اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ روحزن کے بارے میں ۔۔۔عامر حسینی

اس ناول میں سموئی جاسکتی تھیں وہ سموئی گئی ہیں

روحزن

روحزن ممبئی مہاراشٹر کے رہنے والے اردو فکشن نگار رحمان عباس کا چوتھا ناول ہے- یہ ناول ہندوستان میں 2018ء می‌ شایع ہوا اور اس کے بعد اس کے ہندی، انگریزی اور جرمن زبان میں تراجم ہوچُکے ہیں اور یہ ناول دنیا بھر کے فکشن نگاری پر تجزیہ و تبصرہ کرنے اور تنقید کرنے والوں کے ہاں داد و تحسین پا رہا ہے-

رحمان عباس کا فکشن نگاری کے باب میں اور خاص طور پر ناول کے باب میں نظریہ یہ ہے کہ یہ سماجی حقیقت نگاری کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے-

وہ اردو فکشن میں مابعد جدیدیت کے نام سے معروض اور خارجیت کو یکسر رد کرکے اُس کی جگہ موضوعی اور داخلیت کو زبردستی گھسیڑنے اور کہانی سے سماجی حقیقت نگاری کو دیس نکالا دینے کے سخت مخالف ہیں اور وہ مشرقی شعریات کے تنقیدی اصولوں کی روشنی میں فکشن نگاری کو جانچنے کے بھی سخت مخالف ہیں-

فکشن میں شعری تنقیدی اصولوں اور مابعدجدیدیت کے نام پر کہانی کو بے معنی تجرید کا گورکھ دھندا بناکر رکھ دینے والوں کے خلاف سماجی حقیقت نگاری کے فن کو فنکارانہ تخلیقی وفور سے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں رحمان عباس نے جیسے برتا،

ویسے ہی ایک زمانے تک ساجد رشید نے بھی برتا تھا- ہمارے ہاں حمید شاہد نے بھی مابعدجدیدیت کو اپنے فکشن اور نان فکشن میں بڑا ہی ٹف ٹائم دیا ہے- روحزن ایک ایسا ناول ہے جس میں کہانی مچھیروں کی ایک بستی سے شروع ہوتی ہے اور پھر یہ ممبئی میں چلی آتی ہے-

بظاہر اس ناول کا جو مکان ہے وہ ممبئی ہے لیکن یہ اُسی ممبئی کے اندر اپنا پھیلاؤ پوری دنیا کے مکان تک کرڈالا ہے- اور یہ ناول مابعد نائن الیون اور خاص طور پر ہندوستان میں ممبئی بم دھماکوں اور تاج ہوٹل پر نام نہاد جہادیوں کے حملے سے پہلے اور بعد کی صورت حال میں جو ہندوستان میں مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان سماجی رشتوں کا فیبرک /بُنَت کاری ہے اُس میں آنے والے بدلاؤ کو مسلم، ہندؤ، عیسائی، سکھ اور ایسے ہی مختلف نسلی-

لسانی ثقافتی برادریوں اور اُن سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان سماجی تفاعل /Social interaction میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بیان کرتا ہے- نخلستان کی تلاش جو اُن کا پہلا ناول ہے جس میں انھوں نے بیسویں صدی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات، بابری مسجد کے قضیے اور ممبئی میں ہوئے دہشت گرد بم دھماکوں کے تناظر میں لکھا تھا کی یہ ناول توسیع معلوم ہوتا ہے-

اس ناول کا موضوع صرف مہا سماجی زمان و مکان ہی نہیں ہے بلکہ اُس زمان و مکان میں رہنے والوں کے اپنے جو داخلی و خارجی زمان و مکان ہیں اُن کا بیان اور اُن کی زہنی و جسمانی مکانیت کی عکاسی بھی کی گئی ہے-

ہمیں اسرار اور مس جمیلہ کے کردار ملتے ہیں، اسرار کی اپنی ذہنی دنیا ہے اور فلیش بیک میں وہ بار بار اپنی بستی اور اُس میں بسے کرداروں کی طرف جاتا ہے- ممبا دیوی کے کردار کی ایک نئی تفہیم اس ناول میں ہمارے سامنے آتی ہے-

دہشت گردی، فرقہ واریت، نسل پرستی، مذھبی جنونیت اور ان سب کے نیولبرل اکنامی اور مہا سیاسی کلامیے سے جوڑ کے نتیجے میں عزاریل کا کردار جیسے بدلتا ہے اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان سب کے نتیجے میں جو بڑے پیمانے پر اموات ہوتی ہیں

تو سب مرنے والوں کی روحوں/آتماؤں کو بیک وقت برزخ میں لیجانے سے قاصر رہتا ہے اور ایسے ہی ایک خودکُش بمبار جہادی کی روح کیسے ہینڈ گرینڈ کے خول میں گرجاتی ہے اور دور پرے ایک نالے میں پڑی رہ جاتی ہے اور عزرائیل اُسے عالم برزخ میں لیجا نہیں پاتا-

ایک دیو پاس سے گزرتا ہے تو وہ اُسے اپنے ساتھ تبت لیجاتا ہے، خودکُش بمبار کو بامیان میں بدھا کے شکستہ مجسمے کے سامنے ایک پھول پر رکھتا ہے اور جب خودکُش جہادی کی روح آنکھ کھولتی ہے تو اُس کی نظر سامنے بامیان کے مجسمے پر پڑتی ہے تو وہ پریشانی میں بوکھلا کر شکستگی و اضمحلال میں کہتا ہے،’ایسا اللہ تو بامیان میں تھا….’

لطیف پیرائے میں طلسمی حقیقت نگاری کو کام میں لاتے ہوئے جس قدر خوبصورت طنز رحمان عباس اس ناول کے کئی مقامات پر جب کرتا ہے تو اُن کو داد دیے بغیر رہا نہیں جاسکتا- ایسے لڑکپن کی کچی پکی عمر میں میٹابولزم کے سبب خلیوں کے ٹوٹ پھوٹ جانے کے عمل کے دوران اپنے اندر جن جسمانی تبدیلیوں سے اسرار گزرتا ہے

اور اس دوران اپنے شوہر سے جنسی و ذہنی آسودگی سے محرومی کی شکار مس جمیلہ کے ساتھ اسرار کے تعلق سے دونوں کے درمیان جو تعلق جنم لیتا ہے، اُس کی نفسیاتی اور مادی تفسیر جیسے رحمان عباس نے کی ہے اور جس طرح سے اُس نے اسے جنسیت کے پھکڑ بیان سے بچاکر ادبی رنگ میں ڈھالا ہے،

اُس بھی اُن کے فن کے کمال کا اندازہ ہوتا ہے- اسرار ہو کہ اسلم دھماسکر، محمد علی ہو کہ قاسم ردلوی، مس جمیلہ ہو یا پھر وہ ‘شیعہ لڑکی’، تبلیغ باز اسرار کا چچا ہو کہ اُس کی ماں اور اُن دونوں کے درمیان باپ کے مرجانے کے بعد بننے والی جسمانی کیمسٹری اور اسرار کے چچا کی مذھبی ظاہر پرستی اور اُس کے اندر خواہشات کا جوار بھٹہ اور دونوں کے درمیان تضاد رحمان عباس کی ‘حس مزاح’ جگہ جگہ اپنا کمال دکھاتی ہے-

پروفیسر وارث علوی نے ‘2009’ میں ‘ایک ممنوعہ محبت کی کہانی’ میں اس ‘سینس آف ہیومر’ کا سُراغ لگایا تھا اور رحمان عباس کو ایک کڑے نقاد سے خوب داد ملی تھی- روحزن پر وارث علوی ہوتے تو شاید قلم ہی توڑ دیتے- اردو فکشن کے ہندوستان میں ایک اور بڑے نام سید محمد اشرف نے بالکل درست لکھا ہے کہ

ہر ایک صفحہ عمدا جزئیات کے تذکرے سے خالی نہیں ہے- یہ ناول ایک ایسا ناول ہے جس کا بیانیہ بظاہر سادہ اور عبارت بڑی آسان لگتی ہے بالکل ویسے جیسے کوئی انتہائی گہرا آدمی بظاہر بہت سہل نگار لگے لیکن اس کا حال ‘دل دریا سمندروں ڈونگھے…’ والا ہو-

شمیم حنفی نے بہت ہی مناسب بات لکھی ہے کہتے ہیں : “اس ناول مین گھُنا پَن ہے، میں نے آہستہ آہستہ پڑھا ہے’ اس گھُنے پن کے اندر چھپی دنیا کو دریافت کرنے کے لیے اس ناول کی ایک بار کی قرآت کافی نہیں ہے-

بلکہ بار بار کی قرآت لازم آتی ہے- مرد اور عورت کے رشتے کی جتنی جہات رحمان عباس کے اس ناول میں سموئی جاسکتی تھیں وہ سموئی گئی ہیں-

%d bloggers like this: