اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط 10)۔۔۔ عباس سیال

کرنل نول کے جھوٹ کے بعد یہ انکوائری بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور کچھ دن بعد حالات پھر سے معمول پر آگئے۔

راجندر نگر میں ٹانک، کلاچی، بنوں، ڈیرہ سے آئی ہندو برادری ایک ساتھ مل کر رہتی تھی اور ان کی آپس کی شادیاں بھی ایک ساتھ ہوئیں۔دِلی کے مقامی ہندو ہمارے ساتھ رشتے داریاں نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیں شرنارتھی کہہ کر بلاتے تھے۔

میری شادی بنوچی خاندان میں ہوئی اور رنویر کے ساتھ بیاہ کر میں ملکوں ملک گھومی پھری ۔ریکھا بتاتی ہیں کہ ان کے دادا نوتن داس اپنی زبان (سرائیکی) میں اپنی کھوئی ہوئی دھرتی کی باتیں کیا کرتے تھے جس پر اُس وقت میں نے خاص توجہ نہیں دی کیونکہ میں دلی میں پلی بڑھی تھی لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میرے دادا سمیت بہت سارے لوگوں نے تقسیم میں اپنا سب کچھ کھو دیا تھا، مگرپھر بھی ہمارے بڑوں نے اپنا دکھ اور محرومی ہم میں منتقل نہیں کی۔

وہ ہمارے سامنے یہی کہتے رہے کہ وہ غم زدہ نہیں ہیں حالانکہ وہ سب اندر سے ٹوٹ چکے تھے،شاید اِسی کارن میرے دادا کا جلد دھیانت ہو گیا تھا۔ریکھا کی باتوں نے ماحول کو افسردہ کر دیا تھا۔میری دائیں طرف بیٹھی دیش بندھو کی پتنی سبھاش نے بتایا کہ ان کا بڑا بھائی رمیش پاوا اَبھی زندہ ہے میں اُن سے تمہاری بات کرواتی ہوں۔وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے بھائی سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے فون میری طرف بڑھا دیا۔

سیئں میڈا ناں رمیش ہے، چھوٹے بزار دیرہ اچ میڈا گھر ہئی ۔ توں کتھوں دا ہیں؟ میڈا گھر مسلم بزار وِچ ہے۔ کیہرا مسلم بزار؟رمیش صیب چونگلے دے نال مسیت آلی سائیڈ آلابزار۔ اچھا اچھا تساں اُوکوں مسلم بزار آدھے وے، اسیڈے ویلے اوکوں سیٹھاں آلا بزار آکھیا ویند اہئی۔

وڈا بزار، چھوٹا بزار، رام بزار، ٹھٹھاراں آلا بزار، فقیرنی گیٹ، توفاں آلا گیٹ، چونگلہ ۔ میکوں سب یاد ہن تے میں آپڑی جوانی اُتھائیں گزاری ہے، سو سال دا تھیون آلا ہاں،ہن متھاج تھی چکاں ورنہ تیکوں ملن ضرور آواں ہا۔ رمیش صیب تویڈی لمبی حیاتی دا راز؟ بس دِل کوں نہ لاندا، کوئی شے لُڑدی پئی ہووے میں لُڑن ڈینداں، چنتا نمی کریندا۔میں دیرے ونجن دی بہوں کوشت کیتی مگر ویزہ نیں مل سگا، ہن تاں متھاج تھی چکاں، بھلا ہن وی میکوں گھن ونجو تاں اکھیاں نُوٹ کے آپڑے گھر دی تھلی ڈسا سکداں۔

دیرے ونجیں تاں چونگلے کُوں میڈا سلام ضرور ڈیویں تے اُوکوں آکھیں جو رمیش تیکوں اَجن تک یاد کریندے ۔رمیش پاوا سے صرف پندرہ بیس منٹ ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی، وہ مجھے انتہائی دلچسپ انسان لگے۔ رمیش صاحب سے بات چیت کرنے کے بعد چاولہ خاندان سے اجازت لی ۔

ریکھا چاولہ نے الوداعی ملاقات کے دوران کیا خوبصورت بات کہی کہ سرحد کے دونوں اطراف رہنے والی پرانی نسلیں دھیرے دھیرے ختم ہو تی جارہی ہیں مگر میں امید کرتی ہوں کہ ہم اپنے اجداد کی اصل کو نہ بھولیں کہ وہ ڈیرہ، بنوں،ٹانک ،کلاچی،پہاڑپور، لہور ، پشور جیسے علاقوں سے آئے تھے ۔

میں اپنے بچوں کو لاہور، پشور،بنوں اور ڈیرہ لے کر گئی تھی تاکہ ہماری نئی پیڑھی کو پتہ ہو کہ اُن کے پُرکھے کن علاقوں کے باسی تھے ۔ بھلے آج ہم گنگا جمنی تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں اور اپنے آپ کو انڈین کہلواتے ہیں، لیکن اصل انڈین آپ ہیں کیونکہ آپ سندھو ندی کے باسی ہیں ۔آج وہ لوگ جو سرحد وں کے پار نہیں جا سکتے خصوصاً سندھ دریا کے کنارے رہنے والے آپ سب خوش نصیب چاہے وہاں کے مقامی ہوں یا تقسیم کے بعد آکر بسے ہوں۔آپ کوچاہیے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب(سرائیکی کلچر) کا حصہ بننے پر فخر محسوس کریں۔ ہم چلے گئے، ہمیں جانا تھا، آج آپ لوگ اُس خطے کے مالک ہیں۔ اپنی دھرتی، اپنی شناخت، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت ، اپنی زبان کے ساتھ اپنی اپنی سوچوں میں اس سفر کو جاری رکھیں، اسے محسوس کریں اور پوری دنیا کو بتائیں کہ آپ ایک بہت بڑے تہذیبی وِرثے کے امین ہیں۔

پنچھی ، ندیا ، پون کے جھونکے : مکیش اسیجا نے جس محبت اور خلوص کے ساتھ شام کے کھانے کی دعوت دی، وہ مجھے ہر حال میں قبول کرنا تھی۔انہوں نے مجھے سیدھا ہوٹل سے پک کیا اور غازی آباد لے گئے۔ غازی آباد دہلی کے مشرق میں جمنا پار ایک علیحدہ ضلع ہے ۔جمنا پل سے گزرتے ہوئے مکیش نے بتایا کہ آگے شاہدرہ جنکشن آئے گا ۔شاہدرہ نام سنتے ہی مکیش کو بتایا کہ دلی اور لاہور واقعی ایک جیسے شہر لگتے ہیں ۔

ایک جیسی آب و ہوا، وہی لینڈ اسکیپ۔ لاہور کے پہلو میں راوی، یہاں جمناندی۔ وہاںراوی عبور کریں تو شاہدرہ،یہاں جمنا پار شاہدرہ۔ لاہور میں لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ، موچی گیٹ۔ یہاں انڈیا گیٹ، اجمیری گیٹ، کشمیری، لاہوری گیٹ۔وہاں مینار پاکستان یہاں قطب مینار، وہاں مقبرہ جہانگیر یہاں ہمایوں کا مقبرہ۔ وہاںداتا گنج بخش یہاں حضرت نظام الدین اولیائ۔وہاں اقبال ، یہاں غالب، واقعی دونوں شہروں میں کتنی مماثلت ہے ۔

باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اور ہم غازی آباد کے چندر نگر نامی پوش علاقے میںپھولوں سے لدے اسیجا ہاﺅس کے سامنے پہنچ گئے۔ یہاں پر مکیش اپنی پتنی، والدین اور بڑی بہن کے ہمراہ سب ایک چھت کے نیچے مل جل کر رہتے ہیں۔مجھے اُن سب سے مل کرایسالگا کہ جیسے میں اُن کے ہی گھر کا کوئی فرد ہوں۔گھر کی سجاوٹ ،سلیقہ، قرینہ اور میز پر سجاکھانا ، سبزیاں، دالیں، گرما گرم روٹیاں،چاول، فیرنی، فروٹ وغیرہ دیکھ کر سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کھاﺅں اور کیا چھوڑوں؟۔

کھانے کے بعد بات چیت کا طویل سلسلہ چل نکلا۔مکیش کے والد منوہر اسیجا ایڈوکیٹ ہیں اور آج کل اپنی پتنی کرشنا کے ساتھ ریٹائرمنٹ کی ز ندگی انجوائے کر رہے ہیں ۔وہ انگریزی کے بہترین فکشن رائٹر بھی ہیں۔سندھو ندی اور دامان کی چکنی مٹی کے خمیر سے پیدا ہونے والے فطرتاً پرامن ،صاف دل، مہمان نواز اور سادہ صفت پتی پتنی اگرچہ بڑھاپے کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیںمگر ڈیرہ میں گزرے پل ان کی یاداشتوں میں آج بھی ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔

مکیش کی ماں نے ماسٹر جسونت ایلا وادی کا 1952 ءمیں ترتیب دیا نقشہ منگوایا اور اسے میز پر پھیلاتے ہوئے اپنے گھر کا پتہ سمجھانے لگیں ۔اگر آپ فقیرنی گیٹ سے اندر داخل ہو کر سیدھے رخ چلتے جائیں تو آخر میں بائیں جانب سکول والی گلی میں تھوڑی دور چل کر دائیں طرف مڑجائیں۔ یہیں سے چھوٹا بازار شروع ہو جاتا ہے، جس کے دائیں جانب محلہ بابا اَسانند کی پہلی گلی کے اندر تیسری گلی میں گھنیش پوری کنواں واقع ہے، اسی کنوئیں کے ساتھ میرے دادالال چند گوگیہ کا مکان تھا ۔

ہمارے گھر کی نشانی ایک اونچی تھلی تھی جس کے داخلی دروازے پر دو گیٹ نصب تھے اور عمارت اندر سے د ومنزلہ تھی، میں وہیں چھوٹے بازار میں ایک پرائمری سکول میں پڑھ رہی تھی جب ہمیں ہندوستان آنا پڑا۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ مٹی کی ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہوئی تھی کہ پتا جی بھاگتے ہوئے آئے اور میری اماں سے بولے جو کچھ سمیٹ سکتی ہو سمیٹ لو،ہم ابھی کے ابھی نکل رہے ہیں۔ اماںجلدی میں ساگ کاٹنے والی درانتی بھی اپنے ساتھ گٹھڑی میں باندھ کر لے آئیں۔ پیتل کی بالٹی، درانتی ،پہاڑپور کی بنی چنگیریں،دستی پنکھا، پچھی (ڈھلیا)اور اُس کے اندر رکھے کچھ بھاری زیورات جو”گوگے “ سنار کے ہاتھوں کے بنے ہوئے تھے ہمارے سامان میں شامل تھے۔

یہ سب قیمتی چیزیں اماں نے بعد میں میرے دھیج( جہیز) میں رکھ دی تھیں، جو میں نے ابھی تک سنبھال رکھی ہیں ۔ میری اماں اٹھتے بیٹھتے اپنی دھرتی کی باتیں کیا کرتی تھیں۔ ڈیرہ ڈیرہ کی رٹ لگاتے بے چاری کا دم نکل گیا ۔کئی بار اماں نے اپنا آبائی مکان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، مگر نہ تو حالات ایسے تھے اور نہ ہی ان کی صحت ایسی تھی، پھر اچانک ایک روز ان کی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہو گئیں۔ مکیش کی ماں نے مجھے وہ ساری چیزیں دکھائیں۔

وہ اردو پڑھ لکھ سکتی ہیں ، آج بھی کہیں سے اردو ڈائجسٹ مل جائے تو سارا ختم کرکے اٹھتی ہیں۔اب بولنے کی باری مکیش کے پتا منوہر اسیجا کی تھی۔وہ اپنے آبائی گھر کی نشاندہی کرتے ہوئے بولے کہ اگر رام بازار(موجودہ رحیم بازار) سے توپانوالہ بازار کی طرف جائیں تو دائیں جانب ایک چھوٹی سی گلی آتی ہے، جہاں فرنٹیئر بینک کی عمارت تھی اور گلی کے اندر ایک مسجد بھی تھی۔

مسجد کے پیچھے بھی کچھ دکانیں تھیں ، بائیں طرف ایک بڑا سا نکاسی آب کا نالہ تھا جسے پار کرنے کے بعد ایک مندر آتا تھا اور اس کے ساتھ بجلی کا کھمبا بھی تھا،اسی چوڑی گلی میں ہمارا گھر تھا۔شہرڈیرہ کے گردگولائی میں پختہ انیٹوں سے ایک وسیع سڑک بنائی گئی تھی ، پوراشہر گول سڑک کے اندر واقع تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف گھاس اور سنتھے کی باڑیں لگائی گئی تھیں، گھاس کی ایک چوڑی پٹی کے اند ر پھولدار پودے لگے ہوئے تھے اور لمبے درختوں کی قطاریں تھیں۔

سڑک کے ساتھ ساتھ نالے تھے جن میں پانی بھرا رہتا اور چند فرلانگ کے فاصلے پر پختہ تالاب تھے، جو ہر وقت پانی سے بھرے رہتے، انہی تالابوں سے پانی لے کر پودوں کو دیا جاتا تھا اور سرکاری مالی اس پانی سے سڑک پر چھڑکاﺅ کیا کرتا تھا۔ شام کو امیر لوگ اپنی بگھیوں میں بیٹھ کر گھوما پھرا کرتے ۔آلودگی، شور شرابے کا نام و نشان نہ تھا۔

اسی سڑک پر مقررہ فاصلوں پر گیٹ بنائے گئے تھے مثلاً توپانوالہ گیٹ، فقیرنی گیٹ، بھاٹیہ گیٹ، ٹھٹھاراں والا گیٹ، پاوندہ گیٹ، نظام خان، کنیراں والا گیٹ وغیرہ، رات کے وقت سارے گیٹ بند کر دئیے جاتے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کنوﺅں اور باغات کا شہر تھا۔شہر کے اندر بعض مسجدوں اور مندروں کے اندر بھی کنوئیں تھے۔ہر گلی میں کم ا زکم ایک کنواں ضرور ی تھا۔ بھاٹیہ محلے میں بگائی خاندان کے دو ذاتی کنوئیں،باوا شوقی دا س محلے میں کنواں،خالصہ دھرم شالہ کے اندر کنواں، گاﺅ شالا میں کنواں، وی بی سکول کے اند رکنواں، ملکاں والا کنواں، دیوان جگن ناتھ کے گھر کے اندر کنواں۔

بھاٹیہ بازار میں دروازے کے باہر کنہیا لال رام چند کا کنواں، جیسے رام کا کنواں،پیارے لال، کالو رام،اُتم چند ، مہنگے رام،دُلی چند کا کنواں،بھوجا رام، بیلی رام کا کنواں اور اسی طرح درابن روڈ پر بھی کوئی پانچ کنوئیں تھے،جن میںسب سے مشہور سیٹھ جیسے رام بھاٹیہ کا کنواں تھا، اسی کنوئیں کے قریب ایک رہائش گاہ پر 1938ءمیں مہاتما گاندھی جی نے کچھ دن قیام کیا تھا ۔مسگراں بازار میں اور پروآ روڈ پر بھی کنوئیں تھے،پولیس لائن کے قریب لال بابلے کا کنواں وغیرہ ۔

پاوندہ گیٹ کی طرف کوئی آٹھ کنوئیں تھے۔نظام خان گیٹ کے باہر بنوں روڈ پر ٹہل رام کا کنواں،رانی دِیا وتی کا کنواں جو بہت بڑی سوشل ورکر تھیں۔دریاکی طرف تھلہ بالو رام کے قریب ، اسی طرح بموں شاہ کا کنواں، گوسائیوں والا کنواں وغیرہ ۔مجھے یاد ہے کہ میرا بڑا بھائی مجھے پتا جی کی سائیکل پر بٹھا کر شہر بھر گھماتا رہتا تھا۔

ہم دُھپ سڑی تک جاتے تھے جہاں میرے ایک ہم جماعت کا گھر تھا۔پتا جی ہمیں سائیکل پر بٹھا کر کونٹوں(کشتیوں) والا پل پار کروا کے دریا خان بھی لے جاتے تھے،وہاں بھی ہماری برادری تھی جبکہ کلاچی ، پہاڑپور میں بھی ہمارے کچھ جاننے والے رہتے تھے،یہ سب سہانے وقتوں کی یادیں لگتی ہیں۔ منوہر اسیجا نے بتایا کہ اُن دنوںڈیرہ میں پانچ سرکاری بینک ہوا کرتے تھے۔ پنجاب بینک سٹی تھانے کے ساتھ ، بھارت بینک گوسائیں والی سرائے کے اندر، ڈاکٹر بہاری لال سوٹا کی دکان کے ساتھ چاولہ بینک ، بازار توپانوالہ کے قریب فرنٹیئر بینک اور غالباً ایک بینک سیٹھاں والے بازار میں بھی واقع تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیرہ ان دنوں کتنی بڑی تجارتی منڈی ہوا کرتا ہوگا ۔

منوہر اسیجا نے تقسیم کے بعد ہندوستان میں پنجاب یونیورسٹی کی ایک شاخ سے بی اے کیا، پھر قانون کی ڈگری حاصل کی ۔اگرچہ وکالت کو انہوں نے بطورِ پیشہ اپنایا لیکن وہ فطرتاً لکھاری تھے اسی لئے انگریزی فکشن پر کئی شاندار کتابیں لکھنے کے علاوہ پاک وہند کی تاریخ پر لکھی ساری کتابیں پڑھیں۔ ڈیرہ کی تاریخ انہیں زبانی یاد ہے۔

بھلا کس کا دل چاہے گا کہ وہ اپنا ہنستابستا گھرچھوڑ کر چلا جائے؟ یقین مانئے سرحد کی دونوں جانب تقسیم اور جبری ہجرت کے پیچھے صرف اور صرف انگریز کا ہاتھ تھا۔ ڈیرہ شہر کو ہندوﺅں سے خالی کروانے کیلئے انگریزوں نے ہر بار خود آگ لگوائی تھی۔ میں آپ کو چند حقائق بتاتا ہوں آگے آپ خود تاریخ کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے۔

منوہراسیجا تاریخ کی کتاب پر ماہ و سال کی پڑی گرد پر پھونک مار کر پرانے لفظ پڑھنے لگے اور میں چپ چاپ بیٹھا انہیں سنتا رہا۔دراصل تقسیم کی آڑ میں انگریزوں نے مسلم اکثریتی علاقوں (پاکستان) کو غیر مسلم اقلیتوں سے خالی کروانا تھا جبکہ غیر مسلم اکثریتی علاقوں(ہندوستان) سے مسلم اقلیتوں کو ہجرت پر مجبور کرنا تھا ۔اسی منصو بے کے تحت ڈیرہ میں پہلی آگ 1926ءمیں انگریزوں نے خود لگوائی تھی،

اس میں مقامی مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور یہ اُس وقت کے انگریز پولیس سپریٹنڈنٹ مسٹراینڈرسن کی سازش تھی جو ہندو محلوں کی دیواروں پر رات کی تاریکی میں چند غنڈوں کی مدد سے پوسٹرز لگواتا جن پر منافرت کے نعرے لکھے ہوتے اور راتوں کو ہندوﺅں کی بند دکانوں کے نچلے سوراخوں میں دھمکی آمیز خطوط پھنکواتا تاکہ فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے جا سکیں۔1926ءمیں لگی آگ شہرڈیرہ کی تاریخ میں پہلا فساد تھا، اس سے پہلے کسی نے سوچا تک نہ تھا کہ یہاں کا ہندو مسلمان بھی کبھی آپس میں لڑے گا؟ شرپسندوں کے ہاتھوں لگی آگ کو ہندوﺅں نے جیسے تیسے بجھا دیا،

اُسی دن رُچی رام کھتر کی سربراہی میں ہندوﺅں نے ڈپٹی کمشنر کرنل بروس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ۔مسٹراینڈرسن نے کمشنر کو انکوائری کی تفصیل بتانے کی بجائے ادھر ادھر وقت ضائع کرنے کی کوشش کی ۔آخر کار اینڈرسن کا چپکے سے کسی اور شہر تبادلہ کر دیا گیا اور اس شرپسند انگریز افسر کے ڈیرہ چھوڑتے ہی حالات معمول پر آگئے ۔

شہر میں دوسری آگ ڈپٹی کمشنر کرنل نول کے زمانے میں لگائی گئی جب کلاں بازار، توپانوالہ بازار میں خوب لوٹ مار کی گئی اور ایک دو ہندوﺅں کو دکانوں سے نیچے اتار کر مٹی کا تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔ اس ہنگامے میں بھی بہت کم مقامی افراد شامل تھے زیادہ تر لوگ غیر مقامی تھے جنہیں فساد برپا کرنے کے عوض معاوضہ دیا گیا تھا ۔کرنل نول کے زمانے والے فساد میں اگرچہ میں پیدا نہیں ہوا تھا لیکن ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ ہنگامے والے دن کرنل نول گھوڑے پر بیٹھا بلوائیوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔

لُوٹو، جب وہ کہتا لُوٹو۔۔ لوگ املاک لوٹنے لگ جاتے۔اس ہنگامے کیلئے جب انکوائری کمیشن کے سامنے کرنل نول کو بٹھایا گیا تو وہ صاف مکر گیا اور بولا کہ میں نے تو بلوائیوں کو کہا تھا: پُھوٹو (یعنی واپس چلے جاﺅ،بھاگ جاﺅ)۔اس وقت کے انگریز ہندی، اردو کے کچھ لفظ با آسانی بول لیا کرتے تھے ۔

کرنل نول کے جھوٹ کے بعد یہ انکوائری بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور کچھ دن بعد حالات پھر سے معمول پر آگئے۔

یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط9)۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: