چئیرمین بلاول بھٹو اس وقت اپوزیشن کر رہے ہیں زرداری صاحب نے سلیکٹڈ کو شروع میں مل جل کر کام کرنے کی دعوت دی تھی جنہیں انہوں نے این آر او کی خواہش پہ محمول کیا حالانکہ اب زرداری صاحب بنا کسی این آو او کے باہر ہیں اس سے قبل بھی گیارہ بارہ سال ان کو ناحق قید رکھا گیا تھا زرداری صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ نیب اور معشیت اک ساتھ نہیں چل سکتیں آپ نے دیکھا پھر اسی حکومت نے نیب آرڈینس جیسے کام کیے
جہاں تک مستقبل کے لائحہ عمل کی بات ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ تاریخ ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے ہمیشہ پیپلز پارٹی ہی آئی ہے چاہے وہ ڈکٹیٹرشپ کے زخموں سے چور چور ملک ہو یا پھر سلیکٹڈ جیسے نکموں کی تجربہ گاہ بنا ملک ہو آخر میں پیپلز پارٹی ہی ملک سنبھالے گی

سوال: پیپلز پارٹی پہ اقربا پروری اور موروثی سیاست کا الزام لگتا ہے اس پہ آپ کیا کہیں گے

جواب : دیکھیں جی جہاں تک اقربا پروری کی بات ہے تو ہر حکومت اپنے ہی کارکنان سے کام لیتی ہے کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ن لیگ نے جمیعت کے کارکنان یا پی ٹی آئی نے جے یو آئی کو ” نوازا ‘ ہو یہ تو پیپلز پارٹی کی خاصیت ہے کہ پارٹی اپنے ان کارکنان کو اقتدار میں آنے کے بعد بھی نہیں بھولتی جو مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہتے ہیں نواز شریف ہو یا عمران خان انہوں نے اپنے پسند کے چند افراد کی کچن کیبنٹ بنا رکھی ہوتی ہے اور وہی پورا ملک چلاتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اپنے کارکنان کے ساتھ حکومت چلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی ایوان میں حاضر رہتے تھے جبکہ نواز شریف کو ایوان میں لانے کے لیے قانون سازی کرنا پڑی تھی اور عمران خان (قہقہہ) عمران خان کا میں کہا کہوں آپ سب جانتے ہیں.
اب آتے ہیں موروثی سیاست والی بات پہ تو جب ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر بن سکتا ہے جب کھلاڑی کا بیٹا کھلاڑی بنتا ہے جب اداکار کا بیٹا اداکار بنتا ہے جب نصرت فتح علی خان کے بعد راحت فتح علی خان گاتا ہے تو تب ہم کہتے ہیں جی کھیل تو ان کے خون میں ہے اداکاری تو ان کے خون میں ہے گلوکاری تو ان کے جینز میں ہے سیاست کے وقت ہمارا معیار تبدیل کیوں ہو جاتا ہے
پوری دنیا میں سیاستدان کا بیٹا سیاست کرتا آیا ہے مغربی ممالک میں بش سینئر و بش جونئیر ہو کلنٹن خاندان ہو یا مشرق میں گاندھی خاندان ہو بنگلہ دیش میں شیخ خاندان ہو
پھر بھٹو خاندان کی اک روایت ہے قربانی کی روایت ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کے لیے جان دی بی بی شہید غریبوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کے مشن میں شہید ہوئیں زرداری صاحب نے جوانی جیل کو دے دی زرداری صاحب کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کیا گیا اس پہ مقالے لکھے جا سکتے ہیں اب ایسے خاندان جس کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ہو جو بہادری میں اپنی مثال آپ ہو اسے کیا کہیں کہ تم ڈر کے گھر بیٹھ جاؤ یا اپنے نانا والدہ اور بابا کی قربانیوں کا کوئی مطلب نہیں تھا تم اس ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ چند ‘ محب وطن” عناصر کو موروثی سیاست پسند نہیں ویسے برسبیل تذکرہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ پتا لگائیں پی ٹی آئی میں موروثی سیاست والے کتنے ہیں اور آرمی جیسے پروفیشنل ادارے میں آرمی کے بچوں کا خصوصی کوٹہ کیوں ہوتا ہے

اس انٹرویو کا دوسرا حصہ بہت جلد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا

%d bloggers like this: