اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"گزرے ماہ وسال کی کچھ یادیں”۔۔۔ حیدر جاوید سید

خاص مذہبی فہم والے گھرانے میں جنم لینے والے بچے نے خاندانی عقائد سے ہٹ کر راستہ اپنایا فتوؤں کی چاند ماری ہوئی'

سفرحیات کا ایک اور سال مکمل ہوا’ چار مارشل لاء’ طبقاتی جمہوریتیں’ جرنیلی جمہوریت’ ذوالفقار علی بھٹو کا عوامی دورحکومت’ علم وانسان دوستی اور پھر انتہا پسندی سب دیکھ آئے۔
مزید کیا اور کتنا دیکھنا ہے’ اللہ سب سے بہتر جانتا ہے۔

25دسمبر 1958ء کی صبح سفرحیات شروع ہوا تھا۔ جو وقت’ ماہ وسال اب تک بیتے خوب بیتے۔
چکی کی تو نہیں قلم کی مشقت جاری ہے، حروف جوڑ کر روزی کماتے ساڑھے چار عشروں سے کچھ اوپر وقت گزر گیا۔ گزرے ماہ وسال اچھے تھے بہت اچھے اور ان سے زیادہ اچھے استادان گرامی قدر اور دوست۔
اس کیساتھ ساتھ کتابوں کے اوراق’
زندگی کے امتحانی پرچے میں تو سوالات ہی سوالات تھے اور ہیں۔
جدوجہد مستقل عمل ہے’ آدمی کو آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔

درمیان میں کبھی اُمیدیں ٹوٹیں’ خواب چوری ہوئے’ کبھی خواب آنکھوں میں ٹوٹے۔
ہر قدم پر سیدابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ الکریم کو یاد کیا’ آپ فرماتے ہیں
”میں نے اپنے رب کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹنے سے”۔

کبھی سیدی نفس زکیہ رضوان اللہ علیہ کے کلام نے دستک دی’ حسین بن منصور حلاج’ شاہ حسین’ سرمد اور مرشدی بلھے شاہ کے افکار وکلام سے راہنمائی لی۔ سیدی شاہ لطیف بھٹائی’ رحمن بابا’ خواجہ غلام فرید کے افکار نے ہمیشہ روح میں تازگی بھری۔
پچھلی6دہائیوں کے دوران کیسے کیسے روشن چہرہ لوگوں کی قدم بوسی کی سعادت پائی’ کیسے نابغہ روزگار لوگوں کی مجلسوں میں گھنٹوں ادب سے بیٹھے فیض پاتے رہے۔
ان سموں سب خواب لگ رہا ہے،
خاص مذہبی فہم والے گھرانے میں جنم لینے والے بچے نے خاندانی عقائد سے ہٹ کر راستہ اپنایا فتوؤں کی چاند ماری ہوئی’ زندیق اور کافر کہنے والے بھی کم نہیں تھے۔
درمیان میں ایک وقت وہ بھی دیکھا جب خصوصی فوجی عدالت میں صالحین کی جماعت کا مقامی امیر یہ گواہی دینے کیلئے پیش ہوا کہ
”ملزم (تحریر نویس) کھلا کافر اور زندیق ہے”۔
اسی سفرحیات میں عذاب بھی دیکھے اور سکھ بھی۔
جو ہوں جتنا ہے اس پر صبر وشکر ہے ضرورت سے زیادہ پالینے کی خواہش پالی ہی نہیں۔
اُستاد گرامی قدر سید عالی رضوی مرحوم فرمایا کرتے تھے "ضرورت اور خواہش ترک کرلو مگر اپنی بات سے پیچھے نہ ہٹو”۔
مجھے بھائیوں کی طرح عزیز دوست محمد عامر حسینی اکثر کہتا ہے
"شاہ جی’ سفرحیات کی رام کہانی لکھنا شروع کردو چھ عشروں کی تاریخ کا وہ پہلو جو زمین زادوں کی حقیقت ہے محفوظ ہو جائے گا۔ ہر بار مجھے مسکرا کر کہنا پڑتا ہے، سامان رخصت باندھنے سے قبل تمہاری خواہش ضرور پوری کروں گا بس ایک کام کر دینا مجھ زمین زادے کو نامعلوم قبرستان میں دفن کرنا تاکہ سو آرام سے سکوں”۔

سچ یہی ہے’ پورا سچ لکھنا مشکل ہے کیوں یہ اپنے اردگرد نگاہ دوڑا کر بنے ماحول کو دیکھ لیجئے ہر شخص کا اپنا سچ ہی پورا سچ ہے۔
یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ مجھے اپنا جنم شہر ملتان بہت پسند ہے۔
کوئی مجھ سے کبھی آخری خواہش پوچھے تو یہی عرض کرتا ہوں
”مرنے کے بعد ملتان کی مٹی میں دفن ہونا پسند کروں گا”
ملتانی مٹی کی خوشبو کائنات کے عوض بھی نہیں ملتی۔

رزق کی مجبوریوں سے بندھی ہجرتوں نے دربدر رکھا مگر اس دربدری میں بھی ملتان آنکھوں اور دل میں بسا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو گزرے ماہ وسال میں لڑتے بھڑتے اپنی بات کہتے دوسروں کی سنتے ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں
کیا شاندار ماہ وسال تھے اور کیسے لوگ جو بچھڑ گئے۔ مرحوم اساتذہ اور دوست جب یاد آتے ہیں تو ان کے احترام میں سر جھکاتے ہوئے دعا کرتا ہوں’
کیا مہربان لوگ تھے اپنے حصے کی نعمتوں’ مطالعے اور جدوجہد میں شریک کرنے والے’ ہر شخص دوسرے کی تعمیر میں خوشی سے حصہ لیتا تھا
اب ایسا وقت ہے کہ کیا کہیں عجیب نفسا نفسی ہے۔
مجھ سے ایک دن میری صاحبزادی نے پوچھا’
بابا! آپ کو سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟
جواب دیا دوست اور کتابیں۔
بیٹی بولی اور بابا میں؟
میں نے کہا جان پدر تم تو اپنے باپ کے چہرے کی زینت ہو۔ سچ یہی ہے کہ مجھے دوست اور کتابیں پسند ہیں۔ دوستوں نے بدترین حالات میں بھی حق دوستی ادا کیا اور کتابوں نے اپنے ہونے کا یقین عطاء کیا۔
ارشاد امین ایک دن کہنے لگے’ شاہ جی! دوستوں کے پاس پچھلی چار سوا چار دہائیوں کے دوران تمہارے لکھے ہوئے جو خطوط ہیں وہ جمع کرکے کتابی صورت میں شائع کردو نئی نسل بہت سارے زمانوں اور تاریخ کے نئے پہلو سے آشنا ہوجائے گی۔ عرض کیا اب اس کا فائدہ نہیں۔ بولے کیوں؟ جواب دیا ہر عہد اپنی اقدار اور روایات کیساتھ رخصت اور طلوع ہوتا ہے۔
مرشد جی ایم سید مرحوم کہا کرتے تھے
”سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ انسان ہر حال میں اپنی مٹی’ تہذیب اور تاریخ کیساتھ کھڑا رہے”
صد شکر کہ ہم اس سچائی سے منہ موڑنے کے مجرم نہیں بنے۔
دوسرے دیسوں کی تاریخ کو تاریخ کے طور پر ہی پڑھا اپنی تاریخ کے طور پر نہیں،
اپنے مقامی ہونے پر فخر کیا۔
مذہب اور عقیدے سے تراش کر قوم نہیں نکالی۔
سفرحیات کے61سال پورے ہونے پر سوچ رہا ہوں کہ کیا ہم اپنی زمین’ تہذیب’ تاریخ اور سماجی روایات کا حق ادا کر پائے۔
جواب بہت سادہ ہے کہ دوغلے پن سے محفوظ رہے یہی بڑی بات ہے۔
مکرر اپنے والدین’ آپا سیدہ فیروزہ خاتون’ اساتذہ کرام اور دوستوں کا شکر گزار ہوں۔
ان کی سب کی تربیت اور رہنمائی مجھ طالب علم کے بہت کام آئی۔
والدین’ آپا’ اساتذہ اور دوستوں نے مجھے اپنے حصے کا سچ وقت پر بولتے لکھتے رہنے کیلئے بہت حوصلہ دیا۔
اس سفرحیات میں بہت سارے رشتے اپنا سفرحیات طے کرکے رخصت ہوئے ان کیلئے احترام ہی احترام ہے میرے دل میں۔
سچ پوچھیں تو مسائل ومشکلات اور کبھی کبھی کسی خاص وجہ سے مسلط ہوئی بیروزگاری نے کبھی حوصلہ نہیں توڑا’ جب کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ حوصلہ ٹوٹنے کو ہے تو کتابوں کے اوراق میں پناہ لے لیتا ہوں۔
مرشد کریم سیدی بلھے شاہ کی خانقاہ بھی پناہ گاہ کا کام دیتی ہے۔
مجھے ان سموں فرات کنارے اُتر ے محبوبان خدا کے قافلہ سالار امام حسینؑ یاد آرہے ہیں، ارشاد فرماتے ہیں
”ظلم کیخلاف جتنی تاخیر سے اُٹھو گے قربانی اتنی ہی زیادہ دینی پڑے گی”۔
مجھ طالب علم کیلئے اطمینان یہ ہے کہ میرے والدین’ اساتذہ اور دوست میری وجہ سے سرکار دوعالمۖ کے حضور شرمندہ نہیں ہوں گے۔

%d bloggers like this: