مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا کی معروف شخصیت نے مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، فلمساز جامی کاانکشاف

معروف فلمساز جامی نے اپنے ٹوئٹر پرمزید لکھا ہے کہ آج تک ان میں اتنی ہمت نہیں بن پائی ہے کہ وہ اس شخص کا نام لے سکیں۔
عہد حاضر کے معروف  فلم ساز جامی آزاد نے جنسی ہراسانی کے خلاف دنیا بھر میں چلنے والی ’می ٹو‘ مہم کی حمایت کرتےہوئے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ کئی سال قبل انہیں بھی پاکستانی میڈیا کے ایک با اثر شخصیت نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔  
جامی آزاد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ ’می ٹو‘ مہم کی شدت سے حمایت اسی لیے کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے شخص کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔

معروف فلمساز کا کہناہے کہ اس بات کو 13 سال گزر گئے ہیں اور وہ اب بھی اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ انہوں نے ’اس شخص کی آنکھیں کیوں نہیں نکال دیں‘۔

واضح رہے کہ جامی آزاد نے متعدد مقبول فلموں میں کام کیا ہے، جن میں ’مور‘، ’زندہ بھاگ‘ اور ’O21‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے گانوں کی ویڈیوز بھی بنائی ہیں جن میں سٹرنگز اور فیوژن بینڈز کے علاوہ عاطف اسلم، علی عظمت اور حدیقہ کیانی ایسے نامور گلوکاروں کے گانے شامل ہیں۔ 

جامی آزاد نے کہا کہ ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والا شخص ان کا قریبی دوست تھا، جس کے لیے وہ کام کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا ’اسی لیے مجھے سمجھ نہیں آیا یا مجھے یقین ہی نہیں ہوا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میں نے اپنے کچھ قریبی دوستوں کو بتایا لیکن کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ میں نے انہیں اس شخص کا نام بھی بتایا لیکن سب نے سمجھا کہ میں کوئی مسخرہ ہوں۔‘
فلمساز جامی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انہوں نے چھ مہینے کراچی کے آغا خان اسپتال میں گزارے اور پھر کچھ مہینوں کے لیے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’مذکورہ شخص میرے والد کی تدفین پر بھی آیا تھا اور اپنے والد کی وفات پر رونے کے بجائے میں اپنے ہی گھر میں چھپا ہوا تھا، اور اپنی والدہ کو کہہ رہا تھا کہ اس شخص کو اندر آنے سے روکیں۔‘

جامی نے اپنے ٹوئٹر پرمزید لکھا ہے کہ آج تک ان میں اتنی ہمت نہیں بن پائی ہے کہ وہ اس شخص کا نام لے سکیں۔

انہوں نے مزید لکھاکہ ’یہ بہت مشکل ہے، میں جانتا ہوں میرے اپنے دوست ہی میرا مذاق اڑائیں گے۔ ہم سب دیسی ایسا کرتے ہیں۔‘

حال ہی میں جنسی ہراس کے الزام پر لاہور کے ایک کالج میں ایک پروفیسر کی خودکشی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے جامی نے لکھا کہ ایسے ایک واقعے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر متاثرہ شخص جھوٹا ہے۔ ’مجھے اس بات پر غصہ ہے کہ لوگ متاثرین کو اور اس مہم کو نشانہ بنا رہے ہیں اسی لیے آج میں 13 سال بعد یہ کہنے کے لیے یہاں آیا ہوں کہ 99.99 فیصد متاثرہ افراد ہمیشہ سچ بول رہے ہوتے ہیں۔‘

%d bloggers like this: