مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اب او آئی سی ضرور بدلے گا۔۔۔ محمود جان بابر

انہی خدشات کے ازالے اورراستہ روکنے کے لئے بھارتی مسلمانوں کے مسائل پرپہلی بار او آئی سی کا بیان بھی ایک بہت بڑی پیش رفت سمجھا جارہا ہے ۔

بچے بچے کو معلوم ہے کہ سیاسی حکومت اورادارے اتنے ایک پیج پر اوراتنے ہم آہنگ ہیں کہ جس کی کبھی مثال ہی نہیں ملی اوراس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے پیٹتے شاید حکومت نے خود کوہی نظرلگا دی ہے اور نظربھی ایسی کہ مشکلات بچوں کو جنم دینے کا سلسلہ بند ہی نہیں کررہیں ۔

آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع اورسابق صدرپرویز مشرف کو سزا کے معاملے پرحکومت کافی مشکل میں دکھائی دے رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ نئے چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم کی موجودگی میں چیف جسٹس اورآرمی چیف کے مابین ملاقات کی خبروں سے ایک بار پھر کچھ برف پگھلنے کی امید پیدا ہوچلی ہے اورجنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی واپسی کی کچھ امید پیدا ہوچلی ہے لیکن یہ توجب ہوگاتب ہوگا اب جو فوری طورپرایک اورمسئلہ جنم لے بیٹھا ہے اس نے اقوام متحدہ میں مثالی تقریر اورملائشیا اورترکی کے ساتھ قیادت کی پینگیں بڑھانے والے عمران خان کے سحر کو کم کرکے انہیں ایک مجبورانسان کے طورپرچوراہے میں لاکھڑا کیا ہے ۔

ملائیشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے ان کا حسن کچھ گہنا گیا ہے وہ عمران خان جو خود اوران کے چاہنے والے ان کی اقوام متحدہ میں تقریر سے پہلے سے ہی اس تقریر کے سحر میں مبتلاتھے ۔ وہی عمران خان سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے سامنے ملائشیا اورترکی کے پاس جانے سے ایسے ہی کنی کترائے جیسے کوئی محبوب کے ساتھ گھر سے بھاگنے کا منصوب بناکرابا کے خوف سے وقت مقرر ہ پر جائے مقرر ہ پرپہنچنے سے مکرجائے حالانکہ کوالالمپورکی اس کانفرنس کی تجویز بھی شاید عمران خان صاحب نے ہی دی تھی ۔

ایک ہنگامہ سابرپا ہے کہ وہ ترکی اورملائشیا جواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرمسئلہ کشمیر کو حمایت کا آکسیجن دینے والے ممالک تھے پاکستان نے انہیں چھوڑ کران ممالک کا ساتھ دیا جوبھارت کے ساتھ تھے ۔ حیرت ہے پاکستان نے عالمی سطح پراس کی حمایت کرنے والوں کو اکیلا چھوڑدیا ہے ۔

پاکستان کوالالمپور نہ جانے پرایک مبہم بیان جاری کرچکا ہے کہ جیسے اس کا اس کانفرنس میں جانا امہ کی تقسیم کا باعث ہوتاتاہم اس کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں جو ترک صدر نے پاکستان کی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے بعد کی ہیں کہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ پاکستان کا اپنا نہیں تھا بلکہ سعودی عرب نے اس کو تین ایسی سنگین دھمکیاں دی تھیں کہ جس کے بعد پاکستان کے کانفرنس کی جانب اٹھتے ہوئے قدم اپنی جگہ جم کر رہ گئے ان تین وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ اسے تیار رہنا ہوگا کہ اس کے سعودی عرب میں مقیم چالیس لاکھ کے لگ بھگ ملازمت پیشہ لوگوں کو وہاں سے نکال دیا جائے، وہ سعودی عرب کی جانب سے اس کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے سنٹرل بنک میں رکھے گئے ایک ارب ڈالر نکالے جانے کے لئے بھی تیار رہے اورپاکستان کو تین سال تک مفت پٹرول دینے سے محرومی کے لئے بھی تیار رہے ۔

18سے 20دسمبرتک کوالالمپور میں ہونے والی اس منی سربراہی کانفرنس سے سعودی عرب اوراس سے آگے اس کے دوست خصوصا امریکہ اس لئے بھی پریشان تھے کہ انہیں خدشہ تھا کہ اس سربراہی کانفرنس کایہ پلیٹ فار م مستقبل قریب میں اسلامی ملکوں کی تنظیم اوآئی سی کے متبادل کے طورپرکھڑا ہوسکتا ہے اوریوں مسلمانوں کے ہاتھ سعودی عرب کے ذریعے امریکہ کے زیراثر او آئی سی کے مقابلے میں ایک زیادہ مضبوط تنظیم آجاتی اس لئے کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو اس میں جانے سے روکا گیا اوراسے روکنے کے لئے ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ۔

اس کانفرنس کے معاملے پرپوری دنیا میں اٹھتی آوازوں کو دبانے کے لئے سعودی عرب نے ایک وضاحتی بیان میں نہ صرف پاکستان پرشرکت نہ کرنے کے لئے دباونہ ڈالنے کی وضاحت کی بلکہ پہلی باربھارت میں ہونے والے بھارتی مظالم پرآواز بھی اٹھائی اوریوں پہلی بار عرب ممالک کے سب سے مضبوط پلیٹ فار م سے پاکستان کو حمایت نصیب ہوئی ۔

معلوم نہیں کہ طیب اردگان کو کس نے ان مبینہ دھمکیوں کی خبر دی جو سعودی عرب نے پاکستان کو دی تھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سارے عمل نے پاکستان کو کچھ رعایتیں اورسہولتیں دلادی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی عسکری تربیت کا پروگرام بھی بحال کردیا ہے لیکن اس کے لئے اس سے بھی زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے باوجود بھی ملائشیا اورترکی نے اسے اس میڈیا ہاوس میں شراکت سے نہیں نکالا جس کا منصوبہ تینوں بڑے اسلامی ممالک ترکی، ملائشیا اورپاکستان نے مل کر بنایا تھا ۔

آخر میں دوچیزوں کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا یہ سب ایک دن میں ہی ہوا ہے تو اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں بلکہ حالات کو یہاں تک لانے میں فلسطین،کشمیراورروہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زارسمیت ہرمعاملے پراوآئی سی کی خاموشی نے جلتی پرتیل ڈالا ہے جس سے تمام مسلمان دنیا ایک نئے متبادل کی جانب نظریں لگائے بیٹھی تھی اورساتھ ہی اس میں سال 2023کے دوران ترکی پرلگی ہوئی پابندیوں کے خاتمے کے بعد متوقع بدلتے حالات کا بھی بڑا عمل دخل ہے جس نے سعودی عرب کو بہت سارے خدشات سے دوچارکیاہے کہ وہ ایک بارپھر مسلمانوں کی قیادت کا تاج ترکی کے پاس جانے دینے کو بالکل بھی تیار نہیں لگ رہا ۔

انہی خدشات کے ازالے اورراستہ روکنے کے لئے بھارتی مسلمانوں کے مسائل پرپہلی بار او آئی سی کا بیان بھی ایک بہت بڑی پیش رفت سمجھا جارہا ہے ۔

%d bloggers like this: