مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مرشد! زبان ِ اردو کا دکھ بھی تو کوئی سنے ۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

ہماری تاریخ، تہذیب اور تربیت کی روایت ختم ہو جائے گی، اگر ہمارے پاس اردو نہ رہی تو ہمارے پاس ہماری تاریخ بھی نہیں رہے گی۔

چند دن پہلے علاقائی ادبی تنظیم اردو بچاؤ تحریک کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں تمام مقامی ادیب، لکھاری اور شاعر حضرات حاظر تھے۔ معتمد نے تحریک کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ علاقے کی واحد ادبی تحریک ہے جو برسوں سے ادب کی خدمت کر رہی ہے۔

اس ضمن میں ہونے والے  اجلاس کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ نئی نسل اردو ادب سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو اپنی زبان سے قریب کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پورے ملک میں اردو کی حالت خراب ہے۔ اس وجہ سے ایک تہذیب، ایک اعلیٰ تمدن سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔

اردو سے دوری نے ہماری زندگی کے ماحول میں ایک ان دیکھا سا بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو ایک بار پھر پھر تہذیب یافتہ اردو زبان سے قریب کیا جائے۔ اردو زبان نے قیام پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

سر سید احمد خان کے زمانے میں بھی ہندو نے مسلم دشمنی کا پہلا حدف اردو زبان کو ہی بنایا۔ انگریز حکومت نے بھی ہندی زبان کی سرپرستی کی اور ہندوستان سے پہلے فارسی کو نکالا۔

اب وہی سازشی عناصر اردو کے در پئے ہو گئے۔ زبان کا معاملہ آسان نہیں۔ اگر ہم اردو زبان بولنے، لکھنے اور سمجھنے سے محروم ہوگئے تو ہم اپنی تاریخ، تہذیب و تمدن اور رسم و رواج سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ زبان کی اہمیت اور افادیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ پہلا پہلو الفاظ۔ حروف اور دوسرا پہلو رسم الخط ہے۔

اگر زبان کے حروف اور رسم الخط کی حفاظت نہ کی جائے تو زبان ختم ہو جاتی ہے۔ اردو رسم الخط سے اردو دشمن بخوبی آشنا ہیں اور اسی وجہ سے تو تو وہ نوجوان نسل کو روومن اردو لکھنے کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ہمارے قدیم ادباء اور ادب پرستوں نے اردو زبان کی ابجد اور رسم الخط کی بھرپور حفاظت کی۔ مگر آج پاکستانی قوم کا یہ حال ہے کہ اس مسئلے کو سوچتا بھی کوئی نہیں۔

اور تو اور اس وقت اردو زبان پاکستان کے اندر بھی اجنبی بنتی جا رہی ہے۔ اگر اردو زبان کی گرتی ہوئی صورتحال کو روکا نہیں گیا تو پاکستان کے اندر حالت یہ ہو جائے گی کہ ہم اپنے ماضی سے کٹ کر رہ جائیں گے۔

ہماری تاریخ، تہذیب اور تربیت کی روایت ختم ہو جائے گی، اگر ہمارے پاس اردو نہ رہی تو ہمارے پاس ہماری تاریخ بھی نہیں رہے گی۔

اجلاس میں کافی تعداد میں آئے اردو سے عقیدت رکھنے والے دوستوں نے اسرار کیا کہ ہمیں اردو ادب کو عام کرنا چاہیے۔ لہذا اس سلسلے میں ایک مذید بھر پور اور مثبت تحریک چلائی جائے۔ اس تحریک کی قیادت کے لیئے راقم کا انتخاب کیا گیا۔ سچ پوچھیئے تو ہما المیہ ہے کہ ہم اپنی زبان ترک کر کے انگریزی بولنے لگ گئے اور وہ بھی غلط۔ ہمیں ہر صورت اپنی زبان کو ترجیع دینی چاہیے جس سے اردو کو تقویت ملے۔

اس مقصد کے تحت جو احباب ہماری تحریک میں شامل ہو کر ہر جگہ خالص اردو کو عام کرنا چاہیں وہ اپنا نام اور قابلیت و تعلیم اور عمر لکھ کے بھیجیں۔ اگر آج ہم نے قدم نہیں اٹھایا تو آنی والی نسلیں شاید ہی اردو کے واقفیت حاصل کر سکیں۔

آپ جیسے ادبی حضرات کی طرح میں بھی جب فیس بک پر نوجوان نسل کی اردو دیکھتا ہوں تو دل کھول جاتا ہے۔ اس واسطے یہ تحریر لکھنے کو قلم اٹھایا۔ اس اہم ترین اجلاس کے آخر میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں مقامی اور بیرونی شعراء نے اپنی اپنی اردو کی تازہ تخلیقات پیش کیں اور داد حاصل کی۔

%d bloggers like this: