اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کا روشن چہرہ،،بے نظیر بھٹو شہید۔۔ میر احمد کامران مگسی

بالآخر 27دسمبر 2007ءکی وہ کالی شام آ گئی میں اپنے ایک عزیز کے ڈائلاسزکے سلسلے میں لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں موجود تھا

میرے والد اس سرزمین پر مجھے اس وقت لائے جب 1969ءمیں پاکستان سے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے کیلئے جانے والی تھی۔
”تم دوردراز جگہ پر امریکہ میں جا رہی ہو “۔
میرے والد نے یہ بات اس وقت کہی جب ہم اپنے آبائی قبرستان میں کھڑے تھے۔
” تم متعدد حیرت انگیز چیزیں دیکھو گی اور ایسی ایسی جگہوں تک سفر کرو گی جو تم نے پہلے کبھی سنی تک نہیں۔لیکن یاد رکھو کہ زندگی میں جن واقعات سے واسطہ پڑے آخر کار تمہیں واپس یہیں آنا ہے۔ تمہاری جگہ یہی ہے۔تماڑی جڑیں یہاں ہیں۔ لاڑکانہ کی مٹی، گرد اور گرمی تمہاری ہڈیوں میں موجود ہے اور یہی جگہ ہے جہاں تمہیں دفن بھی ہونا ہے“۔ اقتباس: دختر ِ مشرق،صفحہ36

یہ تھی وہ کمٹمینٹ اورلاڑکانہ کی مٹی سے وفا کی کشش جو بے نظیر بھٹو کو پہلے پاکستان اور پھر راولپنڈی کے کوفے میں کھینچ لائی۔ آج سے گیارہ سال قبل 18اکتوبر 2007 ءکو بے نظیر بھٹونے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا تو ”کارساز“ کی شکل میں ایک عظیم سانحہ ان کا منتظر تھا جس میں 180سے زائد کارکنان اپنی قائدپر فدا ہو گئے اور سینکڑوں شدید ذخمی۔یہ ملکی تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا، اس جان لیوا حادثہ میں بی بی شہید بچ گئیں کہ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ان کی شہادت کی لعنت بھی روالپنڈی کے نصیب میں لکھی جا چکی تھی۔
اس مرتبہ بے نظیر شہید ایک نئے روپ اور نئے جوبن میں سامنے آ رہی تھیں۔ ایک ایسی سٹیٹس وومن جو عمر بھر فوجی ڈکٹیٹر اور اس کی باقیات سے نبرد آزما رہنے کے بعداب ایک پر سکون ماحول میں رہ کر ملک وقوم کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں ، اپنی پارٹی کو ایک ہجوم سے ایک منظم جماعت کی شکل میں تبدیل کرنے کا جذبہ لیکر آنے والی سن رسیدہ بے نظیربھٹو کی آنکھوں میں ملک کی ترقی کے بے پناہ خواب موجزن تھے۔ وہ ایک لبرل، روشن خیال،جمہوریت پسنداور اعتدال پسند پاکستان کا خواب آنکھوں میں لئے پاکستان میں آچکی تھیں مگر پاکستان کو انتہا پسندی، تنگ نظری اور منافرت کے ماحول میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے والی قوتیں کیسے بے نظیر کو زندہ رہنے دے سکتی تھیں۔ وہ دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔وہ پاکستان کو ایک ایسی سٹیٹ کی شکل دینے کی خواہاں تھیں جہاں پر حقیقی جمہوریت کا راج ہو، جہاں تنگ نظری اور نفرت کا نام ونشان نہ ہو۔جہاں پر طالبانائزیشن اور ملا گردی ، تکفیری فاشسٹوں کو کوئی عمل دخل نہ ہو۔ اسلام ، جمہوریت اور مغرب کے درمیان مفاہمت ان کا ایسا ویڑن تھا جس کے نتیجے میں دنیا کی نظروں میں پاکستان کا امیج ایک امن پسند اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر سامنے آئے۔ اس کیلئے ا±ن کی شہرہ آفاق تصنیف Reconciliation Islam, Democracy and West ایک بہترین کوشش تھی۔وہ عالمی امن کی خواہاں تھیں ،مگر ملک کو اندھیروں میں رکھنے والی قوتیں ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اور بالآخر وہ قوتیں اپنے گندے مقصد میں کامیاب رہیں۔ان کی شہادت کے ساتھ ہی دہشت گرد قوتیں کھل کر سامنے آ گئیں اور ا±نہوں نے کھل کر ملک میں خون کی ہولی کھیلی اور پاکستان میں خاک اور خون کے اس کھیل کو عروج حاصل ہوگیا جس کا خونی آغاز 5جولائی 1977ئ کو ہوچکا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی سامراجی قوتوں کو کھل کھیلنے کا خوب موقع ملا اور مسلم ممالک میں باہمی خانہ جنگی، بوکوحرام، داعش جیسی خونخوار تحریکوں نے جنم لیا جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک کی حالت بد تر ہو تی چلی گئی اور آج تک زبوں حالی کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں بھٹو خاندان کا کردار ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھ کر اور انکی بیٹی شہید رانی نے ملک میں میزائل ٹیکنالوجی کو لاکر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عظیم سیاسی ورثہ کی حامل اسلامی دنیا کی پہلی مسلم خاتون حکمران تھیں۔ پاکستان کے عوام نے دو مرتبہ ا±ن کو حقِ حکمرانی دیا مگر دونوں مرتبہ ہی انہیں اس حق سے محروم کر دیا گیاکیونکہ وہ مقتدر اشرافیہ کی بجائے غریبوں کے حقو ق کی بات کرتی تھیں اور ان کے میعارِ زندگی کو بلند کرنے کا سوچتی رہتی تھیں۔ ملک کو طالبانی دہشت گردی سے پاک کرنا اور حقیقی جمہوری اقدار کے قیام کی کوشش کرنا ان کا سب سے بڑا قصور تھا
ملکی معاملات میں اداروں کی دخل اندازی نے ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ اور تسلسل کو بار بار ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لوگوں کو جمہوری عمل سے بے زار کرنے اور دور رکھنے کے تمام تر ہتھکنڈوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ کرپٹ تو صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں باقی مقتدر اشرافیہ تو ہرعیب ہر کرپشن سے پاک صاف ہے۔ بے نظیر کی شہادت ان قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان میں بڑے لوگوں کی مرضی کے بغیر کوئی ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ہے۔

بالآخر 27دسمبر 2007ءکی وہ کالی شام آ گئی میں اپنے ایک عزیز کے ڈائلاسزکے سلسلے میں لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں موجود تھا جب ٹی وی کی سکرین پر راولپنڈی سانحہ کے ٹِکرچلنے لگا۔ دل غم سے پھٹ رہا تھا لیکن ایک ا±مید تھی کہ بی بی شہید کو کوئی آنچ نہیں آئی ہو گی۔ابھی پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ یا اللہ کوئی معجزہ برپا کر دے اور جیسے تونے کارساز میں بی بی کی حفاظت کی اب بھی محترمہ کو اپنی امان میں رکھ۔ مگر یہ ساری دعائیں اس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب بابر اعوان نے ٹی وی چینلز پر آ کر دھاڑیں مارتے ہوئے اس منحوس خبر کی تصدیق کر دی۔ اپنے والدین کی وفات کے بعد میں پہلی مرتبہ جی بھر کر رویا۔ باہر نکلا تو اس وقت لاہور اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ہر طرف توڑ پھوڑ کے مناظر تھے۔ لکشمی چوک کو اجڑا ہوا اس دن میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ان کی شہادت ملک پر قہر بن کر ٹوٹی ہر طرف آگ، آہیں اور ماتم تھا اور پھر اس سانحہ کے ردعمل میں جو حالات و واقعات ہوئے اس کے نتیجے میں وفاقِ پاکستان کی سلامتی داو¿ پر لگ چکی ہے۔ ایسے میں جناب آصف علی زرداری کے تدبر نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان کی سالمیت کو بچا لیا۔مقتدر قوتوں نے اپنے آلہ کاروں کی مدد سے انتہائی منظم انداز میں قتل کا یہ گھناو¿نا کھیل رچایا۔سانحہ برپا ہونے کے فوراً بعد کرائم سین کو دھو ڈالا گیا۔ اس قتل میں نامزد ملزم پرویز مشرف تاحال مفرور ہے۔ واقعہ میں ملوث پولیس افسران باعزت ضمانت کے بعد دندناتے پھر رہے ہیں۔جبکہ پاکستان کے عوام پہلے سیاسی قتلوں کی طرح اس قتل کے حوالے سے بھی مایوسی کا شکار ہیں۔
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
ہے کس کی گردن پر خون ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
آج بے نظیر شہید کے بغیر ا±ن کی پارٹی کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ بلاول بھٹوزرداری پارٹی کے عملاً چیئر مین ہیں۔ وہ ابھی تک پارٹی کے اندرونی میکنزم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نووارد پارٹی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں جبکہ پارٹی کے سینئر کارکنان پذیرائی نہ ملنے کے سبب دل برداشتہ ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں پارٹی کارکنوں کی اکثریت پارٹی قیادت کی مفاہمتی پالیسیوں سے نالاں نظر آ رہی ہے۔ آصف زرداری کوپرانے مقدمات میں گھسیٹ کو پارٹی کو مفلوج کرنے کی تیاریاں ایک مرتبہ پھر زوروں پر ہیں۔ انتقامی کارروائیوں کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اس ساری صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری کے سر پر بہت بھاری ذمہ واریاں ہیں۔ پارٹی امور میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں اپنا کردار نمایاں کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وفاق کی علامت یہ پارٹی کہیں علاقائی پارٹی نہ بن جائے۔پاکستان میں وفاقی پارٹیوں کو مستحکم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

میرے والد اس سرزمین پر مجھے اس وقت لائے جب 1969ءمیں پاکستان سے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے کیلئے جانے والی تھی۔
”تم دوردراز جگہ پر امریکہ میں جا رہی ہو “۔
میرے والد نے یہ بات اس وقت کہی جب ہم اپنے آبائی قبرستان میں کھڑے تھے۔
” تم متعدد حیرت انگیز چیزیں دیکھو گی اور ایسی ایسی جگہوں تک سفر کرو گی جو تم نے پہلے کبھی سنی تک نہیں۔لیکن یاد رکھو کہ زندگی میں جن واقعات سے واسطہ پڑے آخر کار تمہیں واپس یہیں آنا ہے۔ تمہاری جگہ یہی ہے۔تماڑی جڑیں یہاں ہیں۔ لاڑکانہ کی مٹی، گرد اور گرمی تمہاری ہڈیوں میں موجود ہے اور یہی جگہ ہے جہاں تمہیں دفن بھی ہونا ہے“۔ اقتباس: دختر ِ مشرق،صفحہ36
یہ تھی وہ کمٹمینٹ اورلاڑکانہ کی مٹی سے وفا کی کشش جو بے نظیر بھٹو کو پہلے پاکستان اور پھر راولپنڈی کے کوفے میں کھینچ لائی۔ آج سے گیارہ سال قبل 18اکتوبر 2007 ءکو بے نظیر بھٹونے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا تو ”کارساز“ کی شکل میں ایک عظیم سانحہ ان کا منتظر تھا جس میں 180سے زائد کارکنان اپنی قائدپر فدا ہو گئے اور سینکڑوں شدید ذخمی۔یہ ملکی تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا، اس جان لیوا حادثہ میں بی بی شہید بچ گئیں کہ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ان کی شہادت کی لعنت بھی روالپنڈی کے نصیب میں لکھی جا چکی تھی۔
اس مرتبہ بے نظیر شہید ایک نئے روپ اور نئے جوبن میں سامنے آ رہی تھیں۔ ایک ایسی سٹیٹس وومن جو عمر بھر فوجی ڈکٹیٹر اور اس کی باقیات سے نبرد آزما رہنے کے بعداب ایک پر سکون ماحول میں رہ کر ملک وقوم کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں ، اپنی پارٹی کو ایک ہجوم سے ایک منظم جماعت کی شکل میں تبدیل کرنے کا جذبہ لیکر آنے والی سن رسیدہ بے نظیربھٹو کی آنکھوں میں ملک کی ترقی کے بے پناہ خواب موجزن تھے۔ وہ ایک لبرل، روشن خیال،جمہوریت پسنداور اعتدال پسند پاکستان کا خواب آنکھوں میں لئے پاکستان میں آچکی تھیں مگر پاکستان کو انتہا پسندی، تنگ نظری اور منافرت کے ماحول میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے والی قوتیں کیسے بے نظیر کو زندہ رہنے دے سکتی تھیں۔ وہ دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔وہ پاکستان کو ایک ایسی سٹیٹ کی شکل دینے کی خواہاں تھیں جہاں پر حقیقی جمہوریت کا راج ہو، جہاں تنگ نظری اور نفرت کا نام ونشان نہ ہو۔جہاں پر طالبانائزیشن اور ملا گردی ، تکفیری فاشسٹوں کو کوئی عمل دخل نہ ہو۔ اسلام ، جمہوریت اور مغرب کے درمیان مفاہمت ان کا ایسا ویڑن تھا جس کے نتیجے میں دنیا کی نظروں میں پاکستان کا امیج ایک امن پسند اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر سامنے آئے۔ اس کیلئے ا±ن کی شہرہ آفاق تصنیف Reconciliation Islam, Democracy and West ایک بہترین کوشش تھی۔وہ عالمی امن کی خواہاں تھیں ،مگر ملک کو اندھیروں میں رکھنے والی قوتیں ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اور بالآخر وہ قوتیں اپنے گندے مقصد میں کامیاب رہیں۔ان کی شہادت کے ساتھ ہی دہشت گرد قوتیں کھل کر سامنے آ گئیں اور انہوں نے کھل کر ملک میں خون کی ہولی کھیلی اور پاکستان میں خاک اور خون کے اس کھیل کو عروج حاصل ہوگیا جس کا خونی آغاز 5جولائی 1977ئ کو ہوچکا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی سامراجی قوتوں کو کھل کھیلنے کا خوب موقع ملا اور مسلم ممالک میں باہمی خانہ جنگی، بوکوحرام، داعش جیسی خونخوار تحریکوں نے جنم لیا جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک کی حالت بد تر ہو تی چلی گئی اور آج تک زبوں حالی کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں بھٹو خاندان کا کردار ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھ کر اور انکی بیٹی شہید رانی نے ملک میں میزائل ٹیکنالوجی کو لاکر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عظیم سیاسی ورثہ کی حامل اسلامی دنیا کی پہلی مسلم خاتون حکمران تھیں۔ پاکستان کے عوام نے دو مرتبہ ان کو حقِ حکمرانی دیا مگر دونوں مرتبہ ہی انہیں اس حق سے محروم کر دیا گیاکیونکہ وہ مقتدر اشرافیہ کی بجائے غریبوں کے حقو ق کی بات کرتی تھیں اور ان کے میعارِ زندگی کو بلند کرنے کا سوچتی رہتی تھیں۔ ملک کو طالبانی دہشت گردی سے پاک کرنا اور حقیقی جمہوری اقدار کے قیام کی کوشش کرنا ان کا سب سے بڑا قصور تھا
ملکی معاملات میں اداروں کی دخل اندازی نے ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ اور تسلسل کو بار بار ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لوگوں کو جمہوری عمل سے بے زار کرنے اور دور رکھنے کے تمام تر ہتھکنڈوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ کرپٹ تو صرف سیاستدان ہی ہوتے ہیں باقی مقتدر اشرافیہ تو ہرعیب ہر کرپشن سے پاک صاف ہے۔ بے نظیر کی شہادت ان قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان میں بڑے لوگوں کی مرضی کے بغیر کوئی ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ہے۔
بالآخر 27دسمبر 2007ءکی وہ کالی شام آ گئی میں اپنے ایک عزیز کے ڈائلاسزکے سلسلے میں لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں موجود تھا جب ٹی وی کی سکرین پر راولپنڈی سانحہ کے ٹِکرچلنے لگا۔ دل غم سے پھٹ رہا تھا لیکن ایک ا±مید تھی کہ بی بی شہید کو کوئی آنچ نہیں آئی ہو گی۔ابھی پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ یا اللہ کوئی معجزہ برپا کر دے اور جیسے تونے کارساز میں بی بی کی حفاظت کی اب بھی محترمہ کو اپنی امان میں رکھ۔ مگر یہ ساری دعائیں اس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب بابر اعوان نے ٹی وی چینلز پر آ کر دھاڑیں مارتے ہوئے اس منحوس خبر کی تصدیق کر دی۔ اپنے والدین کی وفات کے بعد میں پہلی مرتبہ جی بھر کر رویا۔ باہر نکلا تو اس وقت لاہور اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ہر طرف توڑ پھوڑ کے مناظر تھے۔ لکشمی چوک کو اجڑا ہوا اس دن میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ان کی شہادت ملک پر قہر بن کر ٹوٹی ہر طرف آگ، آہیں اور ماتم تھا اور پھر اس سانحہ کے ردعمل میں جو حالات و واقعات ہوئے اس کے نتیجے میں وفاقِ پاکستان کی سلامتی داو پر لگ چکی ہے۔ ایسے میں جناب آصف علی زرداری کے تدبر نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان کی سالمیت کو بچا لیا۔مقتدر قوتوں نے اپنے آلہ کاروں کی مدد سے انتہائی منظم انداز میں قتل کا یہ گھناو¿نا کھیل رچایا۔سانحہ برپا ہونے کے فوراً بعد کرائم سین کو دھو ڈالا گیا۔ اس قتل میں نامزد ملزم پرویز مشرف تاحال مفرور ہے۔ واقعہ میں ملوث پولیس افسران باعزت ضمانت کے بعد دندناتے پھر رہے ہیں۔جبکہ پاکستان کے عوام پہلے سیاسی قتلوں کی طرح اس قتل کے حوالے سے بھی مایوسی کا شکار ہیں۔
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
ہے کس کی گردن پر خون ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
آج بے نظیر شہید کے بغیر ان کی پارٹی کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ بلاول بھٹوزرداری پارٹی کے عملاً چیئر مین ہیں۔ وہ ابھی تک پارٹی کے اندرونی میکنزم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نووارد پارٹی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں جبکہ پارٹی کے سینئر کارکنان پذیرائی نہ ملنے کے سبب دل برداشتہ ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں پارٹی کارکنوں کی اکثریت پارٹی قیادت کی مفاہمتی پالیسیوں سے نالاں نظر آ رہی ہے۔ آصف زرداری کوپرانے مقدمات میں گھسیٹ کو پارٹی کو مفلوج کرنے کی تیاریاں ایک مرتبہ پھر زوروں پر ہیں۔ انتقامی کارروائیوں کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اس ساری صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری کے سر پر بہت بھاری ذمہ واریاں ہیں۔ پارٹی امور میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں اپنا کردار نمایاں کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وفاق کی علامت یہ پارٹی کہیں علاقائی پارٹی نہ بن جائے۔پاکستان میں وفاقی پارٹیوں کو مستحکم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

%d bloggers like this: