اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیلے والی تیری، پیلے والی میری!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہمارا یہ سفر تقریباً 9 دنوں پر محیط تھا، جن میں لاہور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے کراچی اور حیدرآباد وغیرہ اور واپس لاہور پہنچے، ائر پورٹ سے ڈرائیور نے پک کیا اور ہم نے پہلے ۔ کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور باوجود اصرار کے اندر نہیں گئے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 آئیے ایک کھیل کھیلتے ہیں۔ پہلے سے بتا دیں آپ کو کہ ہے تو کھیل مگر کچھ سیریس ہے۔ چھیڑ چھاڑ ہو گی آپ کے اندرونی نظام سے۔ ڈر تو نہیں گئے؟

آپ کو ایک نام لکھنا ہے۔ نہیں بھئی وہ نام نہیں جس سے آپ زیرلب مسکرا اٹھیں اور کہیں ارے یہ کون سا مشکل ہے؟

نام لکھنا ہے اپنی بہن کا۔ اور اگر دو تین بہنیں ہیں تو سب کا لکھ لیں۔ اگر بہن نہیں ہے تو امی، بیٹی، بیوی کسی کا بھی لکھ لیں۔

دیکھیے یہ کھیل صرف اس لئے کھیلا جا رہا ہے کہ بہت سی باتیں واضح ہو جائیں۔

پہلے آپ ایک پیراگراف پڑھیے۔

فیس بک پہ ایک صاحب نے یہ لکھا اور ملت اسلامیہ کے صاحبان نے جس نوعیت کے کمنٹس کیے وہ پڑھ کر یہ سمجھ آ گئی کہ یوتھ کلب والوں نے یہ کیوں کہا تھا کہ آپ خواتین ہم مردوں کو نہیں جانتیں۔ ہم بھیڑیے ہیں بھیڑیے۔

 

”کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے مزے ہیں، بندے کو تنخواہ ٹھیک ملے نہ ملے، ششکے اخیر ملتے ہیں۔

ہماری قسمت کے تارے البتہ آج کل گردش میں ہیں، پچھلے سال انہی دنوں بھی ہم آفیشل وزٹ پہ اسلام آباد تھے، تب روٹ تھوڑا چینج تھا۔

ہم دو لوگ لاہور سے اسلام آباد ڈرائیور کے ساتھ آئے تھے، پلان یہ تھا کہ ڈرائیور ہم دونوں کے ساتھ اسلام آباد جائے گا، ہم پہلے دن اسلام آباد کام کریں گے اور یہیں رک جائیں گے، اگلے روز صبح 10 بجے ڈرائیور ہمیں ائر پورٹ پر ڈراپ کر کے واپس چلا جائے گا اور ہم کراچی چلے جائیں گے، واپسی کی فلائٹ لاہور کی ہو گی۔

وہ پروفیشنل لائف میں کسی کرئیر کانشیئس لڑکی کے ساتھ ہمارا پہلا سفر تھا، جو اس قدر حسین اور رومانوی ثابت ہوا کہ کیا بتائیں۔

لاہور سے نکلے تو ہم ڈرائیور کے ساتھ آگے اور مس۔ پیچھے بیٹھی تھیں، لاہور اسلام آباد رستے میں بس ایک سٹے کیا اور سفر خاموشی سے کبھی کبھار کی ہوں ہاں میں گزرا۔ اپنے لیپ ٹاپ پر اور ہم موبائل میں مصروف رہے۔

ہماری پہلی میٹنگ ایف۔ 10 میں ایک ہوٹل میں تھی، وہاں پہنچے فریش ہوئے اور میٹنگ اٹینڈ کی، بعد میں ایک جگہ جوس پینے گئے تو وہاں میٹنگ کی کچھ چیزیں ڈسکس ہوئیں اور ہم ذرا کھلے۔ جوس پینے کے بعد ڈرائیور نے۔ کے لیے پچھلا دروازہ کھولا اور ہمارے لیے اگلا، جبکہ ہم خود ہی دوسری طرف سے پیچھے ہی بیٹھ گئے۔

نیوی بلو کوٹ، بلیک پینٹ اور باریک لائنوں والی زیبرا ٹی۔ شرٹ کے ساتھ۔ بہت اچھی اور کانفیڈنٹ لگ رہی تھی۔ بار بار اپنے کھلے بال کانوں کے پیچھے کرتی تو اس کا خوبصورت جھمکا چپکے سے اس کے گال کا بوسہ لے لیتا۔

اتنی نفاست سے گلاس تھامتی کہ حد ہے، پانی پیتی تو گلے سے پانی اترتا نظر آتا۔
اس کی گوری صراحی گردن پر باریک نیلی رگیں دیکھ کر کتنی ہی دفعہ سوچا کہ کاش ہم ڈریکولا ہوتے۔

سارا دن میٹنگز میں گزرا اور رات کو جب ہوٹل پہنچے تو ہم سارا ڈیٹا اٹھا کر۔ کے کمرے میں پہنچ گئے۔ وہ کوٹ اتار چکی تھی اور اب بیڈ پہ بیٹھی اپنے جوتے اتار رہی تھی۔ ہم ہلکی دستک دے کر اندر گھس گئے اور سامنے ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔

ذرا سی دیر میں۔ بھی ریلیکس ہو گئی اور پھر ہم کوئی دو گھنٹے بیٹھے گپیں مارتے رہے۔ اچھی خاصی فرینکنس ہو چکی تھی، صبح ایک جگہ کسی سے ملنا تھا، اور 10 بجے کی فلائٹ تھی۔

۔ نے ہم سے بس اتنا پوچھا کہ صبح کب نکلنا ہے، ہم نے کہا کہ 8 بجے چیک آؤٹ کریں گے۔ گڈ نائٹ کہا اور ساتھ والے کمرے میں آ گئے جو ہمارا تھا۔

صبح 6 بجے ہی ۔ نے فون کر دیا اور کہا کہ ”علی! اٹھ جائیں، ہم لیٹ ہو جائیں گے“ وللہ نیند بھری آنکھیں ایک دم کھل گئیں، ہم نے جلدی سے اٹھ کر غسل کیا اور تیار ہو گئے۔

ہمارا یہ سفر تقریباً 9 دنوں پر محیط تھا، جن میں لاہور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے کراچی اور حیدرآباد وغیرہ اور واپس لاہور پہنچے، ائر پورٹ سے ڈرائیور نے پک کیا اور ہم نے پہلے ۔ کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور باوجود اصرار کے اندر نہیں گئے۔

سفر میں ہر روز صبح۔ ہمیشہ ہم سے پہلے جاگ جاتی اور ہمیں فون کر کے جگاتی، ہم سے پہلے تیار ہو جاتی اور ہم ناشتہ اکٹھا کرتے اور نکل پڑتے، ان 9 دنوں میں باوجود کوشش کے ہم ۔ سے پہلے ہوٹل لاؤنج میں نہیں پہنچ سکے، گو کہ ہمارے کمرے ساتھ ساتھ تھے مگر ہم سست ہی رہے۔

ہر ہر چیز کو اتنی نفاست اور سلیقے سے کھاتی کہ ہمیں اپنا آپ گنوار لگنے لگا تھا، ایک روز رات کو ہم کلفٹن میں واک کر رہے تھے تو۔ نے ہمارے کالی مرچ کے پاؤڈر جیسے بال دیکھ کر کہا کہ ”علی! آپ بہت ایکٹو ہیں، میں تو ہمیشہ آپ کو مولوی سمجھتی رہی، آپ کا ایکسپوژر بہت براڈ ہے“ ہم نے بس مسکرا کر تھینک یو کہہ دیا تو کہنے لگی کہ ابھی اپ اتنے ینگ ہیں، ہیر کلر استعمال کیوں نہیں کرتے، اچھا لگے گا آپ پر۔

ہم نے پھر سے مسکرا کر تھینک یو کہہ دیا کہ ہمیں ایسے ہی اپنے بال اچھے لگتے ہیں۔

ان 9 دنوں کے بعد بھی کئی دن اک نشہ سا رہا، اور احساس ہوا کہ ہم تو ان 9 دنوں میں بھوکے ہی رہے کہ ۔ تھوڑا کھانا کھاتی تھی اور اتنے نفیس اور سلجھے شائستہ انداز میں کھانا کھاتی کہ ہم ڈر کے مارے ہی زیادہ کھانا نہ کھا پاتے کہ کہیں سے ہمارے اندر کا چکن بھنبھوڑنے والا بندہ باہر نہ نکل آئے۔ یہ نشے کی کیفیت اس قدر شدید رہی کہ ہم نے ۔ کو اپنی اس فرینڈ لسٹ کا حصہ بنایا جنہیں ہم ہر ہفتے دس دن میں ملتے ہیں۔ ”

جی جناب، کھیل کی طرف واپس آتے ہیں۔ پیراگراف آپ پڑھ چکے ہیں جس میں ایک نام کی جگہ خالی ہے۔ یاد رہے کہ لکھنے والے نے اس میں علینہ نام لکھا ہے جسے ہم نے ہٹا دیا ہے۔ آپ اس میں وہ نام لکھیے جو شروع میں آپ کو منتخب کرنے کو کہا گیا تھا۔ لکھیے اور پھر اسے پڑھ کر دیکھیے۔

کیوں؟ کیا مشکل لگ رہا ہے ایسا کرنا؟

چلیے آپ کی مشکل حل کیے دیتے ہیں۔ خالی جگہ پہ ہمارا نام لکھ دیجیے۔ اس وقت کی طاہرہ کاظمی جب وہ بائیس تئیس برس کی تھی اور پورے پاکستان میں گھومتی پھرتی تھی۔

”کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے مزے ہیں، بندے کو تنخواہ ٹھیک ملے نہ ملے، ششکے اخیر ملتے ہیں۔

ہماری قسمت کے تارے البتہ آج کل گردش میں ہیں، پچھلے سال انہی دنوں بھی ہم آفیشل وزٹ پہ اسلام آباد تھے، تب روٹ تھوڑا چینج تھا۔

ہم دو لوگ لاہور سے اسلام آباد ڈرائیور کے ساتھ آئے تھے، پلان یہ تھا کہ ڈرائیور ہم دونوں کے ساتھ اسلام آباد جائے گا، ہم پہلے دن اسلام آباد کام کریں گے اور یہیں رک جائیں گے، اگلے روز صبح 10 بجے ڈرائیور ہمیں ائر پورٹ پر ڈراپ کر کے واپس چلا جائے گا اور ہم کراچی چلے جائیں گے، واپسی کی فلائٹ لاہور کی ہو گی۔

وہ پروفیشنل لائف میں کسی کرئیر کانشیئس لڑکی کے ساتھ ہمارا پہلا سفر تھا، جو اس قدر حسین اور رومانوی ثابت ہوا کہ کیا بتائیں۔

( دفتری سفر کو حسین اور رومینٹک بنانے کا سہرا ان صاحب کے سر نہیں۔ ہمارے یہاں کا ہر مرد کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والی لڑکی کو مال مفت سمجھ کر رومانس جھاڑنا لازم سمجھتا ہے )

لاہور سے نکلے تو ہم ڈرائیور کے ساتھ آگے اور مس طاہرہ پیچھے بیٹھی تھیں، لاہور اسلام آباد رستے میں بس ایک سٹے کیا اور سفر خاموشی سے کبھی کبھار کی ہوں ہاں میں گزرا۔ طاہرہ اپنے لیپ ٹاپ پر اور ہم موبائل میں مصروف رہے۔

ہماری پہلی میٹنگ ایف۔ 10 میں ایک ہوٹل میں تھی، وہاں پہنچے فریش ہوئے اور میٹنگ اٹینڈ کی، بعد میں ایک جگہ جوس پینے گئے تو وہاں میٹنگ کی کچھ چیزیں ڈسکس ہوئیں اور ہم ذرا کھلے۔ جوس پینے کے بعد ڈرائیور نے طاہرہ کے لیے پچھلا دروازہ کھولا اور ہمارے لیے اگلا، جبکہ ہم خود ہی دوسری طرف سے پیچھے ہی بیٹھ گئے۔

( ان صاحب کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو۔ ماڈرن اور با اعتماد لڑکی اکیلی دیکھی اور ہونے لگے فری۔ اگر اس جگہ پہ ان کی بہن کام کر رہی ہوتی اور اس کا کولیگ ایسا کرتا، کیا تب بھی یہ ذکر ایسے ہی ہوتا؟ )

نیوی بلو کوٹ، بلیک پینٹ اور باریک لائنوں والی زیبرا ٹی۔ شرٹ کے ساتھ طاہرہ بہت اچھی اور کانفیڈنٹ لگ رہی تھی۔ بار بار اپنے کھلے بال کانوں کے پیچھے کرتی تو اس کا خوبصورت جھمکا چپکے سے اس کے گال کا بوسہ لے لیتا۔

اتنی نفاست سے گلاس تھامتی کہ حد ہے، پانی پیتی تو گلے سے پانی اترتا نظر آتا۔
اس کی گوری صراحی گردن پر باریک نیلی رگیں دیکھ کر کتنی ہی دفعہ سوچا کہ کاش ہم ڈریکولا ہوتے۔

( اتنی نیچ سوچ اور ارزاں خیالات؟ لڑکی دیکھی اور جنسی تعلق کے لیے تیار۔ لڑکی کی گردن اور گال دیکھ کر بوس و کنار کا خیال آنا ظاہر کرتا ہے کہ محترم کے لیے عورت محض جسم کا نام ہے )

سارا دن میٹنگز میں گزرا اور رات کو جب ہوٹل پہنچے تو ہم سارا ڈیٹا اٹھا کر طاہرہ کے کمرے میں پہنچ گئے۔ وہ کوٹ اتار چکی تھی اور اب بیڈ پہ بیٹھی اپنے جوتے اتار رہی تھی۔ ہم ہلکی دستک دے کر اندر گھس گئے اور سامنے ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔

( دیکھیے یہاں باؤنڈری کیسے کراس کی گئی ہے؟ رات کے وقت کسی لڑکی کے کمرے میں یوں گھسنا مغربی ممالک میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کام کی بات کرنے کے لیے ہوٹل میں بزنس رومز موجود ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ۔ کیوں؟

کیوں پہنچے ایک لڑکی کے کمرے میں؟ ہلکی سی دستک اور اندر گھسنا؟
یقین کیجیے اگر ہم ہوتے تو اس بات پہ وہ لتے لیتے کہ موصوف پوری عمر کے لیے محتاط ہو جاتے )

ذرا سی دیر میں طاہرہ بھی ریلیکس ہو گئی اور پھر ہم کوئی دو گھنٹے بیٹھے گپیں مارتے رہے۔ اچھی خاصی فرینکنس ہو چکی تھی، صبح ایک جگہ کسی سے ملنا تھا، اور 10 بجے کی فلائٹ تھی۔

طاہرہ نے ہم سے بس اتنا پوچھا کہ صبح کب نکلنا ہے، ہم نے کہا کہ 8 بجے چیک آؤٹ کریں گے۔ طاہرہ کو گڈ نائٹ کہا اور ساتھ والے کمرے میں آ گئے جو ہمارا تھا۔

(اس جملے کے بعد اہالیان وطن نے ان صاحب کو خوب لعن طعن کی کہ اپنے کمرے میں واپس آ کر انہوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ دیکھیے اگر باؤنڈری کراس کرنے پہ انہیں ٹوکا نہیں گیا، تو زیادہ تر کا خیال تھا کہ انہیں رات وہیں بسر کرنی چاہیے تھی۔ یعنی سب کے ذہن میں یہ ہے ورکنگ وومن کی اصلیت۔ ہنسی تے پھنسی۔ اکٹھے بیٹھ کر بات کر لی تو بستر پہ کیوں نہیں لے کر گئے؟ )

صبح 6 بجے ہی طاہرہ نے فون کر دیا اور کہا کہ ”علی! اٹھ جائیں، ہم لیٹ ہو جائیں گے“ وللہ نیند بھری آنکھیں ایک دم کھل گئیں، ہم نے جلدی سے اٹھ کر غسل کیا اور تیار ہو گئے۔

ہمارا یہ سفر تقریباً 9 دنوں پر محیط تھا، جن میں لاہور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے کراچی اور حیدرآباد وغیرہ اور واپس لاہور پہنچے، ائر پورٹ سے ڈرائیور نے پک کیا اور ہم نے پہلے طاہرہ کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور باوجود اصرار کے اندر نہیں گئے۔

سفر میں ہر روز صبح طاہرہ ہمیشہ ہم سے پہلے جاگ جاتی اور ہمیں فون کر کے جگاتی، ہم سے پہلے تیار ہو جاتی اور ہم ناشتہ اکٹھا کرتے اور نکل پڑتے، ان 9 دنوں میں باوجود کوشش کے ہم طاہرہ سے پہلے ہوٹل لاؤنج میں نہیں پہنچ سکے، گو کہ ہمارے کمرے ساتھ ساتھ تھے مگر ہم سست ہی رہے۔

ہر ہر چیز کو اتنی نفاست اور سلیقے سے کھاتی کہ ہمیں اپنا آپ گنوار لگنے لگا تھا، ایک روز رات کو ہم کلفٹن میں واک کر رہے تھے تو طاہرہ نے ہمارے کالی مرچ کے پاؤڈر جیسے بال دیکھ کر کہا کہ ”علی! آپ بہت ایکٹو ہیں، میں تو ہمیشہ آپ کو مولوی سمجھتی رہی، آپ کا ایکسپوژر بہت براڈ ہے“ ہم نے بس مسکرا کر تھینک یو کہہ دیا تو کہنے لگی کہ ابھی اپ اتنے ینگ ہیں، ہیر کلر استعمال کیوں نہیں کرتے، اچھا لگے گا آپ پر۔

ہم نے پھر سے مسکرا کر تھینک یو کہہ دیا کہ ہمیں ایسے ہی اپنے بال اچھے لگتے ہیں۔

ان 9 دنوں کے بعد بھی کئی دن اک نشہ سا رہا، اور احساس ہوا کہ ہم تو ان 9 دنوں میں بھوکے ہی رہے کہ طاہرہ تھوڑا کھانا کھاتی تھی اور اتنے نفیس اور سلجھے شائستہ انداز میں کھانا کھاتی کہ ہم ڈر کے مارے ہی زیادہ کھانا نہ کھا پاتے کہ کہیں سے ہمارے اندر کا چکن بھنبھوڑنے والا بندہ باہر نہ نکل آئے۔ یہ نشے کی کیفیت اس قدر شدید رہی کہ ہم نے طاہرہ کو اپنی اس فرینڈ لسٹ کا حصہ بنایا جنہیں ہم ہر ہفتے دس دن میں ملتے ہیں۔

( ہمیں وہ لڑکی پروفیشنل اور صنفی فرق پہ یقین نہ رکھنے والی نظر آئی جس کا اظہار اس نے نارمل سی گپ شپ کرنے سے کیا۔

سوچیے ان صاحب کی جگہ کوئی لڑکی ہوتی تو کیا دونوں لڑکیاں باتیں نہ کرتیں؟ یا اس لڑکی کی جگہ کوئی لڑکا ہوتا تو کیا دونوں لڑکے منہ پہ تالا لگا کر بیٹھے رہتے؟

دوسری بات یہ کہ اس نے اپنے کولیگ سے نرم اور دوستانہ رویہ رکھا اور اسے نظم و ضبط سکھانا چاہا۔ عادات میں شائستگی سے متاثر ہو کر محترم کنفیوزڈ ہو کر اپنا جنگلی پن ظاہر نہ کر سکے جس سے انہیں لگا کہ لڑکی کی ہمراہی میں انہیں نشہ ہو رہا ہے۔ لڑکی نے انہیں اپنے گھر اندر آنے کی دعوت بھی دی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے گھر والے مرد کولیگز کے بارے میں معترض نہیں تھے )

آگے پڑھیے محترم کیا لکھتے ہیں!
”یہاں بھائی صاحبان میں سے اچانک ایک چلاتے ہیں“ بھائی پیلے والی میری ”
دوسرا کہتا ہے ”نیلے والی کو کوئی نہ دیکھے“
تو تیسرا کہتا ہے ”بغیر تو! نیلے والی تمہاری بھابھی ہے“

ایک لڑکی ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی جس نے کالا اپر پہنا ہوا تھا، ایک بھائی نے مجھے باتیں کرتے ہوئے بازو سے کھینچا اور کہا کہ ”علی بھائی! آپ کے والی آ گئی“ ۔

ہمیں فوراً سمجھ نہیں آئی تو پوچھا ”کون؟“
آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ کالے والی۔
واقعی اس معصوم لڑکی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے بارے کیا بات ہو رہی ہے؟

نعیم بھائی مسکرا کر کہہ رہے تھے کہ نہیں نہیں علی بھائی، ایزی رہیں، مجھے پتا ہے، دوست ایسے ہی ہوتے ہیں ”

صاحبان! جی چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کر احتجاج کریں۔ ایک ایسا معاشرہ جو لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک ایسا ملک جہاں نوکری کرنے والی لڑکی کو فاحشہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو آزادانہ باہر جانے والی لڑکی کو جسم فروش سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا سماج جہاں پہ عورت کے پاس زندگی گزارنے کے لیے بہت کم جگہ ہے۔ شاید اتنی کم کہ وہ مشکل سے سانس لے سکتی ہے اور کبھی کبھی تو سانس کا بھی تاوان دینا پڑ جاتا ہے۔

ایسے معاشرے میں ان صاحب نے ایک لڑکی کی ذات کو بیچ چوراہے میں رکھ کر معاشرے کو پیغام دیا ہے کہ تم لوگ اپنی اپنی بہن اور بیٹی کو چھپا کر رکھنا ورنہ ہم جیسے بھیڑیے ہر جگہ دانت نکوس کر کہتے نظر آئیں گے ؛

نیلے والی تیری
پیلے والی میری!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: