مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سردی، سرسوں،ساگ،سویرا ۔۔۔ رضوان ظفر گورمانی

جب ہم گاؤں میں رہتے تھے تو دودھ دہی مکھن لسی ساگ دیسی انڈے دیسی مرغیاں وافر تھیں دیہات کی خوراک سادہ مگر خالص ہوتی ہے شہر والے بلکہ اب تو دیہات والے بھی نوے کی دہائی کی خوراک کو مس کرتے ہیں ۔

آج گاؤں میں مٹی کے چولہوں کی جگہ گیس سیلنڈرز نے لے لی ہے تھوبی کی جگہ لوہے سٹیل کے توے آ گئے ہیں۔

پتھر اور ڈیزل انجن چکی کی جگہ بجلی کی چکیاں آ چکی ہیں ہر شام ہمارے گھر سے کئی کلومیٹر دور واقع ڈیزل چکی چلنے سے کو کو کی آواز کانوں کو بھلی لگتی تھی سنا ہے دایہ چوکھا کی وہ چکی بھی اب بند ہو چکی ہے ۔

گاؤں میں سردیوں اور گرمیوں کی خوراک مختلف ہوتی ہے سردیوں میں ناشتے میں چاولوں کی روٹی اور لسی مکھن ناشتے کا اہم جزو تھے.

دوپہر کو سکول سے واپس آتے تو منہ ہاتھ دھوئے بغیر بستہ پھیک کرمخبَا (کجھور کے پتوں سے بنایا گیا روٹیاں رکھنے والا ہاٹ پاٹ) میں ہاتھ ڈال کر چاولوں والی روٹی نکالتے چاول کی وہ روٹی جو تھوبی (پتھر کا توا) اور لکڑی کی آگ پہ بنائی گئی ہو زیادہ دیر پڑے رہنے سے بہت نرم ہو جاتی ہے اور روٹی کی پچھلی طرف آگ کی تپش سے کالا نشان پڑ جاتا ہے جو باسی روٹی پہ لیس دار ہو جاتا ہے اور ہاتھوں پہ چپک جاتا ہے.

روٹی ہاتھ میں پکڑتے اور مَٹی (لسی بنانے والا مٹی کا برتن) میں ہاتھ ڈال کر مکھن کے ہیڑے میں مکھن توڑ کر روٹی پہ لگاتے اور رول بنا کر کھا جاتے چاول کی گرم روٹی کے ساتھ کَکو (گڑ بناتے وقت شہد سے مشابہت رکھنے والا شیرا / آمیزہ) سے بھری کٹوری میں مکھن ڈال کر بھی شوق سے کھایا جاتا تھا۔

پھر رات کے کھانے میں توے پہ بنائی گئی چپاتی کے ساتھ سبزی وغیرہ کا سالن کھاتے گرمیوں میں خوراک مختلف ہوتی ْ

سکول جانے والے بچے گرمیوں میں چائے پراٹھوں سے ناشتہ کرتے بڑے تندور کی تازہ روٹی پر کٹے پیاز اور مکھن پر نمک مرچ چھڑک کر کھاتے ساتھ میں لسی پی جاتی دوپہر کو صبح کی بنائی ہوئی تندور کی روٹی کبھی گڑ کے ساتھ تو کبھی چٹنی کے ساتھ کھائی جاتی اور شام کو ٹینڈے گوشت , کھیر پیڑے توری وغیرہ کے سالن کے ساتھ تندور کی روٹی جو مزہ کرتی وہ آج چائنیز فوڈ اور اٹالین پیزے میں تصور کرنا بھی محال ہےْ

گاؤں میں گھر گھر سوہانجنا اگایا جاتا اور سردیوں میں ساگ اور سوہانجنا سوغات سمجھا جاتا تھا بڑے دیگچے میں بنایا گیا ساگ ہفتہ ہفتہ بھر کھایا جاتا مجال ہے جو کبھی ذائقے میں فرق آئے فریج خال خال ہوتے تھے۔

اس لیے گوشت کو ابال کر سکھایا جاتا خشک گوشت خشک ساگ خشک شلجم کا چنے دال میں پکایا گئے سالن کا تصور آج بھی منہ میں پانی لے آتا ہے ْ

گھر مہمان آتے تو گھر کی مرغیوں میں سے جو ہاتھ میں آتی پکڑ کر ذبح کی جاتی یقین جانیں تب یہ طرح طرح کے مصالحے نہیں ہوتے تھے ٹماٹر بھی کبھی کبھار سالن میں ڈالے جاتے سادہ نمک مرچ مصالحے میں بنی دیسی مرغی کے سالن میں ایسی شیریں ہوتی کہ آج کئی طرح کی کوششوں کے بعد بھی ویسا ذائقہ نہیں مل پایا ْ

میں کھانوں پہ محنت کرنے کا عادی ہوں یہ سب مجھے میری چچی سے ملا ہے میں نے آج تک جتنے کھانے کھائے ہیں مجھے امی اور چچی کے ہاتھ کے کھانوں کا ذائقہ کبھی نہیں ملا جوائنٹ فیملی تھی ہم کزنز شام کو دیکھتے کہ کون سی چچی نے پسندیدہ چیز بنائی ہے بس سالن کے تبادلے کے لیے پہنچ جاتے جس دن چچی کے ہاتھ کا سالن ملتا میری عید ہو جاتی ْ

میری اک چچی خشک ساگ اور سوہانجنا ایسا مزے کا بناتی ہے کہ میں باقاعدہ ان سے سیکھتا رہا ہوں اور دوسری چچی کا ہر سالن مزے میں اپنی مثال آپ ہوتا ۔

گھر میں چاچو عابد کے مہمان آتے گھر سے تھوڑا دور واقع ڈیرے پہ کھانا لے جاتے وقت میں دعا کرتا کہ کاش مہمان کھانا چھوڑ جائیں اور میں کھا سکوں اچھا پھر میری یہ چچی بہت نرم دل خاتون ہیں ریاکاری اور منافقت ان میں بالکل بھی نہیں.

ہم کزنز ان کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے کبھی چاچو کے شوز اٹھا کر لے جاتے کبھی ان کے سوٹ پہ ہاتھ صاف کر جاتے ان کے کچن میں جا کر مرضی سے کھانا نکال کر کھا جاتے۔

انہوں نے کبھی نہیں روکا ہم بدتمیزی کرتے نقصان کرتے ان کے پیسوں میں سے ڈنڈی مارتے میں ان میں ممتا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔

کبھی شکایت نہیں کرتیں پھر ہم شہر آ گئے گھر قریب قریب ہی سہی مگر الگ ہو گئے ہم بڑے ہو گئے آنا جانا کم ہو گیا لیکن ان کے بنائے کھانے مجھے آج بھی یاد آتے ہیں۔

شاید چچی یہ جانتی ہیں اس لیے اکثر و پیشتر سالن بھجواتی رہتی ہیں چچی اکثر خیرات کا پروگرام بناتی ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ خیرات کسی پکوان سے نہیں خود بنائیں کل انہوں نے اپنے ہاتھ کا آلو گوشت بنا کر بھجوایا گھر میں مٹن اور آلو بنے تھے۔

آریز کھانا کھا کر اٹھا تھا اور میں کھانے بیٹھنے لگا تھا کہ چچی کے گھر سے آلو گوشت آ گیا میں نے خوشی کا اظہار کیا آریز نے کہا مجھے بھی چکھائیں آپ یقین کریں گے حالانکہ آریز کھانا کھا چکا تھا مگر اس نے میرے ساتھ بیٹھ کر تب تک کھایا جب تک سالن ختم نہیں ہو گیا اور آج میرے ساتھ جا کر دیسی مرغی لایا ہے کہ اب جا کر چچی سے بنواتے ہیں اور آپ ان سے سیکھ کے آؤ پھر ہم بھی ایسا ہی سالن بنائیں گے۔

بس بیٹھے بیٹھے بچپن یاد آ گیا سوچا آپ کے ساتھ یادیں تازہ کر لوں آپ لوگوں کا بچپن بھی ایسا مزے کا تھا نہ؟


نوٹ : بلاگ میں لگی تصاویر آج کے پلاؤ , تین دن پہلے خود بنائے گئے ساگ اور چاول کی روٹی اور اس سے بھی پچھلے ہفتے بنائے گئے سوہانجنے کی ہیں۔

%d bloggers like this: