مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گورچانی قوم کے نام ۔۔۔ـ سردار اختر حسن خان گورچانی

یہ کہاں کی غیرت ہے، یہ کونسی بلوچکی ہے ۔ خدارا عورتوں کو فروخت کرنے کے اس قبیح رواج کو ختم کرنے کیلئے آگے بڑھیں

خدارا دور جہالت کے رواج چھوڑ دیں۔۔۔۔۔

ہمارے بلوچ قبائل میں دور جہالت کے عربوں میں پائی جانے والی خرابیاں آج بھی موجود ہیں ۔ اور یہ قبیح رواج نہ صرف ہمارے گورشانی قبیلے میں بلکہ مزاری، بگٹی، لغاری، کھوسہ، لونڈ، بوزدار سمیت تقریبن تمام بلوچ قبائل میں بھی موجود ہیں ۔
سیاہ کاری کے رواج کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی خواتین میں سے کسی کو کسی مرد کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے تو وہ انہیں "کالا کالی” تصور کر کے قتل کر دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہے لیکن اگر عورت کسی طرح جان بچانے میں کامیاب ہو جائے تو اسے کسی سردار یا سید کے ہاں پناہ لینی پڑتی ہے کیونکہ ورثاء اسے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہوتے اور بالآخر اسے کچھ عرصے بعد فروخت کر دیا جاتا ہے ۔ اور وہی ورثاء جو بڑے غیرت مند بن کر اسے قتل کرنے کے درپے ہوتے ہیں، بڑی ڈھٹائی سے اس عورت کی فروخت سے حاصل کئے گئے آٹھ دس لاکھ روپے مونچھ کو تاو دےکر جیب میں ڈال لیتے ہیں ۔
یہ کہاں کی غیرت ہے، یہ کونسی بلوچکی ہے ۔ خدارا عورتوں کو فروخت کرنے کے اس قبیح رواج کو ختم کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور اس طرح سے حاصل کی جانے والی رقم کو بے غیرتی قرار دے کر لینے والے کا سوشل بائیکاٹ کریں ۔
اگر عورت کسی طرح جان بچا کر کسی سید، سردار کے ہاں پناہ لے چکی ہے تو اسے بخش دیں اور زندہ رہنے کا حق دیتے ہوئے فروخت کرنے کی بجائے اسے کسی مناسب جگہ دعا نکاح کر کے رخصت کر دیں ۔
سیاہ کاری کو تو چھوڑیں، عمومی طور پر لڑکے کی شادی کرانے کیلئے والد کو "بازو” (لڑکی) کو خریدنا پڑتا ہے اور رقم طے ہو جانے کے بعد اس لڑکی کو بھیڑ بکری کی طرح نکاح کے نام پر بیچ دیا جاتا ہے جو کہ نہایت نا مناسب ہے ۔ جبکہ مذہبی طور پر بھی شادی کرتے وقت لڑکی کی رضامندی معلوم کرنا ضروری ہے ۔
اور بعض اوقات اگر "بازو” یا رشتہ لینے والے کے پاس پیسے نہیں تو اس سے تحریر لکھوا لی جاتی ہے کہ وہ اس عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والی (مادر لافی) بچی کو عوض کے طور پر رشتہ یا "بازو” دینے والے فریق کے کسی لڑکے کے نکاح میں دے گا ۔ اور یوں اس قسمت کی ماری کا سودا بھیڑ بکری کی طرح اسکے پیدا ہونے سے پہلے ہی طے کر دیا جاتا ہے ۔ مہربانی کر کے اپنے کم علم اور جاہل لوگوں کو اپنی بہنوں بیٹیوں کو عزت دینا سکھائیں ۔
اب تو اللہ کا شکر ہے ہمارے قبائل میں کافی لوگ تعلیم یافتہ ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ پڑھے لکھے اور با شعور لوگ آگے آئیں اور کوئی تنظیم بنا کر ان قبیح رواجوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ اور جو لوگ "کالا کالی” کے بعد عورتوں کو فروخت کریں یا "مادر لافی” کے طور پر اپنی مستقبل میں پیدا ہونے والی بیٹیاں کسی کو لکھ دیں تو نہ صرف انکا سوشل بائیکاٹ کریں بلکہ قانونی کاروائی کر کے انہیں گرفتار کروائیں ۔


سردار اختر حسن خان گورچانی سابق آئی جی آئی بی پاکستان ہیں

%d bloggers like this: