اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچپن کی یادیں ،کھوجک پاس اور شیلا باغ

ڈاکٹر سید مزمل حسین


بچپن میں دیکھی گئی پاکستانی پانچ روپے کے نوٹ پر کھوجک ٹنل کی تصویر کا دھندلا سا عکس اب بھی دماغ کے کسی کونے میں محفوظ ہے. شوق سیاحت کا آغاز ہوا تو ملک کے دیگر دور دراز کے تاریخی مقامات کی طرح کھوجک ٹنل اور شیلا باغ ریلوے سٹیشن بھی لسٹ میں درج کر لیے۔ 

اللہ بھلا کرے مکرم ترین خان اور کراس روٹ کلب کا کہ 2018 میں عالمی یوم سیاحت منانے کے لیے زیارت بلوچستان کا انتخاب کیا اور سینکڑوں سیاح بلوچستان کے بارے خوف و خطر کا منفی پراپیگنڈہ رد کرنے عازم بلوچستان ہوئے.

27 ستمبر کو قائد اعظم ریزیڈنسی زیارت میں تقریب منعقد ہوئی بعد ازاں سیاح بلوچستان کے مختلف علاقوں کی سیاحت کے لیے روانہ ہوگۓ. ٹیم وسیب ایکسپلورر نے اپنے میزبان سنگت رائیڈرز بلوچستان کے ہمراہ کوئٹہ کا رخ کیا، 27 ستمبر کی رات اعجاز سملانی بھائیکے ہاں قیام کیا جہاں سنگت رائیڈرز نے مہمان سیاحوں کے لیے روایتی کھانوں سے ضیافت کا اہتمام کیا.

اگلے روز جمعتہ المبارک 28 ستمبر کو اپنے دیرنہ خواب کی تکمیل کے لیۓ شیلا باغ ریلوے سٹیشن، کھوجک ٹنل اور پاک افغان چمن بارڈر کے لیے بذریعہ موٹر بائیک روانہ ہوۓ۔ اس سفر میں سنگت رائیڈرز سے محترم محمود خان، حنیف سومرو، محمد عاصم اور عبد الحمید جبکہ وسیب ایکسپلورر سے راقم الحروف ڈاکٹر سید مزمل حسین، انجینیئر محمد علی اور انجینیئر نوید حیدر شامل تھے. تقریبا صبح دس بجے سفر کا آغاز کیا اور مختلف مقامات پر تصویریں بناتے تقریبا 2 بجے شیلا باغ ریلوے اسٹیشن پہنچے. شیلا باغ ریلوے سٹیشن کوئٹہ چمن روڈ، قومی شاہراہ این 25 پر کوئٹہ سے تقریبا 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے.

کھوجک ریلوے ٹنل کی تعمیر1891ء میں مکمل ہوئ، اسکی لمبائ تقریبا 4 کلومیٹر ہے۔ اس وقت یہ دنیا کی چوتھی بڑی سرنگ تھی اور پاکستان میں سب سے طویل ریلوے ٹنل ہے۔ سبی کوئٹہ چمن ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ 58_1857 میں ہوا جسکو مزید آگے قندھار تک لیجانا تھا. اس وقت برطانوی حکومت کو بولان پاس کے راستے انڈیا میں روس کی فوجی مداخلت کے خدشات تھے، 1850 کی دہائ کے اوائل میں سبی کے قریب کچھ روسی باشندوں کی قبریں ملیں جس سے یہ خدشہ ہوا کہ روسی جاسوس ان علاقوں میں خفیہ کاروائیوں میں ملوث ہیں. لہذا قندھار تک بذریعہ ریلوے لائن اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔

برطانوی فوج نے 1876ء میں کوئٹہ پر قبضہ کیا اور قندھار سٹیٹ ریلوے بنائ جسکا مقصد افغانستان بلوچستان اور سندھ کو جوڑنا تھا، اس سلسلہ میں 1879ء میں قندھار تک ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع ہوا لیکن 1888ء میں یہ پراجیکٹ منسوخ کر کے ریلوے لائن کو صرف چمن تک محدود کر دیا گیا جسکو چمن ایکسٹینشن ریلوے کا نام دیا گیا۔ چمن تک پہنچنے میں کھوجک پاس سب سے بڑی رکاوٹ تھی لہذا کھوجک پاس میں سرنگ کھودی گئ جسکو کھوجک ٹنل کا نام دیا گیا۔

کھوجک پاس خواجہ ارمان نامی پہاڑی سلسلہ میں واقع ہے. کھوجک ٹنل شیلا باغ اور سانزلہ قصبوں کے درمیان ہے. شیلا باغ ریلوے سٹیشن کی سطح سمندر سے اونچائی تقریبا 5394 فٹ ہے. کوئٹہ تا چمن زمین خشک و بنجر ہے اور مختلف علاقوں کے نام انکی ظاہری صورت کے انتہائ متضاد ہیں مثلاً گلستان میں پھول نہیں، قلعہ عبد اللہ میں قلعہ نہیں، شیلا باغ میں باغ نہیں اور چمن میں پھلوں کے کھیت نہیں. البتہ افغانستان سے چمن کے راستہ پھل کثیر تعداد میں برآمد ہوتے ہیں. 1947ء سے قبل افغانستان سے پھلوں سے لدی ہوئی ٹرین چمن کے راستہ انڈیا کے دور دراز مقامات کلکتہ و مدراس تک جاتی تھی جس میں برف لگا کر پھلوں کو محفوظ کیا جاتا تھا۔

کھوجک ٹنل کی تعمیر کا آغاز 14 اپریل 1888ء کو ہوا اور پہلے سٹیم انجن نے 2 ستمبر 1891ء کو ٹنل عبور کی. سرنگ کی تعمیر کے لیے کثیر تعداد میں مختلف علاقوں سے مزدور بلواۓ گۓ جن میں ہرات، سیستان، قندھار، غزنی، کابل، جلال آباد، سوات، بنوں، کافرستان، کشمیر، تبت، ہزارہ، پنجاب مکران اور عرب شامل تھے. انکے علاوہ سکھ بڑھئ اور بنگال سے بھٹہ خشت مزدور آۓ۔ برطانیہ کے علاقہ ویلز سے 65 تجربہ کار کان کن لاۓ گۓ جو کہ سیورن ٹنل کی تعمیر میں شامل تھے، یہ ریلوے ٹنل انگلینڈ اور ویلز کو بذریعہ ریلوے لائن ملاتی ہے۔ ہزاروں مزدوروں کے لیے روز پینے کا 80 ٹن پانی بذریہ ریل شیلا باغ تک لایا جاتا. کھوجک پاس کی ٹھنڈی ہوا سے سینکڑوں مزدور نمونیا کا شکار ہو کر جاں بحق ہوۓ جبکہ 91-1890 میں ٹائیفائیڈ سے 4 ماہ میں تقریبا 800 مزدوروں کی موت واقع ہوئی۔

سرنگ کی کھدائ دونوں اطراف سے شروع ہوئی  اور کسی غلطی کی بنا پر دونوں اطراف درمیان میں نہیں ملیں اور انچارج انجینیئر نے اس شرمندگی کی وجہ سے خود کشی کرلی۔ دوسری کاوش میں اس غلطی کو دور کر لیا گیا اور دونوں اطراف کی سرنگ آپس میں مل گئیں، لیکن درمیان میں ایک ابھار رہ گیا جہاں ایک آٹو میٹک گھنٹی نصب کی گئ ہے. جیسے ہی ٹرین اس مقام سے گزرتی ہے گھنٹی بج جاتی ہے اور ڈرائیور کو علم ہو جاتا ہے کہ آدھی سرنگ عبور کر چکا ہے. کھوجک پاس کے بعد ڈیورنڈ لائن سے کچھ پہلے چمن تک ریلوے لائن بچھائی  گئی. چمن ریلوے سٹیشن افغانستان بارڈر سے پہلے پاکستان کا آخری ریلوے سٹیشن ہے۔

کھوجک ٹنل پر ہم نے خوب تصاویر بنائیں. شیلا باغ ریلوے سٹیشن کی جانب سے ٹنل کے داخلہ پر قلعہ نما ستون اسکو ایک خوبصورت شکل دیتے ہیں۔ کوئٹہ جانیوالے سیاح ایک بار کھوجک ٹنل کا ضرور دورہ کریں اور ماضی کے اس شاہکار عجوبہ کا بغور مشاہدہ کریں. ہماری اگلی منزل چمن بارڈر تھی، کھوجک پاس کو بائیک پر عبور کرنا بھی خوب محظوظ کن رہا۔ اس سفر کی تفصیلات و تصاویر بھی جلد پیش کریں گے۔

تصاویر:
ڈاکٹر سید مزمل حسین
انجینیر محمد علی


نوٹ:
یہ آرٹیکل لکھتے وقت اویس مغل صاحب کے دسمبر 2006 میں شائع ہونیوالے انگریزی مضمون کھوجک ٹنل سے استفادہ کیا گیا ہے۔

%d bloggers like this: