مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقبوضہ جموں و کشمیر:سیاسی رہنما 100دنوں سے لگاتار قید میں

مین اسٹریم سیاسی لیڈران کو قید کر دینے سے کشمیر میں سیاسی بحران پیدا ہوا ہے اور آج 100 ایام کے بعد بھی جاری ہے۔

سرینگر:پانچ اگست  دوہزار انیس کو جموں و کشمیر کے خصوصی تشخص کے خاتمے کی ساتھ ہی مرکزی سرکار نے وادی کے سرکردہ علیحدگی پسند رہنماوں کے ساتھ ساتھ تمام تر بھارت نواز سیاستدانوں کو بھی قید کردیا۔

مین اسٹریم سیاسی لیڈران کو قید کر دینے سے کشمیر میں سیاسی بحران پیدا ہوا ہے اور آج 100 ایام کے بعد بھی جاری ہے۔

سیاسی رہنما 100دنوں سے لگاتار قید میںمین اسٹریم سیاسی قیدیوں میں سابق وزرائے اعلی عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی اور سرینگر سے موجودہ رکن پارلیمان اور تین بار وزیر اعلی رہنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، علیحدگی پسند سیاست سے مین اسٹریم سیاست میں قدم رکھنے والے سجاد غنی لون، سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل وغیرہ شامل ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کشمیر میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے ان سیاسی لیڈران کی گرفتار عمل میں لائی گئی۔ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق پانچ اگست سے جہاں کشمیر کو ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کرکے لوگوں کی نقل و حرکت پر کئی ہفتوں تک پابندیاں عائد کی گئیں، وہیں اگست کے مہینے میں پولیس نے سینکڑوں مقامی نوجوانوں کو گرفتار کرکے بیرون ریاستوں کے جیلوں میں منتقل کیا اور آج بھی ان جیلوں میں بدستور اسیر ہیں۔

انتظامیہ نے سرینگر کے ڈل جھیل کے کنارے پر واقع سنتور ہوٹل کو سب جیل قرار دے کر 80 کے قریب مین اسٹریم سیاسی لیڈران کو وہاں نظر بند کر دیا جو آج بھی جاری ہے۔

حکومت نے ان قیدیوں میں تین سابق اسمبلی ممبران بشمول پی ڈی پی کے نور محمد، یاور میر اور گارنگریس کے شعیب نبی لون کو دو مہینے کے بعد اس شرط پر رہا کیا کہ وہ امن و امان میں رخنہ نہ ڈالیں۔

سابق وزرا اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو سرکار نے بالترتیب چشمہ شاہی اور ہری نواس میں قید کیا ہوا ہے ، جہاں انکے قریبی رشتہ داروں کو ہی ان سے ملنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔وہیں انتظامیہ نے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فارق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)عائد کرکے انہیں گپکار میں واقع انکی رہائش گاہ ہی میں قید کر دیا ہے۔

ان سیاست دانوں کی رہائش گاہوں میں سیکورٹی کا سخت پہرہ ہے اور کسی بھی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

پانچ اگست کو انکی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکار ہی انکے داروغہ بن گئے۔کشمیر میں پابندیوں کی وجہ سے ان مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے انکے لیڈران کو قید رکھنے کے خلاف کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم انکے ترجمانوں نے اخباروں کے ذریعے انکی رہائی کا مطالبہ کیا۔

مرکزی سرکار کی جانب سے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور دفعہ 35اے کی منسوخی کے بعد جہاں گورنر انتظامیہ کی جانب سے سخت ترین بندشوں کا نفاذ عمل میں لایا گیا وہیں مواصلاتی نظام کی معطلی کے علاوہ مین اسٹریم و علیحدگی پسند رہنمائوں کو بھی 4اور 5اگست کی درمیانی شب سے ہی قید میں رکھا ہے۔

%d bloggers like this: