اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مختلف ممالک میں بیواؤں کیساتھ کیسابرتاؤ کیا جاتا ہے؟

عام اور خاص کی توجہ مبذول کرانے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے23 جون کو بیوہ خواتین کاعالمی دن قرار دیا۔

دنیا بھر میں تقریباً 25 کروڑ 85 لاکھ بیوہ خواتین موجود ہیں۔ شوہر کی تدفین اور سوگ کی روایتی رسومات میں بیوائوں کو ذلت آمیز طریقے سے شامل کرنے کا رجحان دنیا کے کچھ ممالک میں آج بھی پایا جاتا ہے۔

دنیا میں کہیں بیوہ کو اُس کے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا تو کہیں انہیں وہ پانی پینے پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے ان کے خاوند کی لاش کو دھویا گیا ہوتا ہے اور کہیں خواتین کے سرکے بال مونڈ دیئے جاتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اُن کے میل ملاپ کو بھی  نہایت محدود کردیا جاتاہے، اُن کی خوراک کم اور مخصوص کر دی جاتی ہے اور انہیں نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ ممالک میں انہیں جادوگری کے ساتھ بھی منسلک کیا جا تا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تنزانیہ میں سینکڑوں عمر رسیدہ بیوہ خواتین کو جادوگری کے الزام میں قتل بھی کیا جا چکا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق چند ممالک میں بیواؤں کو کھانے کے وقت ساتھ نہیں بٹھایا جاتا، انہیں غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے سے منع کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ ان کو ایسی رسومات میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے جو تذلیل کا باعث اور خطرناک ہوتی ہیں۔

مختلف ممالک میں بیواؤں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک

افریقہ:

افریقہ کے ملک گھانا میں اکثر غریب ترین بیوائیں ہوتی ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف برداشت کرتی ہیں۔ حالانکہ ملک میں قانون سازی کے ذریعے بیوہ عورتوں کی تذلیل اور ان کے لیے کی جانے والی نوحہ خوانی کے خاتمے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کچھ بیوہ خواتین کو جان بوجھ کر اچھی خوراک سے محروم رکھا جاتا ہے یا وہ اس سے بھی بدتر حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔

مختلف ممالک میں بیواؤں کیساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟
یہاں ایسی رسومات بھی ہیں جہاں بیوہ عورتوں کو ایک سوپ پینے کے لیے کہا جاتا ہے جس میں ان کے مردہ شوہر کے بال اور ناخن شامل ہوتے ہیں۔

شمالی گھانا میں بیواؤں اور یتیموں کے لیے تحریک چلانے والے ایک فلاحی ادارے کی ڈائریکٹر فاتی عبدالائی کا کہنا ہے کہ’مردہ شوہر کو جس پانی سے غسل دیا جاتا ہے وہ پانی بعد میں اُس کی بیوہ کو پلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ‘

میڈیا رپورٹس کے مطابق چند بیوائیں پیسے دے کر ان ذلت آمیز رسومات سے فرار کا راستہ تلاش کر لیتی ہیں جبکہ غربت میں رہنے والی زیادہ تر خواتین ایسا نہیں کر پاتیں۔

بنگلہ دیش:

بنگلہ دیش کی تاریخ دان اور ناول نگار، چتریتا بینرجی کے مطابق چند عشروں پہلے تک مغربی بنگال میں ہندو برادریوں میں اعلیٰ ذات کی بیواؤں سے اپنے شوہروں کی موت پر نوحہ خوانی اور پچھتانے کی توقع کی جاتی تھی۔

مختلف ممالک میں بیواؤں کیساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟
چتریتا کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش میں بیواؤں کو مچھلی، گوشت، انڈے، پیاز، لہسن کھانے سے منع کیا جاتا تھا۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن پر ان کی پرورش کی جاتی تھی اور پھر اچانک یہ ان سے مکمل طور پر چھین لی جاتی تھیں۔‘

’اس کا بنیادی مقصد ان کو غذائیت سے محروم رکھنا ہوتا ہے گویا بیوہ کی غلطی ہے، اس نے گناہ کیا ہے، اسے توبہ کرنا چاہیے۔ اس سے کھانا چھین کر یہ حاصل کیا جاتا تھا۔‘

امریکا:

واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک مصنف اور سابق پیسٹری شیف لیزا کولب نے بتایا کہ انہوں نے اپنے شوہر ایرک کو 19 ماہ کی شادی میں پہاڑ پر چلنے والے ایک حادثے میں کھو دیا۔ اس وقت اُن دونوں کی عمر صرف 34 برس تھی۔

ن کا کہنا ہے کہ ’جب آپ اپنے شریک حیات کے ساتھ اکٹھے کھانا پکاتے ہیں، اکٹھے کھاتے ہیں اور ایک ساتھ رات کو کھانے پر جاتے ہیں پھر جب آپ یہ سب کھو دیتے ہیں تو یہ تنہائی کی ایک ایسی شکل ہے جس میں خالی باورچی خانے اور خالی میز کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

کینیا:
کینیا کے کچھ غریب اور دیہی علاقوں میں آج بھی شوہروں کے مرنے کے بعد عورتوں کو نام نہاد پاکیزگی کے نام پر اجنبیوں کے ساتھ ہم بستری پر مجبور کیا جاتا ہے، تاکہ ان کو ناپاکی سے دور کیا جاسکے۔ یہ رسم تین روز تک جاری رہتی ہے لیکن کینیا میں عورتیں اب اس فرسودہ مہم کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔

بھارت:

بھارت میں شوہر کے مرنے کے بعد اُس کی بیوہ کو پاک کرنے کے لیے ’ستی‘ کیا جاتا ہے یعنی شوہر کے ساتھ اُن کو بھی زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شوہر کے مرنے کے بعد ستی کی رسم تک بیوائیں کچھ کھا پی نہیں سکتیں۔


شوہر کی چتا کو آگ لگانے کے بعد اُس میں اس کی بیوہ کو بھی ڈال دیا جاتا ہے، جو خاتون چتا میں سے نکل کر بھاگ جائے وہ ناپاک ہوجاتی ہے اور اُس سے بائیکاٹ کرلیا جاتا ہے جبکہ جو زندہ جل کر مر جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اگر عورت ستی نہیں ہوتی تو بیوہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی نہیں کر سکتی، اُسے ہمیشہ سادہ لباس میں رہنا ہوتاہے اور اُسے منحوس سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ اور کسی خوشی کے موقع پر اُسے شامل نہیں کیا جاتا۔

اگر باپ کے مرنے پر ماں ستی ہو جائے تو چھوٹی عمر میں لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ افسوس ناک واقعہ بھی ہوتا ہے کہ چھوٹی عمر میں شادی ہوئی اور اگر لڑکا مر گیا تو لڑکی بیوہ ہو جاتی ہے اور تاعمر اس کی دوسری شادی نہیں ہو سکتی۔

بیواؤں کا عالمی دن:

مختلف معاشروں میں رہنے والی بیوہ خواتین کی حالت زار پر توجہ کی ناکامی ایک عمومی طرز عمل ہے ۔جس کی جانب عام اور خاص کی توجہ مبذول کرانے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے23 جون کو بیوہ خواتین کاعالمی دن قرار دیا۔

2011 میں پہلی بار یہ دن دنیا بھر میں منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد بیوہ خواتین کو معاشرے میں نمایاں کرنااور انہیں بہتر طور پر زندہ رہنے کے متوازی مواقع مہیا کرنا ہیں۔

پاکستان میں بیواؤں کی تعداد:

رپورٹ کے اعداد و شمار کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس وقت بیوہ خواتین کی دوسری بڑی تعداد جنوب ایشیاء کے خطے میں موجود ہے جو عالمی تعداد کا 22.40 فیصد ہے۔

جنوب ایشیاء کی7 فیصد اور دنیا کی ڈیڑھ فیصدبیوہ خواتین پاکستان میں آباد ہیں۔ لومبا فائوندڈیشن کے مطابق پاکستان اس وقت بیوہ خواتین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں 10 ویں نمبر پر ہےاور ملک میں اُن کی تعداد کا اندازہ 40 لاکھ 50 ہزار سے زائد ہے۔

%d bloggers like this: