مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اقبال بانو :علم وفن اور جرات و بیباکی کا معتبر نام ۔۔۔ رؤف لُنڈ

اقبال بانو نے فیض احمد فیض کے کلام کو اس وقت اپنی گائیکی کا معمول بنایا جب پاکستان میں ضیاءالحقی خباثت اور آمریت کا ننگا ناچ جاری تھا۔

اقبال بانو کی آج سالگرہ ہے۔ اقبال بانو گائیکی کے افق پہ ایک روشن ستارہ ۔۔۔ اقبال بانو نے گائیکی کو بچپن سے جزوِ زندگی بنایا۔ اور ساری زندگی اس فن کیساتھ یوں نبھایا کہ کلاسیکل فنِ گائیکی کو ہی زندگی بخش دی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ اقبال بانو نے فارسی شعراء کا کلام اس خوبصورت انداز میں گایا کہ ان کی افغانستان، ایران اور آذر بائیجان میں ایک معتبر شناخت تھی۔ افغانستان کی تاریخ کے سب سے معتبر عہد انقلابِ ثور( عوامی انقلاب 1979ء) کی سالگرہ میں اقبال بانو کو مکمل فخر اور اعزاز کیساتھ بلایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال بانو نے اردو کے سیف الدین سیف، ناصر کاظمی اور غالب سمیت اردو کے اکثر نامور شعراء کا کلام گایا۔ مگر پاکستان سمیت پورے برِصغیر میں اقبال بانو کو سب سے زیادہ جو شناخت اور احترام حاصل ہوا وہ فیض احمد فیض کے کلام گانے سے ملا۔۔۔۔۔۔

اقبال بانو نے فیض احمد فیض کے کلام کو اس وقت اپنی گائیکی کا معمول بنایا جب پاکستان میں ضیاءالحقی خباثت اور آمریت کا ننگا ناچ جاری تھا۔ پورا ملک ضیاءالحقی درندگی کا شکار تھا۔۔۔۔
شعور کے ہر لفظ کے اظہار پر بندش ہی نہیں تھی بلکہ ہر باشعور پابندِ سلاسل تھا۔ ضیاء کے جھوٹے وقار اور بیہودہ منافقت کا جس کو بھی انکار تھا وہ زیبِ دار تھا۔ جس جس نے بھی ضیاءالحقی یزیدیت کی بیعت نہ کرنیکی جرات دکھائی اس کی پشت پر تازیانے لگائے ( کوڑے برسائے ) گئے۔ مذہبی منافقت عروج پر تھی۔ لباس کی تراش خراش تھی یا پہلی جماعت کے الف ب کا قاعدہ، سب کو جبراً پابندِ شریعت بنایا جارہا تھا۔۔۔
عورتوں کیلئے ساڑھی پہننا ممنوع تھا اور کسی اخبار، کورس کی کسی کتاب اور کسی بھی محفل مجلس میں فیض احمد فیض کے کلام اور تذکرے پر پابندی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبر و بربریت کے اس ماحول میں لاھور کے ایک سٹیڈیم کے سٹیج پر اقبال بانو ایسی حالت میں نمودار ہوئی کہ اس کے بدن پر سیاہ رنگ کی ساڑھی تھی۔۔۔۔ (یاد رہے کہ ساڑھی پہننے پر پابندی تھی ایسے میں سیاہ رنگ کی ساڑھی انکار اور احتجاج کا امتزاج تھی )۔۔۔۔۔۔
سٹیڈیم میں موجود لوگ اقبال بانو کی اس جرات و بیباکی کو ادھر حیرانی سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اُدھر اقبال بانو نے ممنوع شاعر کی اس نظم کو گانا شروع کردیا کہ جس کا ایک ایک لفظ ہر دور کے جابر ، ظالم، لٹیرے اور استحصالی حکمران کی نیندیں اچاٹ کر دیتا ھے۔۔۔۔۔۔

وہ تھی فیض احمد فیض کی نظم۔۔۔۔۔
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائینگے۔۔۔۔ محکوموں کے پاؤں تلے جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی۔۔۔۔۔۔ اور اہلِ حَکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ۔۔۔۔۔۔۔جب تخت گرائے جائینگے اور تاج اچھالے جائینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راج کریگی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقبال بانو کی اس دن کی جرات نہ صرف ضیاءالحقی آمریت، خباثت اور یزیدیت میں پہلا شگاف ڈالنے کا سبب بنی بلکہ آج تک اور جب تک استحصال پر مبنی یہ طبقاتی نظام اور سماج قائم باقی ہے۔ اقبال بانو کی آواز ہر مظلوم اور محکوم کی لکار بن کر یزیدیت کی نیندیں حرام کرتی رہیگی۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال بانو ! آپ کو ہم محروموں اور مظلوموں کا غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج کے قیام کی جدوجہد کے عزم کیساتھ سرخ سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🌹🌹🌹

%d bloggers like this: