مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچوں کے ادب سے بے اعتنائی ۔۔۔وجاہت علی عمرانی

بچے کا رحجان اگر شروع سے کتب کے مطالعے کی جانب ہو گا تو وہ بڑا ہو کر بھی اچھی اور بامقصد کتب کی تلاش جاری رکھے گا

بچپن کی یادیں ہمارا اثاثہ ہوتی ہیں اور یہی یادیں اور ماضی ہمارے ساتھ تا زندگی سفر کر تے ہیں اور پھر ہم اپنے ماضی سے زیادہ اہم اپنا مستقبل سمجھتے ہیں اور ہمارا مستقبل ہمارے بچے ہو تے ہیں۔ اپنے مستقبل کو ہم بھی اتنا ہی زرخیز اور لہلاتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جتنا کوئی بھی ذی ہوش، ذی وقار قوم یا فرد دیکھنا چاہتا ہے۔کیونکہ بچے کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم و تربیت ہی قوم کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔

ماضی میں اس مستقبل کی تربیت اور ذہن سازی دادی، ماں، بھوپھی کی گود ہی سے شروع ہوتی تھی جب بچن میں وہ کوئی کہانی کوئی نظم گُنا گُنا کر سناتیں اور پھر اس سے حاصل ہونے والا نتیجہ یا سبق بتاتیں، جو ہماری بزرگ خواتین مختلف کتابوں ، رسالوں اور اخباری صفحات سے پڑھ کر ہمیں سناتی تھیں۔ ایسی ہی کہانیوں سے بچہ شعور کی سیڑھی پہ قدم رکھتا اور اسکی ذہن سازی شروع ہو جاتی تھی ۔نانی اوردادی کے بسترمیں یہی کہانیاں سن سن کر ہی توآنکھوں میں سپنے اترا کرتے تھے، نیکی اور بدی، حق اور باطل کے درمیان حد فاصل کاپتہ چلتاتھا، دل میں صلہ رحمی، بھلائی اورخیرکے جذبات جنم لیتے تھے، تحقیق اورجستجو کاجذبہ پیداہوتا تھا اوریہی کہانیاں، داستانیں اور نظمیں بچوں کی عقل و شعوراور تخئیل کی اونچی پرواز کا باعث بھی بنتی تھیں۔

والدین کی مشفقانہ تربیت، اساتذہ کی مربیانہ نصیحت اور قصے، کہانیوں کی شکل میں اخلاقی تعلیمات پر مشتمل لٹریچر، بعض ایسے ابتدائی وسائل مانے جاتے ہیں جو انسان کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی میں معاون ہوتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی پودے کی ابتدائی نشو و نما کے دوران اس کا مکمل دھیان رکھا جاتا ہے تبھی وہ پھل دار اور تناور درخت کی صورت اختیار کر پاتا ہے۔ اس لئے اخلاقیات کی نشو و نما کے لئے بھی کم عمری میں ہی توجہ دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عہد میں ہمارے اسلاف، بچوں کے لئے ایسے لٹریچر کی فراہمی پر بہت زیادہ توجہ دیا کرتے تھے جو ان کی اخلاقی ترقی کا ضامن بن سکے۔

ماضی میں گھر کے بزرگوں سے کہانیاں ، نظمیں سننا ، یاد کرنا پھر دوستوں کو سنانا یہ اس دور کے تمام بچوں کا ہی کمال تھا جو وہ خود اس دور میں حاصل شدہ مختلف رسائل اور بچوں وبڑوں کے ادیبوں کی تحریروں سے اخلاقی اقدار اور سماجی امور کو سمجھتا اور سیکھتا کیوں کہ ایسی باتیں جو بچے کو درسی کتب سے حاصل نہیں ہوتی تھیں وہ ان رسائل اور ادبی کتب سے حاصل ہوجاتی تھیں۔

تب والدین خود بھی کتب بینی کا شوق رکھتے تھے اور بچے اپنے من پسند رسالوں اور کتابوں کی فرمائش کرتے تھے اور اس وقت کے بچوں کا شعوری سفر پختگی کی حد تک پہنچنے میں اسے ایک ادیب، ادب پرست، قاری اور کتب بین بنانے میں کامیاب ہو جاتے۔اب المیہ یہ ہے کہ دور حاضر میں وہ گھریلو ماحول نہیں رہا ، نہ کوئی کہانی سناتا ہے نہ اس سے حاصل ہونے والا سبق بچے کی ذہن سازی کرتا ہے اسی وجہ سے نہ وہ ادیب بنتا ہے نہ وہ قاری نہ وہ کتب بین۔

بچے کا رحجان اگر شروع سے کتب کے مطالعے کی جانب ہو گا تو وہ بڑا ہو کر بھی اچھی اور بامقصد کتب کی تلاش جاری رکھے گا اور اسے جذباتی اور احساساتی سکون بھی مطالعہ کتب کے بعد ہی حاصل ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مطالعہ کتب کی جانب راغب کیا جائے اور انہیں علمی ادبی اور تاریخی کتابیں لے کر دی جائیں ۔

سرزمینِ ڈیرہ ادبی لحاظ سے ایک سر سبز زمین ہے سینکڑوں ادباء، قلمکار اور لکھاری ماضی کی طرح عصر حاضر میں بھی موجود ہیں اور ہر سال درجنوں ادبی کتب ، چاہے وہ شاعری ہو، نثر ہو، افسانہ ہو چھپ رہی ہیں۔ لیکن بچوں کے ادب کے بارے کسی قسم کی نہ کوئی کہانی ، نہ کوئی نظم نہ کوئی نثر شامل ہوتی ہے ۔ کہانیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے شاعری کا شعبہ بھی قدرے جمود کا شکار ہے اس پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، اچھی نظمیں بھی بچوں کے ادب کا گراں قدر سرمایہ ثابت ہوتی ہیں ۔ ہمارے قلمکاروں اور لکھاریوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ادب ایک طاقتور اوزار ہےاس لیئے کوشش کریں کہ انکا ادب تخلیق کر کے اپنی تحریر اور اپنئ کتب کے زریعے بچوں کو اپنے مستقل قاری اور چاہنے والے میں تبدیل کردیں ۔

ہمارے ادیبوں اور قلمکاروں نے بچپن میں خود بھی بچوں کا کوئی رسالہ، بچوں کا اخباری صفحہ یا کوئی کتاب ضرور پڑھی ہوگی جس نے آپ کی شخصیت، کردار اور زہن پہ مثبت سوچ کے اثرات مرتب کیئے تو آپ نے ہاتھ میں قلم اٹھانے اور تخلیقی سفر کے آغاز کرنے کا سوچا ہو گا۔ آپ میں سے تقریباً تمام شاعروں اور ادیبوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بھی بچوں کے اخباری صفحے یا کسی رسالے سے کیا ہوگا لیکن اب بچوں کے لیے لکھنے سے اجتناب و احتراز سمجھ سے بالاتر ہے۔

میری تمام شعرا، ادباء ، قلکاروں ، کالم نگاروں، نثر نگاروں ، افسانہ نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ بچوں کے لیے ضرور لکھیں۔ تاکہ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہو کہ آپ نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور پاکستان کا مستقبل تابناک بنا رہے ہیں۔ اگر آپ دس غزلیں لکھیں تو بچوں کے لیے ایک نظم بھی لکھ دیں اور اگر دس افسانے لکھیں تو بچوں کے لیے ایک کہانی بھی لکھ دیں۔ ، اگر آپ دس کالم علاقائی مسائل پہ لکھیں تو ایک کالم بچوں پر بھی لکھ دیں ۔ یہ ننھے پھول آپ کی توجہ اور شفقت کے حقدار ہیں۔ اگر آپ نے ان کا حق ادا نہ کیا تو یہ شکایت کریں گے کہ ہمارے لکھاریوں کی قلم ہمیشہ حسن و عشق کے قصوں، محبوب کی زلفوں، جلوؤں، مسائل اور قصیدہ گوئی پر ہی استعمال ہوتی رہی ۔ انہیں ہمارا خیال بالکل نہیں آیا۔یا تو اس بات کا جواب سوچ لیجیے یا بچوں کے لیے لکھنا شروع کر دیجیے۔ بچوں کے لئے لکھنے سے آپکی ادبی حیثیت اور مقام پر کوئی حرف نہیں آئے گا بلکہ مقبولیت اورقدر ومنزلت میں اضافہ ہی ہوگا،آپ کو شاید یاد ہو کہ ہمارے پرانے ادیب اور شاعر بھی بچوں کیلئے بطور خاص لکھا کرتے تھے، اب علامہ اقبال سے بڑی کیا مثال دوں۔

%d bloggers like this: