مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آخر جام پور ضلع کیوں؟۔۔۔ ملک خلیل الرحمان واسنی

اگر جام پور ضلع بن گیا اورخدمت سے سرشار حکومتی و علاقائی نمائندے میسر آئے تو یہاں ترقی و خوشحالی کے مناظر بہت جلد دیکھنے کو ملیں گے۔

تحصیل جام پور ضلع راجن پور کی اور پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہےجوکہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 193،194اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 293،294،295 کا حصہ ہے تحصیل جام پور میونسپل کمیٹی اور تحصیل کونسل اور چار ٹائون کمیٹیاں داجل،حاجی پورشریف،محمد پور،کوٹلہ مغلاں ہیں۔

اس تحصیل کی درجنوں یونین کونسلز،سینکڑوں کی تعداد میں ویلیج /نیبر ہڈ کونسلز ہزراروں کی تعداد میں قصبے اور دیہات ہیں جسمیں قابل ذکر کوٹ جانوں،کوٹ طاہر،بستی رندان،شاہن والا،تتار والا،نواں بیگراج،کوٹلہ دیوان،اللہ آباد شرقی،رسول پور،قنبر شاہ،کوٹلہ مغلاں،ہیرو،محمد پور دیوان نمبر 1,محمد پور دیوان نمبر2،پیرو والا،بخارہ،بولے والا،ٹھل علی محمد،ٹبی لنڈان،داجل،رکھ عظمت والا،برڑے والا،جھوک مہار،تفکی،واہ لشاری،تل شمالی،نور پور منجھو والا،نوشہرہ غربی،ہڑند،بکھر پور،لنڈی سیدان،حاجی پورشریف،پیر بخش شرقی شامل ہیں۔

ہزاروں مربع کلومیٹر پر محیط ایک محتاط اندازے کیمطابق 15لاکھ کے لگ بھگ آبادی جس میں کثیر تعداد نوجوانوں کی ہے جوکہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں اور ٹیلنٹ سے بھرپور ،عوامی خدمت سے سرشار مگر بہتر بنیادی سرپرستی اور وسائل کی محرومیوں کا شکار کسی مسیحا کے منتظرہیں۔

درجنوں سرکاری اور پرائیویٹ ڈسپنسیریز،درجن بھر بنیادی ہیلتھ یونٹس،نصف درجن کے لگ بھگ رورل ہیلتھ سنٹرز،سینکڑوں سرکاری اور پرائیویٹ پرائمری سکولز،درجنوں مڈل سکولز،ہائی سکولز نصف درجن کے قریب ہائیر سکینڈری سکول،ایک دو کالج،ووکیشنل سینٹر، بہترین کاروباری ،زرعی،تجارتی مراکز،مویشی ،سبزی،فروٹ منڈیاں جن سے ماہانہ لاکھوں روپے محکمہ مال و حکومتی اداروں کو ریکوری حاصل ہوتی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود 1987سے لیکر آج تک ہر بلدیاتی الیکشن اور قومی الیکشن میں جام پور ضلع کے جھوٹے وعدے، دعوے اور طفل تسلیاں دی گئیں، حتیٰ کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پی پی 247سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی تو یہاں کے عوام خوب سبز باغ دکھائے گئے اور جام پور ضلع کے سہانے سپنے بھی دکھائے گئے مگر بدقسمتی سے کامیابی کے بعد یہاں کے عوام کے ووٹ کی اہمیت کو نظر انداز کر کے اس سیٹ کو چھوڑ دیا گیا؟

جس پربعد میں سابق ضلع ناظم راجن پورسردار نصر اللّٰہ خان دریشک کے بیٹے سابق فنانس منسٹراور موجودہ منسٹر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے بھائی بیرسٹر سردار علی رضا خان دریشک کامیاب ہوئے انہوں نے بھی یہاں کے عوام سےخوب وعدے اور دعوے کیئےاسی طرح سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی خان گورچانی نے بھی یہاں کی عوام کو خوب جھانسے دیئے اور ڈپٹی اسپیکر ہائوس لاہور کو راجن پور ہائوس کانام دیگر یہاں کے عوام کی خوب ہمدردیاں سمیٹیں مگر یہاں کی 39سالہ ظلم و زیادتیوں،استحصال اور محرومیوں کا ازالہ نہ ہوسکا ۔

رہی سہی کسر 2010کے سیلاب نے پوری کردی اور یوں پورا شہر سیلاب کی نذر ہوا اور کئی دن تک متعلقہ انتظامیہ کی غفلت و لاپرواہی اور مجرمانہ طوطا چشمی کے سبب دریا کا منظر پیش کرتا رہا۔ستم بالائے ستم ہر دور میں یہاں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی وعدے دعوے تو کرتے ہی رہے تھے مگر اس بار الیکشن میں باقاعدہ معاہدہ بھی تحریر کیا گیا کہ اراکین اسمبلی حلف برداری کے بعد جام پور ضلع کے قیام کی اسمبلی میں قرارداد پیش بھی کریں گے اور منظور بھی کرائیں گے اور جام پور ضلع کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔مگر کچھ بھی نہ ہوسکا اور نہ ہی کیئے گئے وعدے وفا ہوسکے۔

جس پر یہاں کے عوام اب سراپا احتجاج ہیں۔اور بزم خوشبو،جام پور ضلع محاذ،آواز حقوق جام پور،یاراں نال بہاراں اور اس طرح کی دیگر تحریکوں کی روح رواں شخصیات کی خدمات اور جذبات لائق تحسین ہیں اور انہیں نظر انداز یا فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اور اب اس تحریک کے حوالے سے عوامی سماجی نوجوان شخصیت محمد زبیر بھٹہ کی کوششیں اور کاوشیں سلام کے قابل ہیں جو نئے انداز میں یہاں کے باسیوں اور نوجوانوں کو اپنے اور اپنے علاقے کے بنیادی حقوق کے حصول اور جام پور ضلع بنائو تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہاں کے صحافتی نمائندوں کی خدمات بھی قابل رشک ہیں۔جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔

جب بھی کسی علاقے کی اپ گریڈیشن کی بات آتی ہے تو وسائل اور مسائل کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے،لیکن اگر حکومت وقت چاہے تو جام پور کو ضلع بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہاں کے مالی وسائل سے بھی مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر ماسوائے سیاسی نمائندوں کے کہ شاید انکی چودھراہٹ کو خطرہ نہ ہو،اور یہاں کے باسی وفاقی و صوبائی سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اداروں میں اعلی عہدوں پر فائزہیں اور وہ چاہیں تو بہت کچھ ممکن ہوسکتا ہے جس کی واضح ترین مثال جام پور کے ایک معروف محقق،دانشور،صحافی،کالم نگار،تاریخ دان،عوامی ،سماجی شخصیت آفتاب نواز مستوئی کی ایک چھوٹی سی جدوجہد سے اپنی مدد آپ کے تحت مولانا عبید اللّہ سندھی پارک کی بحالی روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن اس کے لیئے جستجو اور بے لوث خدمت شرط ہےاور 16اکتوبر 2019کے روزنامہ اوصاف ملتان کے شمارے میں جام پور ضلع کی اہمیت و افادیت کے نام سے کالم لکھ کر حکام بالا و متعلقہ حکام کو متوجہ کر چکے ہیں

اسی طرح روزنامہ نوائے وقت ملتان کے18جنوری اور11جون 2018کے ایک شمارہ میں جام احمد علی ارائیں بھی وقت کے حکمرانوں کو جھنجھوڑ چکے ہیں،کیونکہ جام پور کا محل وقوع ،ثقافت،طرز زندگی،گویا ہر قسم کی نعمتوں سے اللّٰہ تبارک وتعالی نے اس علاقے کو نوازا ہے کوہ سلیمان کے دامن میں پہاڑ اور ٹھنڈک سے بھرپور انتہائی صحت افزاء مقام کوہ ماڑی،علاقہ پچادھ کیطرف ہزاروں لاکھوں ایکڑ کھیت ،کھلے میدان کوٹلہ مغلاں کیطرف بہتا دریائے سندھ، ملک کے چاروں کونوں سے جڑا شہر جام پورجہاں اب صرف توجہ کی ضرورت ہے جہاں تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک عوام اگر چاہیں تو یہ ممکن ہے۔

انکے ایک جذباتی ایکشن کے باوجود یہاں کے عوام دوست اسسٹنٹ کمشنر جامپور سیف الرحمن بلوانی کی ایک چھوٹی سے کوشش سے بہت ہی کم عرصے میں یہاں ترقی اور بہتر معیار زندگی کی راہ ہمواری کے نمونے دیکھنے کو ملے اور اگر جام پور ضلع بن گیا اور عوامی ،سماجی ،خدمت سے سرشار حکومتی و علاقائی نمائندے میسر آئے تو یہاں ترقی و خوشحالی کے مناظر بہت جلد دیکھنے کو ملیں گے۔جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں کیونکہ اب یہاں کے نوجوان اپنے حقوق کے لیئے جاگ چکے ہیں اور اپنے فرائض سے بھی غافل نہیں ہیں۔ اور بہت جلد رائزنگ جام پور موومنٹ کا آغاز بھی کرنے جارہے ہیں۔

%d bloggers like this: