مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور حکومتی اشتراک۔۔۔ ملک خلیل الرحمان واسنی

دوسرا کوئی اجتماعی پراجیکٹ شروع کرنا چاہ رہے ہیں تو اس میں بھی ایک دوسرے کیساتھ مددومعاونت سے سلسلے کو بہتر طور پرآگے بڑھایا جاسکتا ہے

ملک پاکستان کے ہر شہر قصبے دیہات میں مسائل ہی مسائل ہیں اور موجودہ حکومت وقت جو بڑی بڑی تبدیلیوں کا راگ الاپتی تھی اور عوام کو الیکشن سے پہلے گویا یہ تاثر دیا جاتا کہ انکی حکومت آتے ہی کوئی جادو کی چھڑی پھیر دی جائے گی۔
مگر بدقسمتی سے گویا ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا بلکہ سابقہ ادوار میں ہونیوالے کام تک رک گئے ہیں اور لوگ بنیادی سہولیات زندگی تک کو پریشان ہیں اور ہر طرف مسائل کے انبار ہیں حالانکہ عوام کو عمران خان سے بڑی توقعات تھی اور ہیں لیکن شاید بیوروکریسی اور افسر شاہی کا سکہ اتنا مضبوط ہے کہ کچھ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہا مہنگائی روز بروز عروج پر ہے پہلے سنتے تھے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام نافذ العمل ہے جس کے سبب امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر مگر اب تو وہ سفید پوش غریب طبقہ بھی سطح غربت سے نیچے جارہا ہے
حالانکہ اگر حکومت وقت چاہے تو اس مسئلے کو باآسانی مل جل کر حل کرسکتی ہے اور اسکو بنیادی طور پر یونین کونسل کی سطح پر روٹ لیول سے آغاز کیا جائے اور متعلقہ اداروں سے عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے مفاد حاصل کیاجائے اور یونین کونسل کی سطح پر مسائل وسائل ،مسائل کی نشاندھی اور انکا بہتر حل متفقہ رائے اور تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک وہاں کے لوگوں کی مشاورت سے مسئلے کا حل نکالا جائے تو بہت کچھ ممکن ہےکیونکہ سابقہ ادوار میں پالیسیاں ہوتی زمین کی تھیں بنائی آسمانوں پر جاتی تھیں جس کی واضح ترین مثال ڈی جی کینال /داجل کینال میں پانی کی فراہمی یا بندش کاشیڈول لاہور میں طے کیا جاتا تھا حالانکہ اصولی طور پر اسے یہاں کی مقامی ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی انتظامیہ اور متعلقہ علاقوں کے کسانوں کی مشاورت اور معاونت سے طے کیا جائے تو پانی کی بھی بچت ہو سکتی ہے اور فصلیں بھی نقصان سے بچ سکتیں ہیں اور اس کے آبنوش انسانی و زرعی مقاصد کے لیئے بہتر طور پر مستفید ہوسکتے تھے اورہیں لیکن اب بھی بدقسمتی سے بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب کسان کاشتکار جب تک کوئی مظاہرہ یا احتجاج نہ کریں پینے اور فصلوں کو سیراب کرنےکے لیئے پانی میسر نہیں ہوتا۔
اسی طرح بدقسمتی سے ایک ذہن بنایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی ترقیاتی کام ہوتا ہے تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ تو گورنمنٹ کا پیسہ ہے ہمیں اس سے کیا لینا دینا ،حالانکہ یہ گورنمنٹ کا نہیں ہمارے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونیوالی آمدنی ہوتی ہے جو ٹیکس کی صورت میں ہم حکومت وقت کو دیتے ہیں اور پھر حاصل کرنے کیلیئے فنڈز کیصورت میں متعلقہ افسران و ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اور اراکین سینیٹ کی منتیں اور ترلے کرتے ہیں
اور اس سے بڑھ کر آجکل ایک عام بات مشہور ہے جس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور زکوٰۃ و صدقات و عطیات کی مد میں بہت خرچ کرتے ہیں تو اس حوالے سے اس ضمن میں حکومت وقت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ آخر اسکی وجہ کیا ہے تو اسکا آسان سا حل ہے جس علاقے میں ترقیاتی بجٹ خرچ کرنا ہے یا جہاں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں وہاں کے تمام تر شعبہ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد کی مشاورت سے لوکل کمیونٹی گروپ، کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس حوالے سے ان سے رائے بھی لی جائے اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے بھی اس ترقیاتی کام کے حوالے سے فزیبلیٹی رپورٹ مرتب کرائی جائے اور اس ترقیاتی منصوبے میں ان لوگوں کابھی شیئر مختص کیا جائے کہ اس پراجیکٹ میں انکا کتنا شیئر ہوگا کیونکہ اس سے انکو احساس ہوگا کیونکہ اس میں باقاعدہ طور پر انکا شیئر بھی شامل ہوجائے گا جو اس پراجیکٹ کی شفافیت،بہترین کارکردگی،دیر پا پائیداری اور بہت سے عوامل پر بھی اثر انداز ہوگا
جیسا کہ احساس لنگر پروگرام شروع کیا جارہا ہے ،بیت المال کیطرف سے احساس سینٹرز،پناہ گاہیں،اور اس طرح کے دیگر پراجیکٹس بنائے جارہے ہیں تو پبلک اور پرائیوٹ پارٹنرشپ اورحکومتی اشتراک اس میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس سے پسماندہ علاقوں میں ترقی و خوشحالی کی روشن صبحیں شرمندہ تعبیر ہو سکتی ہیں
مثال کے طور پر کسی یونین کونسل میں بنک نہیں ہے وہاں بنک قائم کیا جائے اور اسکو برانچ کوپابند کیاجائے کہ وہاں کے نوجوانوں کو بے روزگار لوگوں کو آسان شرائط اور آسان اقساط پر وہ قرضہ فراہم کریں گے اس سے ایک تو انکے کسٹمرز میں اضافہ ہوگا بنک اکاونٹس اوپن ہونگے،روزانہ کی بنیاد پر بنک میں پیسے کی ریل پیل شروع ہوگی اور وہ بندہ خودبخود ٹیکس نیٹ میں بھی آجائے گا لیکن ٹیکس کی شرح اسکے کاروبار اور زرائع آمدن کے تناسب سے ہو تو؟
دوسرا کوئی اجتماعی پراجیکٹ شروع کرنا چاہ رہے ہیں تو اس میں بھی ایک دوسرے کیساتھ مددومعاونت سے سلسلے کو بہتر طور پرآگے بڑھایا جاسکتا ہے جس کی بہترین مثالیں نیشنل رورل سپورٹ پروگرام،پنجاب رورل سپورٹ پروگرام،اخوت ودیگر اس طرح کے ادارے ہیں جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ملک پاکستان اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میں اور خاص طور پر ڈویلپمنٹ ایریاز میں کام کر چکے ہیں اور کام کررہے ہیں جن میں سیلاب سے بچاؤ کے لیئے چھوٹے پیمانے پر بند، پینے کے صاف میٹھے پانی کی فراہمی کے لیئے ہینڈ پپمس،پولٹری فارمز،پولٹری شیڈز،آٹا پیسنے والی چکی مشینز،کمیونٹی سنٹرز،گھریلو سطح پر سکولز،دستکاری سینٹرز،چھوٹے پیمانے پر بزنس صحت و تعلیم اور بہتر روزگار کے مواقعوں کی فراہمی کے لیئے ورکشاپس اور ٹریننگز کا اہتمام اور سب سے بڑھ کر دیہی علاقوں میں خواتین کے معیار زندگی کو بلند کرنے میں کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے
اور اس حوالے بحثیت مسلمان ممبر و محراب یعنی مساجد اور خانقاہیں ہمارے لیئے بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جوکہ عبادتگاہ کیساتھ ساتھ بہترین قسم کے کمیونٹی سنٹرزبھی ہیں
کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر ہم دن میں پانچ مرتبہ اپنے اللّٰہ تبارک وتعالیٰ رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ متعلقہ مسجد کا امام ہمیں اس حوالے سے راہنمائی فراہم کرے بجائے کہ
فروعی اختلافات کے ہمیں سماجی مسائل بارے آگہی ہو اور ہم ایک دوسرے کے دکھ درد خوشی غمی دکھ سکھ کو اپنا جانیں اور ہفتہ میں ایک مرتبہ جمعتہ المبارک کے کثیر اجتماع میں خطیب صاحب اور متعلقہ یونین کونسل میں موجود حکومتی اہلکاران و افسران ،انچارج پولیس اسٹیشن،پرنسپل،ہیڈ ماسٹر،استاد،و اس طرح کے دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بہترپڑھے لکھے علم و آگہی اور شعوروالے لوگوں کیساتھ ضلعی افسران و انتظامیہ کھلی کچہری یا علاقائی مسائل وسائل کی نشاندھی اور انکے حل بارے کچھ اصول و ضوابط طے اور مشاورت کرسکتے ہیں
بشرط یہ کہ اس اہم مسئلے اور نقطے کا پہلے سے از سر نو جائزہ اور اسکا مکمل تخمینہ اور مثبت و منفی اثرات سب کچھ طے کیاجائے اور آجکل بہت ہی فوری حل طلب اور توجہ طلب صفائی ستھرائی کا سسٹم جس میں من الحیث القوم سب ملکر کر کردار ادا کریں اور اپنے اپنے حصے کا کام خود کریں کیونکہ صفائی نصف ایمان کیساتھ ساتھ ایمان کی شرط بھی ہے جوکہ آجکل کے اس دور میں ہم سب کے لیئے لمحہ فکریہ ہے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک اور عالمی سطح پر ترقی کرنیوالے شہروں اور قوموں میں شمار ہوسکیں اور اپنی توانائیاں،دولت، وقت اور قیمتی سرمایہ کم سے کم خرچ کرکے بہت زیادہ فوائد حاصل کرسکیں۔

%d bloggers like this: