مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضلع راجن پور اور یونیورسٹی۔۔۔ ملک خلیل الرحمان واسنی

دوسرا والدین کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں ہوتا کہ اسے کسی دوسرے شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیئے بھیج سکیں
ضلع راجن پور صوبہ پنجاب کا آخری اور پسماندہ ترین ضلع ہے مختلف روایات کیمطابق مخدوم سید راجن شاہ کے نام پر 1770عیسوی میں اسکو راجن پور کانام دیا گیا یہ ضلع اولیاء اللّٰہ، صوفی بزرگوں،شعراء،اعلی ترین سیاستدانوں،سائنسدان ،بیوروکریٹس،دانشور،صحافی،اینکر پرسنز کا شہر الغرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے منسلک کئی ایسے نام دیئے جن پر پورے ملک پاکستان کو ان پر فخر ہے فردا فردا نام اسوجہ سے بھی نہیں لے رہا کہ کہیں کوئی اہم نام رہ جائے تو میرے لیئےندامت کا باعث نہ ہو۔
قیام پاکستان کے بعد ضلع ڈیرہ غازی خان کا سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹر آخر کار 1982-07-01 کو علیحدہ ضلع کے طور پر تشکیل دیا گیا جہاں پر آج بھی تمن مزاری،لغاری،گورچانی،دریشک،بزدارسرداروں کے علاوہ دیگر قبائل اثر انداز ہیں محل وقوع کے اعتبار سے مغرب میں بلوچستان کا ضلع ڈیرہ بگٹی مشرق میں ضلع مظفر گڑھ اور ضلع رحیم یار خان ،شمال میں ضلع ڈیرہ غازیخان،اور جنوب میں صوبہ سندھ کا ضلع کشمور واقع ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں کیمطابق اسکے تین قومی اسمبلی کی حلقے این اے 193,194,195 اور پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 293,294,295,296,297 کیساتھ اسکی چار تحصیلیں ،روجھان،راجن پور،جام پور اورقبائلی علاقہ ، چار میونسپل کمیٹیاں اور سات ٹاؤن کمیٹیاں شامل ہیں مزید ویلج کونسلز،نیبر ہڈ کونسلز کی تشکیل پر کام جاری ہے جن کا بہت جلد نوٹیفیکیشن جاری ہونیکا قوی امکان ہے جبکہ اس سے قبل مختلف ادوارمیں تھوڑے تھوڑے اضافے کیساتھ اسکی یونین کونسلز کی تعداد 69 یونین کونسلز تک پہنچ گئی ہے ْ
اس ساری تفصیل کا مقصد اس ضلع میں یونیورسٹی کے قیام کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میں سکول ،نصف درجن سے بھی کم کی تعداد میں مختلف کالج اور درجنوں پرائیویٹ سکولز اور دینی مدارس لاکھوں کی آبادی، مگر بدقسمتی سے بنیادی روزمرہ زندگی کی بہتر سہولیات سے محروم یہ ضلع آج بھی کسی محسن اور مسیحاکا منتظر ہے جو اسکے احساس محرومی کو ختم کر سکے حالانکہ موجودہ2018 کے قومی انتخابات میں  پورے ضلع بھر کی تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف نے کلین سوئیپ کیا یہ ایک الگ بحث ہے کہ وہی پرانے سدا بہار ہر حکومتی پارٹی اور ہر حکومت کا حصہ بننے والے تمن دار، جاگیر دار،سرمایہ دار،وڈیرے وہی پرانے چہرے ایک نئے رنگ و روپ اور تبدیلی کے نعرے کے بلند بانگ دعوئوں کے نتیجے میں منتخب ہو کر حسب روایت ، حسب سابق اعلیٰ ایوانوں میں مسند نشیں ہوئے مگر سابقہ ادوار کیطرح اس مرتبہ بھی وہی جھوٹے دعوے،وعدے،طفل تسلیاں،اور خوابوں کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوسکا ۔۔
حالانکہ یہاں کے عوام کی امید تھی اس مرتبہ یہاں کی حکومتی نمائندے اور سدا بہار سیاستدان سابق ادوار میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی جس کا افتتاح راجن پور میں ہوا جس کی افتتاحی تختی آج بھی یہاں کے عوامی نمائندوں کی تعلیم دشمنی اور حکام بالا کی بے حسی کا واضح ترین ثبوت ہے کہ راجن پور کی یونیورسٹی کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور برسوں سے یہ ایک خواب بن کر رہ گیا کہ ضلع راجن پور میں بھی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔مگر بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا اب حالانکہ حکومت پنجاب کی پالیسی کیمطابق ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی اور اس ضمن میں دیگر مختلف اضلاع میں یونیورسٹیوں کے قیام کے اعلانات بھی ہوئے مگر میرا بدقسمت ضلع اس دورحکومت میں 2018اور2019میں صرف اعلان سے بھی محروم رہا ۔
کیونکہ ہمارا ہر دور میں ہر طرح سے قتل عام کیا گیا مگر یہ تعلیمی قتل عام نہ بھولنے کے قابل ہے قاتل خونی انڈس ہائی کا دورویہ کا خواب ،کاہا اور چھاچھڑ کے قاتل سیلابی ریلوں اور پانی سے بچائو کے لیئے مڑنج ڈیم اور مزید چھوٹے چھوٹے ڈیمزکی تعمیر،ماڑی میں سینی ٹوریم کا قیام، ماڑی کیڈٹ کالج،آرمی پبلک سکول،ائیر پورٹ،پچادھ ڈویلپمنٹ اتھارٹی،داجل کینال،قادرہ کینال،ڈی جی کینال سالانہ،سوئی گیس کی فراہمی جام پور ضلع،سیاحت کے لیئے ٹور ازم کا فروغ،روزگار کے بہتر مواقع،کوہ سلیمان کے دامن میں چھپے تیل گیس،معدنیات کے بیش بہا خزانے جن کی دریافت سے یہاں خوب اقتصادی اور معاشی ترقی کیساتھ ملکی معاملات میں ترقی کا باعث ہو سکتے تھے اس طرف جان بوجھ کر بے توجہی برتی جاتی رہی ،برتی جاری ہے اور برتی جاتی رہے گی۔
مگر اس ضلع کو یونیورسٹی کے حق سے تو نہ محروم کیاجائے کیونکہ یہ میرے آنیوالے کل کے مستقبل کا سوال ہے جہاں پر میرے بچے بچیاں پہلے تو سکول ہی نہیں جا پاتے اگر جاتے بھی ہیں تو بمشکل پرائمری بھی پاس نہیں کر پاتے اگر مڈل تک پہنچ بھی جائیں تو والدین غربت و نامناسب سہولیات کے ظلم کے باعث سکول اور تعلیم چھڑوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں مشکل سے اگر کوئی میٹرک بھی پاس کر لے توغربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے اور اپنے خاندان کی خاطر انکا پیٹ پالنے کے لیئےکچھ روپے پیسے کمانے کے چکر میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیتا ہے کہ کونسا کوئی نوکری ملنی ہے یا نوکری ہمارے مقدر نصیب میں کہاں؟
دوسرا والدین کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں ہوتا کہ اسے کسی دوسرے شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیئے بھیج سکیں اور اگر کوئی بمشکل اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیئے کسی بڑے شہر ملتان ،لاہور،کراچی،پشاور،کوئٹہ،اسلام آباد چلا بھی جائے تو کوئی قسمت والا ہی اپنی تعلیم مکمل کر پاتا ہے یا پھر بستی ملوک تونسہ شریف کے گلزار حسین والی صورتحال، جو اپنی تعلیم کیساتھ ساتھ اپنے اخراجات اٹھانے کے لیئے محنت مزدوری پر مجبور ہوکر فاقے کر کے بڑی مشکلوں سے اپنی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں لیکن اگر یہ سہولت اپنے ضلع میں میسر ہو تو لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں سنور سکتی ہیں انکے مستقبل نکھر سکتے ہیں مگر انتہائی افسوس اور لمحہ فکریہ کا عالم ہے کہ یہاں عالمی سیاست پر قومی سیاست پر ملکی معاملات پر تو تنقیدو بحث کرنے میں کسی کوہم پیچھے نہیں چھوڑتے مگر بدقسمتی سے مقامی سیاستدانوں اور سدا بہار برسوں سے مسلط لغاری،مزاری،دریشک،گورچانی،بزدارودیگر عوامی نمائندوں پر تنقید کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں اور اگر کوئی حق بات کے لیئے سے ان پر تنقید بھی کر دے تو اسکو شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی نہیں سمجھتے؟دیر آید درست آید کے مصداق ممبر صوبائی اسمبلی پی پی 295 نےضلع راجن پور کے لیئے توجہ دلائو نوٹس اور یونیورسٹی کے قیام کی پنجاب اسمبلی میں  تحریک پیش کی ہے جو کہ قابل تحسین ہے مگر اس طرح کی بارہا تحریک اور قرار دادیں قاتل خونی انڈس ہائی وے کو دورویہ کرنے کے لیئے بھی پیش کی جاچکی ہیں ان پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہو پایا جہاں ہر سال سینکڑوں  جانیں بے موت لقمہ اجل بن جاتی ہیں
کیونکہ بے وقوف بنانے کے لیئے ضلع راجن پور میں دو دانش سکول تو دے دیئے گئے بے شک وہ سورج کو دیا دیکھانے کے مترادف ضرور ہیں مگر یونیورسٹی بارے زرا بھی سوچ بچار گوارا نہ کی گئی جوکہ مجرمانہ غفلت بے حسی اور تعلیم دشمنی کا واضح ثبوت ہیں سوئی بلوچستان کے سینیٹر میر سرفراز بگٹی نے حالیہ دنوں  اپنے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے علاقے میں سوئی گیس کی عدم فراہمی کے باعث سینٹ کے فرش پر بیٹھ کر احتجاج کرونگا،مطالبہ نہ مانا گیا مستعفی ہو جائوں گا پھر بھی بات نہ بنی تو اپنے عوام کے حقوق کے لیئے بندوق اٹھانے پر مجبور ہوجائوں گا  لیکن افسوس صد افسوس یہاں سے صدرپاکستان،وزیراعظم پاکستان،سپیکر قومی اسمبلی،ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی،قومی و صوبائی وزراء ، وفاقی وزیر انسانی حقوق، صوبائی وزیر آبپاشی،چیف وہیپ قومی اسمبلی،ممبر پبلک اکائونٹس کمیٹی،صوبائی وزیر خزانہ،صوبائی وزیر لائیوسٹاک،چیئرمین ڈونر انگیجمنٹ ٹاسک فورس،چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ جیسے بڑے بڑے حکومتی عہدوں کیساتھ ساتھ اعلی حساس اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان یہاں کے وسیبی اور اعلی ٹی وی چینلز کے یہاں کے اینکر پرسنز گویا گونگے لگتے ہیں کہ یہاں کے بنیادی مسائل اور خاص طور پر یونیورسٹی کے قیام کے لیئے آواز اٹھانےسے قاصر ہیں یا پھر بہرے لگتے ہیں جو یہ آواز سننے سے اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں محروم رکھا ہے اور ان دو بنیادی حسوں کیساتھ ساتھ یہ ساری صورتحال دیکھنے کی طاقت سے اندھے اور محروم رکھے ہیں
کیونکہ انکے اپنے وسائل اور انکے اپنے مسائل کے حل کے لیئے تو شاید کوئی کمی نہیں،
باقی بیچارے عوام تو شاید وہ کیڑوں مکوڑوں یا شاید ان سے بھی بدتر ہیں اسلیئے انکی کیا اوقات۔۔۔۔۔؟ پولیس افسران کے تقرریوں تبادلوں،ٹرانسفر،پوسٹگ یا سٹے آرڈر تک محدود،یا ہوتے ہوئے کام کو روکنے یا اس میں روکاوٹ ڈالنے کے ماہر ان عوامی معاملات بارے کچھ کہنے،سننے،اور دیکھنے کو شاید توہین سمجھتے ہیں کیونکہ گزشتہ دنوں مدر اینڈ چائلڈ کیئر 200بستر پر مشتمل ہسپتال کی جگہ کے انتخاب اور تعمیر نے شاید اس منصوبے کو بھی خدانخواستہ راجن پور /فاضل پورسے محروم کردیا گیا ہے سوشل میڈیا پر بے انتہاء تحریک یونیورسٹی اتحاد کی کوششیں زور پکڑ چکیں ہیں مگر ارباب اقتدار و با اختیار اور متعلقہ حکام اس طرف غور کرنے سے فی الحال قاصر ہیں
مگر میں پھر بھی پر امید ہوں کیونکہ میرے یہاں کے نوجوانوں میں اب یہ مہم زور پکڑ چکی ہے اور انشاء اللّٰہ 2020کے اختتام سے پہلے پہلے یونیورسٹی کا قیام اور کلاسز کا اجراء یقینی طور پر ہوچکا ہوگا کیونکہ بقول ایک انقلابی شاعر کے
کس کے روکے رکا ہے سویرا
پل بھر کا مہماں ہے اندھیرا

%d bloggers like this: