اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاک، ڈاکیا اور خط ۔۔۔وجاہت علی عمرانی

یہ ڈاکیا اور خط جگنو کی مانند ہوتے ہیں، کیونکہ جگنو اندھیرے میں دور “سے“ نظر آتے ہیں اور دور “تک“ نظر آتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ تغیر و تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق ہر تیس سال کے بعد معاشرتی اقتدار رسم رواج تک تبدیل ہوجاتے ہیں اگرآج سے تیس سال پہلے کا کوئی شخص زندہ ہوکر واپس آجائے تو اس کے ردعمل سے ہمیں یہ پتا چلے گا کہ سماج میں کیا تبدیلی آئی ہے کیونکہ ہم زندہ انسان ان تبدیلوں کو اس لئے محسوس نہیں کرتے کہ یہ بہت آہستہ سے آتی ہیں اور ہم وقت کے ساتھ ان تبدیلیوں سے سمجھوتہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جہاں اور بہت ساری روایا ت اورچیزوں میں تبدیلی آئی ہے وہیں ڈاکیہ، ڈاک بابو ، ڈاک خانہ اور ڈاک بنگلہ جیسی اصطلاحات بھی اب کم کم ہی سنائی دیتی ہیں۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ زمانہ بدل گیاہے۔ واقعی سوچیں تو لگتا ہے جیسے سب کچھ ہی بدل گیا ہو۔ حالیہ برسوں میں ہی وقت نے اس تیزی سے کروٹ لی ہے کہ آج خاکی رنگ کی وردی والے ڈاکیے کے بارے میں بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے۔ نئی عمر کے بچے کورئیر تو جانتے ہیں ڈاکیے سے واقف نہیں۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ بے چہرہ و بے ہنگم ترقی کی تیز رفتاری کے باعث اب خط کی تہذیبی و ثقافتی روایت تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ لیٹر بکس عہد رفتہ کی بھول بھلیوں میں گم، ڈاکخانے ویران، جدیدیت کی ماری اور سوشل میڈیا کو پیاری نئی نسل خطوط نویسی سے وابستہ سرشاریوں، بے قراریوں اور وارفتگیوں سے ناآشنا اور 150 سالہ بوڑھے محکمہ ڈاک نے نومولود انٹرنیٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

”ڈاک“، ”ڈاکیا“، ”ڈاک خانہ“ اور ”خط“ کے ساتھ سرود رفتہ کی کتنی ہی خوش رنگ یادیں وابستہ ہیں۔ جن کے بارے میں سوچتے ہوئے نوسٹیلجیا دل و دماغ میں ہمکنے لگتا ہے۔

خط کی لذت وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے خطوط لکھے اور وصول کیے ہوں۔ اب خط کی جگہ میسج نے لے لی ہے اور لوگ موبائیل ہاتھ میں لے کر میسج کر کے خود ہی ڈاکیا بن گے ہیں، اور انٹرنیٹ کے ذریعے ای میل کر کے ڈاکیے کی راہ دیکھنا بند کر گئے ہیں۔ اور ہنگ لگا نہ پھٹکڑی اب قلم دوات، رائیٹنگ پیڈ، ڈاک ٹکٹ وقت سب کی بچت ہو گئی ہے۔

ان آسانیوں نے انسان کو کاغذ قلم سے دور کر دیا ہے اب خط لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں ہوتی کہ لوگ آسانی کے ساتھ انتظار کیے بخیر فوراً وڈیو کالز کر لیتے ہیں ۔ اپنوں سے دل کی بات کر لیتے ہیں ۔ اب ایک سوال لے کر مہینوں پریشاں رہنے سے بچ گئے ہیں ۔مگر آج کے بچے خط و کتابت سے محروم ہو گئے ۔ جو بچوں کو گفتگو کا فن سیکھنے میں مدد دیتے تھے۔

ڈاکیاعہد گم گشتہ کا یہ اساطیری کردار خطوط، منی آرڈرز، امتحانی نتائج، عید کارڈز، شادی کارڈز، محبت نامے اور قیامت نامے تقسیم کرتا اور سات سمندر پار احباب کے حالات سے آگاہی کا سبب بنتا۔ اس کی طلسمی زنبیل میں چٹھیوں کی شکل میں گلی محلے والوں کے لئے مسکراہٹیں اور آہ و زاریاں ہوا کرتی تھیں۔ 80 اور 90 کے عشرے میں جب لوگوں نے عرب ممالک میں روزگار کے لیے وہاں بسیرا کیا تو یہاں کے لوگوں میں آپسی میل ملاپ کا واحد ذریعہ اُن دنوں خطوط تھے۔

خطوط اور منی آرڈر کی ترسیل کی تمام تر ذمہ داری ڈاکیا کے سر پر تھی۔ بیرون ممالک سے ارسال کردہ رقم ڈاکیا کی معرفت لوگوں کے گھروں تک پہنچتی تھی۔ اِسی لیے شاید لوگ ڈاکیا کے آنے کی دعائیں بھی شدت سے مانگا کرتے تھے۔ ڈاکیا کی حیثیت گھر کے بھیدی کی مانند ہوتی تھی۔

شریف النفس قسم کے ڈاکیا اُس دور میں بہت سے لوگوں کے خاندانی جھگڑوں میں ثالث کا کردار ادا کرتے تھے۔ شادیاں کروانے، کرائے کے مکان کی تلاش معاونت اور جائیداد کی خریدو فروخت میں بھی مدد کرتے تھے۔

ماضی میں ہمارے یہاں ڈاکیا جیسے معاشرتی کرداروں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی، لوگ ان کے بارے میں نہ صرف عزت و احترام کا جذبہ رکھتے تھے بلکہ انھیں پسند بھی کرتے تھے، جب بھی ان میں سے کسی کے بارے میں بات چھڑتی تو بات کرنے والوں کا لب و لہجہ ہی بدل جاتا، یوں جیسے وہ ان کی جگہ خود کو دیکھ رہے ہوں۔ بلکہ ڈاکیا پر کئی فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ڈاکیا معاشرے کا ایک اہم فرد بن جاتا ہے۔

گویا اس معاشرتی کردار کو افسانوی اہمیت حاصل تھی، لوگ اس کو دیکھنا اور ملنا چاہتے تھے۔ جیسے ہی کوئی خط آتا گھر میں زندگی کی لہر دوڑجاتی، گھر کا پڑھا لکھا فرد با اواز بلند پورا خط پڑھ کرسناتا باقی سب خاموش ہوکر پورا خط سنتے اس دوران کوئی بھی فالتو بات نہیں کرتا ۔

خط کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جاتا ۔ محبت کرنے والے وہ ایک خط کئی کئی بار پڑھتے یا سننے کی فرمائیش کرتے ان لفظوں کو سینے میں اتار لیتے اور ان خطوں کو سنبھال کر رکھا جاتا ۔ پھر خط کا جوا ب لکھ کر جلد سے جلد بھیجا جاتا۔ ان گلابی خطوط میں محبت سے بھر پور تحریر لکھی جاتی جس کی خوشبو سونگھنے والا اور پڑھنے والا دور سے ہی محسوس کر سکتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب خط وکتابت عام اور ڈاکیے بہت خاص ہوا کرتے تھے۔

جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو اڑوس پڑوس کے گھرانے اور بزرگ اپنے پردیسی پیاروں کو خطوط لکھتے، تو یہ خدمت عموماً ہم ہی سرانجام دیتے۔ ایک دور میں خط لکھنا خواندگی کا معیار تصور ہوتا تھا۔ اکثر بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو کم ازکم اتنا تو ضرور پڑھاؤ کہ اسے خط لکھنا آجائے۔ شادی کے وقت لڑکی کا رشتہ لانے والے پوچھا کرتے تھے لڑکی خط پڑھنا جانتی ہے یا نہیں۔ سوال کا جواب اثبات میں ہوتا تو سسرال والے پھولے نا سماتے تھے کہ چلو’ پڑھی لکھی’ لڑکی مل رہی ہے۔

زمانہ بدل گیا، انٹرنیٹ موبائل فون سمیت جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد الیکٹرانک ڈاک تو آ ہی جاتی ہے پر اسے لانے والا ،خاکی وردی پہنے ڈاکیا نہیں آتا۔ گھروں میں ماؤں کی یہ آواز اب سنائی نہیں دیتی کہ خیر ہو! ابھی تک بیٹے کا خط نہیں آیا۔ حویلی میں لگے بیری کے درخت تلے چارپائی ڈالے ماں یا والد بیٹے کے خط کا انتظار نہیں کرتے۔ اب کسی بہن کو “بھرا“ کا خط نہیں آتا۔ نہ اب یہ آواز آتی ہے، ٹھک ٹھک ٹھک ۔ کون ہے ؟ اماں جی ! میں ہوں قمر ڈاکیا ۔ خط آیا ہے ۔ نہ اب بے رنگ خطوظ آتے ہیں۔ اب نئی نویلی “کُڑی“ اپنے پردیسی ڈھولے کو خط لکھنے کی بجائے اسے مسڈ کال دیتی ہے۔

اب تو کسی فلم میں ہیروئین بھی ڈھولے کا خط بار بار چومتی، سینے سے لگاتی، شرماتی اور “میرے محبوب کا آیا ہے محبت نامہ “ گاتے ہوئے نظر نہیں آتی۔ اور نہ اب خطوط کی حفاظت کے لیئے لوگ اپنے گھروں کے باہر لیٹر بکس لگواتے ہیں۔ نہ اب گلی ، محلوں کے نکڑ پر سرخ رنگ کے لیٹر بکس نظر آتے ہیں۔ ویسے تو ڈاکیا کا کردار اب بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے لیکن نامساعد حالات اور بے شناس زمانے کی بے قدری کے بھنور میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

یہ ڈاکیا اور خط جگنو کی مانند ہوتے ہیں، کیونکہ جگنو اندھیرے میں دور “سے“ نظر آتے ہیں اور دور “تک“ نظر آتے ہیں۔ بہرحال خط کی دم توڑتی روایت کو بچوں کے درمیان مقابلہ خطوط نویسی کے زریعے توانا کیا جا سکتا ہے

%d bloggers like this: