اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا آپ کمزور یادداشت کی وجہ سے پریشان ہیں؟

یا کوئی بات آپ کی زبان پر ہے مگر یاد نہیں آ رہی… ؟ ان کیفیتوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

قوت حافظہ کی حفاظت

کیا آپ کمزور یادداشت کی وجہ سے پریشان ہیں؟ کیا ایسا کبھی ہوا کہ آپ کمرے میں گئے لیکن یہ بھول گئے کہ وہاں کیوں گئے تھے ؟ یا کوئی بات آپ کی زبان پر ہے مگر یاد نہیں آ رہی… ؟ ان کیفیتوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

آپ گراں قدر یاد داشت کے مالک نہیں اور آپ کا دماغ ایک مربع انچ میں دس کروڑ سات لاکھ نوسو پندرہ اطلاعات جمع کر سکتا ہے۔ یہ بات بڑے بڑے کمپیوٹر کے بس میں بھی نہیں کہ آپ کو اتنی ساری باتیں یاد کس طرح رہتی ہیں۔ یہ حیرت کی بات ضرور ہے۔

مختلف محققین کے مطابق یادداشت دو قسم کی ہے۔ ایک عارضی اور دوسری مستقل یادداشت۔ عارضی یادداشت پر نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً عام حالات میں ایک فون نمبر پڑھ کر اسے ڈائل کرنے تک یاد رکھ لیتے ہیں مگر جب کوئی پریشانی ہو تو ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ آپ ایک جملہ پڑھتے ہیں اور الفاظ اس وقت تک یاد رہتے ہیں جب تک جملے کا مفہوم سمجھ میں نہیں آجاتا۔ پھر آپ الفاظ بھول جاتے ہیں اور مفہوم ذہن میں رہتا ہے۔ یہ سب عارضی یادداشت کا نتیجہ ہے۔

مستقل یاد داشت یوں ہے دماغ ٹیلی فون ایکسچینج کی طرح پر کال مناسب نمبر پر ملا دیتا ہے۔ اگر آنے والا پیغام بہت اہم ہو تو خود بخود وہ پیغام مستقل طور پر یاد داشت میں چلا جاتا ہے اور اگر ایسا اہم نہ ہو تو عارضی یادداشت میں جمع رہتا ہے۔ مستقل یادداشت دماغ میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ آپ کسی موقع پر کوئی بات یاد کرنے میں دشواری محسوس کریں لیکن وہ دماغ میں موجود ہوتی ہے۔ یادداشت کے لئے ترتیب بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ بے ترتیب اوربکھرا ہوا ذہن درست طور پر کام کرنے سے معذور ہوتا ہے ۔

آپ کسی آدمی کو بس سٹاپ پر کھڑا دیکھیں تو شاید پہچان نہ سکیں لیکن وہی شخص ایک مخصوص دوکان کے کائونٹر پر آپ کو ملے تو یقینا اسے فوراً پہچان لیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ کا ذہن اس شخص کو دوکان کے مالک کی حیثیت سے جانتا ہے اسی سلسلہ میں چند مثالیں بڑی دلچسپ ہیں ۔ ویت نام کا ایک بچہ بچپن کے چند سال وطن میں گزار کر اپنے ماں باپ سے دور امریکہ میں رہنے لگا وہاں کئی برس بیت گئے

اور اس عرصہ میں اسے کوئی ویت نامی نہ ملا تو وہ اپنی مادری زبان بھول گیا مگر جب واپس ویت نام گیا تو صرف چند ہفتوں میں روانی سے ویت نامی زبان بولنے لگا کیونکہ یہ اس کی مستقل یاد داشت میں محفوظ تھی جو کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ ماہر نفسیات کی تحقیق میں مادری زبان بارہ سال تک بالکل نہ بولی جائے تب بھی یاد رہتی ہے اور معمولی مشق کے بعد روانی سے بولی جاسکتی ہے۔

ایک ماہر نفسیات نے کسی کا علاج کیا ہپناٹزم کے زیر اثر ایک ایسی دیوار کا نمونہ جو معمار نے بارہ سال پہلے تعمیر کی تھی بظاہر وہ ڈیزائن بھول چکا تھا لیکن حقیقت میں یہ اس کے ذہن میںموجود تھا۔

کینیڈا نے نیورو سرجن ڈاکٹر ولڈز نے انسانی دماغ میں کچھ حصے متعین کئے جن کا تعلق یادداشت سے ہے ایک تجربے میں انہوں نے ایک چھوٹا سا سوراخ کرکے اس میں دو تار مناسب مقامات پر جوڑ دئیے اور کم وولٹیج کی بیٹری سے برقی جھٹکے دئیے مریض برسوں پرانی بھولی بسری باتیں ایک بار پھر سننے لگا ۔ ایک عورت نے اس تجربے کے دوران ایک ایسا گانا سنا جو اس نے بچپن میں ہالینڈ کے گھر میں سنا تھا۔ موجودہ تحقیقات کے مطابق دماغ میں ایک ایک یاد کئی مقامات پر محفوظ ہوتی ہے اور آدھا دماغ نکال دینے سے بھی یاد داشت پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کچھ لوگوں کی قوت حافظہ بہت تیز ہوتی ہے ایسے لوگ کسی چیز پر ایک نظر ڈال کر اس کی باریک سے باریک تفصیل بتا سکتے ہیں مگر ان لوگوں کی تعداد خاصی کم ہے۔

ایک سکول ٹیچر کی یاد داشت اتنی اچھی تھی کہ وہ کسی نظم کا ایک صفحہ پڑھ لیتی تھی تو اسے یاد ہوجاتا تھا۔ اگر نظم کسی ایسی زبان میں ہوتی جو اسے نہیں آتی تھی تب بھی شروع تا آخر نظر حرف بحرف سنا سکتی تھی۔ اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اس نے پوری پوری کتابیں حفظ کرلی تھیں ۔ بڑھاپے میں اکثر یاد داشت کمزور ہوجانے سے پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ 35سال کی عمرکے بعد دماغ کے ہر روز تقریباً ایک لاکھ نیوران ضائع ہوجاتے ہیں اور ان کی کمی پوری نہیں ہوتی لہٰذا دماغ کمزور ہوجاتا ہے لیکن جدید تحقیق کہتی ہے کہ بڑھاپے میں خون کی نالیاں سخت اور دل کے پمپ کرنے کی اہلیت کم ہوجاتی ہے اس طرح دماغ کو خون کم ملتا ہے یعنی تھوڑی مقدار میں ملتا ہے اور دماغ کے نیوران آکسیجن کی کمی محسوس کرنے کی وجہ سے درست کام نہیں کرپاتے۔ بوڑھے لوگ عموماً ماضی کی باتیں یاد رکھتے ہیں اور حال بھول جاتے ہیں۔

اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آکسیجن کی کمی کے باعث درست طور پر پروٹین نہیں بنتے۔ ایک تجربے میں اڑسٹھ سال کی عمر کے بارہ مریضوں کو پندرہ روز تک دن میں دو مرتبہ دو گھنٹوں کے لئے خالص آکسیجن دی جاتی رہی چنانچہ ان کی یاد داشت بہتر ہوگئی لیکن جونہی آکسیجن کی سپلائی بند ہوئی وہ ایک خاص وقفے کے بعد پھر یادداشت کے بارہ میں شکایت کرنے لگے۔

ماہرین نفسیات کے نزدیک دماغ کو مستعد رکھنے کے لئے نئے نئے کام سیکھنا اور مطالعہ کرتے رہنا چاہیے جو بہت زیادہ سود مند ہے۔ ورزش سے بھی بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ یاد داشت میں کمی کی شکایت مستعد لوگوں میں بہت کم ہوتی ہے۔

قارئین یہ مضمون ضرورت اور حالات کے مطابق سوچ کر لکھا ہے۔ اگر ہم سب روزانہ پانچ وقت باوضو ہو کر نماز پڑھیں ، تلاوت قرآن کریم کریں اور کچھ وقت ضروری کاموں کے علاوہ مطالعہ کتب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام بھی کریں ، ٹی وی پر نیوز بھی سنیں اور سب سے بڑھ کر سیر کے لئے بھی وقت نکالیں اور ہلکی پھلکی ورزش بھی کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم سب کی یاد داشت آخیر عمر تک برقرار رہے گی۔

%d bloggers like this: