مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کالے کووں کاراج ۔۔۔شہزاد عرفان

مزید فرماتے ہیں ہیں کہ “پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں آج کوئی بھی مریض وکلاء کی وجہ سے جان کی بازی نہیں ہارا

یہ وکلا کسی جمہوریت کی بحالی یاکسی انسانی حقوق کی بحالی میں سڑکوں پر نہیں ہیں بلکہ جنہوں نے قانون شکنی کی اور وکلا پر تشدد کیا تھا یہ ان سے بھی بڑھ کر اپنا بدلہ لینے کی خاطر ہر اخلاقی قانونی ضابطے توڑ کر عوام اور حکومت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر تم بہ معاش ہو تو ہم تم سے کہیں زیاد بڑے بہ معاش ہیں کیوں کہ انصاف اور قانون کا ڈنڈا ہمارے ہاتھ میں ہے …..
“صدر لاہور ہائیکورٹ بار حفیظ الرحمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں روزانہ لوگ مرتے ہیں، آج بھی مر گئے -“. مطلب یہ کہ اگر آج بھی مرگئے تو کیا ہوا البتہ انتقام پورا ہونا چاہئیے –

مزید فرماتے ہیں ہیں کہ “پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں آج کوئی بھی مریض وکلاء کی وجہ سے جان کی بازی نہیں ہارا۔” جبکہ وکلا گردی کی اس انسانیت سوزواردات میں ابتک تین مریض اپنی جان گنوا چکے ہیں –

اگر آپ واردات سے پہلے کے وہ وڈیو کلپ دیکھیں جو اسوقت سوشل میڈیا پر پروائرل ہیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ پنجابی زبان میں کس ارادے کا اظہار کر رہے ہیں ان کی باڈی لینگوئج اس بات کا واضح اظہار تھا کہ وہ اپنے بدلے اور انتقام کی خاطر کچھ بھی کر گزریں گے یہ جانتے ہوئے بھی کہ دل کے امراض میں مبتلا بالخصوص ایمرجنسی وارڈ میں آن ڈیوٹی ڈاکٹرز مریضوں کے لیے زندگی موت سے لڑ رہا ہوگا –

کہتے ہیں کہ کسی بھی سماج میں تبدیلی کے امکانات اسوقت بڑھ جاتے ہیں جب اس معاشرے کا قانون جاننے والا سمجھنے والا اور قانون پر عمل کرنے والا طبقہ لا قانونیت جبر و اسبتداد کے خلاف باہر آجائے اور مظلوم کی آواز بن جائے – مگر ریاست حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کام کرنے والا جب خود ہی آمروں کے معاون سہولت کار آلہ کار بن کر پاکستان کی تاریخ کا بدنما داغ بن جائے تو آمریت کی عمر طویل ترین ہوتی جاتی ہے اور جمہوریت اپنے آخری سانسوں پر ہچکیاں لے رہی ہوتی ہے –

پاکستان میں اعلی عدالتوں سے لے کر ڈسٹرکٹ کورٹس تک حج اور وکیل کے مابین قانون کے رشتہ کے علاوہ مشترکہ مفادات کا اندیکھا رشتہ بھی ہے جو ہمیشہ عوام کے خلاف ایک دوسرے کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں – عوام اور ملک کی لوٹی ہوئی دو لت کی بندربانٹ میں سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور فوجی آمر پرویز مشرف کے ذاتی مالی معاشی کاروبا ری مفاد کی آپسی جنگ میں جس طرح کالے کوٹ نے عوام اور جمہوریت کی آنکھوں میں دھول جھونکی وہ تاریخ کا حصہ ہے ایسا تو کچرے کے ڈھیر پر کالے کوے بھی نہیں کرتے جو افتخار چودھری کی سربراہی میں کالے کوٹ پہنے وکلا نے کیا-

ڈسٹرکٹ کورٹس میں تین نسلوں سے ججوں اور وکلاکے غلام سائلین حصول انصاف کی خاطر جواب تک نفسیاتی مریض بن چکے ہیں بھلا کیسےسیاسی جمہوری جدوجہد میں آمروں کے خلاف لڑ سکتے ہیں- فوجی آمر اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کا مضبوط رشتہ آمریت کی موٹی زنجیر سے بندھا ہے جس کے ہر ایک ٹکڑے پر لکھا ہے “ کچھ دو کچھ لو “ –

ہسپتال میں و کلا گردی کا یہ منظر دراصل اسی چیف گرد ی کا مائنڈ سیٹ ہے جس نے انکی اخلاقی تربیت کی ہے – جب ملک کا قانون دان جمہوریت کا قاتل ہو تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسا معاشره اخلاقی سماجی قدروں کا داعی بن سکے -قانون کی بندوق لئے معاشرے میں ایک اور وحشی مانسٹر درندہ پیدا ہوچکا ہے جسکی غذا ہی حق اور انصاف تلفی میں معاونت سے شروع ہوتی ہے –

%d bloggers like this: