اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاولپور سے جُڑی ثریا شہاب مرحومہ سے وابستہ ایک یاد

یہ تصویر بہاولپور کی سماجی شخصیت صحافی اور ریڈیو بہاولپور کے ڈرامہ نگار جناب قادر مصطفےٰ خان مرحوم نے اپنے کیمرے سے اُتاری

گلزیب خاکوانی


ثریا شہاب اُن دنوں جرمنی کے ریڈیائی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی اردو سروس سے منسلک تھیں۔اُنکا پہلا ناول “ سفر جاری ہے “ کراچی پاکستان کے ایک پبلشر نے بڑی دھوم دھام سے شایع کیا۔اس ناول کی کی پہلی تقریبِ رونمائی کراچی اور بعد ازاں لاہور میں ہوئی۔

عمرعلی خان بلوچ سے اُنکا لاہور ہی میں رابطہ ہوا ۔اُن دنوں وہ خواتین سے متعلق ایک سماجی تنظیم کے روحِ رواں تھے۔تاہم انہی کی دعوت پر ملتان میں اس کتاب کی رونمائی کے لیے تیار ہو گئیں ۔

اُسی زمانے میں چولستان کے معروف لوک گلوکار فقیرا بھگت مرحوم کا بہت چرچا تھا۔اور ثریا شہاب نے جرمنی میں اُنکا ایک ریکارڈ سُنا تھا ۔صوفی ازم کی طرف تو وہ پہلے سے مائل تھیں اور اپنی اس روحانی وابستگی کے پیشِ نظر وہ جب بھی مُلک لوٹیں اُنہوں نے سائیں اختر ، پٹھانڑے خان ،النڑ فقیر،سائیں ظہور ، اور بیشمار فنکاروں کے انٹرویو سمیت اُنکے گیت ریکارڈ کیے اور ڈوئچے ویلے کی اردو سروس میں پیش کیے۔


عمر علی خان بلوچ مرحوم نے اُن سے وعدہ کیا تھا
کہ وہ بہاولپور میں اُنکی اور فقیرا بھگت کی ملاقات کا اہتمام کریں گے۔لہٰذا اس سلسلے میں انیس سو چھیانوے کی ایک شام بہاولپورآرٹس کونسل کے زیرِاہتمام اُنکی کتاب کی پذیرائی کی تقریب رکھی گئی۔

تقریب کی صدارت معروف مصنف اللہ میگھ دے ایسے ناول کے لکھاری طارق محمود نے کی تب وہ کمشنر بہاولپور تھے۔اور اس تقریب کے شُرکا میں علم وادب سے تعلق رکھنے والے بیشمار حضرات موجود تھے۔

خاکسار نے نظامت کے فرائض سنبھالےاور سب نے آکر ثریا شہاب کی شخصیت اور خدمات پر تعریفی کلمات کہے مگر وہ سب باتوں سے بے نیاز آخری نشست پر براجمان فقیرابھگت کو دیکھے جارہی تھیں۔اُنہیں فکر تھی کہ وہ گرمی میں چولستان سے یہاں آیا ہے کسی نے اُس سے پانی پوچھا۔

مجھے کئی بار بلُا کر پوچھا گیا کہ فقیرا بھگت کا خیال رکھا جارہا ہے یا نہیں۔

آرٹس کونسل والوں سے کہیں کہ اُنکے کھانے پینے کا بندوبست کریں۔یہ تقریب ختم ہوئی تو انہوں نے فقیرا بھگت سے خوب باتیں کیں۔کچھ گانے بھی ریکارڈ کیے۔اور کچھ عرصہ بعد بہت عزت اور چاہ کیساتھ فقیر آ بھگت مرحوم کو جرمنی بھی بُلایا گیا۔


آج سے کچھ دن پہلے یہ فن کار نواز ہستی۔پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ خبرنامہ کے سُنہری دور کی سُنہری آواز اسلام آباد میں ایک طویل عرصہ تک بیماری اور کسمپُرسی کے بعد خالق حقیقی سے جاملی۔

آج ٹوئٹر پر اُنکی ساتھی نیوزکاسٹرماہ پارہ صفدر کی تعزیتی تحریر نے دل کو دبوچ لیا ۔انہوں نے لکھا کہ ثریا شہاب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر حکومتی اداروں سے کوئی کہے کہ پاکستان کی مایہ ناز نیوز کاسٹر اب نہیں رہی ۔کم از کم وزارت ِاطلاعات نشریات کو کوئی بتادے ۔کوئی پیغام۔کوئی تعزیتی چٹھی،؟کوئی اعتراف ؟؟

%d bloggers like this: