عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 19، 2024 کو آئی ایم ایف نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر اسٹینڈنگ بائی ارینجمنٹ – ایس بی اے پروگرام کے تحت پاکستان کو قرض کی ادائیگی کو بہتر بنانے کے لیے 3 ارب ڈالر قرض کی دوسری قسط کو منظور کرنے کے لیے دوسرے اور آخری جائزے پر ہوئی بات چیت کے مکمل ہونے پر عملے کی سطح پر معاہدے ( اسٹاف لیول ایگریمنٹ- ایس ایل اے) کی منظوری کا اعلان کیے جانے کی پریس ریلیز جاری کی –
اسی روز وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی – اس اجلاس میں ایس ایل اے کے تحت طے پانی والی شرائط پر عمل درآمد شروع کرنے کے لیے چند فیصلے لے لیے گئے:
**پاکستان ائر لائن – پی آئی اے بشمول اس کے جملہ منقولہ و غیر منقولہ اثاثوں اور تمام ہوائی اڈوں کی نجکاری کرنے کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ائر ہولڈنگز کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا- اس کا سی او پی آئی آئی اے کے سی ای او عامر حیات کو مقرر کردیا گیا-
** وفاقی وزیر خزانہ کو حکم دیا گیا کہ وہ وزرات توانائی کے پاکستان پٹرولیم ڈویژن کو ہدایت جاری کریں کہ صنعتوں کے لیے بجلی فراہم کرنے والے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی روکنے کے لیے سدرن سوئی گیس اور ایس این جی پی ایل کو کہیں کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر منتخب سیکٹر کو گیس کی فراہمی لسٹ سے کیپٹو پاور پلانٹس کو خارج کردیں – اور دونوں سرکاری سرپرستی میں چلنے والی گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں کو کہیں کہ گیس کے ڈومیسٹک صارفین کے لیے گیس ٹیرف گیارہ سو روپے سے بڑھاکر 2700 روپے کردیں –
22 مارچ 2024ء کو پٹرولیم ڈویژن نے یہ دونوں اقدامات اٹھا لیے –
سب سے پہلے ذرا اس ایس بی اے پروگرام کو سمجھ لیں – آئی ایم ایف کی آفیشل ویب سائٹ کہتی ہے کہ ایس بی اے پروگرام آئی ایم ایف کی جانب سے فوری قرض کی سہولت کا ایک ایسا پروگرام ہے جو قلیل مدت کے لیے ان حکومتوں کو دیا جاتا ہے جن کے پاس بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کے مطلوبہ ذخائر نہیں ہوتے- اور ان کی کریڈٹ ریٹنگ عالمی کریڈٹ ریٹنگز نے منفی کی ہوتی ہے جس کے سبب انہیں نہ تو کوئی عالمی مالیاتی ادارہ یا ملک قرض دینے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی غیر ملکی کمرشل بینک انھیں قرضہ فراہم کرنے پر تیار ہوتا ہے – ایسا ملک بین الاقوامی مارکیٹ میں سکوک بانڈز کے بدلے بھی قرض حاصل نہیں کر پاتا –
ایس بی اے قرض پروگرام عالمی سرمایہ دارانہ منڈی میں انتہائی سخت بلکہ انتہائی ظالمانہ شرائط پر مبنی پروگرام ہوتا ہے اور دنیا کا کوئی ملک اس قدر ظالمانہ پروگرام سے ہر صورت گریز کرتا ہے –
پاکستان آئی ایم ایف سے طویل المدت قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کے فائنل مرحلے میں تھا جب تحریک عدم اعتماد آگئی اور اس فائنل مرحلے پر پھر سے پی ڈی ایم کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی قیادت میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوئے ، شرائط طے پا گئیں اور اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری کے قریب فریقین پہنچ گئے تھے –
اس دوران وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو ان کے قائد نواز شریف نے ایک ہفتے کے لیے لندن بلایا – وہاں نواز شریف نے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کا حکم صادر فرمایا- اسحاق ڈار اس ہفتے کے دوران پاکستان کے بڑے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں روزانہ آئی ایم ایف سے طویل المدت پروگرام کی توسیع کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کی تبلیغ کرتے رہے کہ اس کے تحت جو شرائط طے ہورہی ہیں ان سے پاکستان کے عوام نا قابل برداشت مصائب کا شکار ہوجائیں گے جبکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ اسحاق ڈار سرمایہ داروں کے ایک بہت بڑے سیکشن کی ڈالر گردی ، صنعتی سیکٹر کو سستی بجلی کی فراہمی اور اس سے آگے انھیں اربوں روپے کی مزید بجلی مد میں سبسڈی کو روکے جانے کے سخت خلاف تھے – وہ اس سیکشن کے سرپرست بن کر وزیر خزانہ بن کر آئے اور انھوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری سے پہلے آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط پوری کرنے کے مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا –
ستمبر 2021ء سے جون 2022ء تک ان کے بیانات ، تقریریں اور پریس کانفرنسز کی ٹائم لائن میرے سامنے ہے جن کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا طویل المدت قرض پروگرام شروع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے – پاکستان یہ 6 ارب ڈالر تو چین، سعودی عرب ، یو اے ای ، قطر سے حاصل کرنے گا اور ان ممالک سے 12 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضے رول اوور کرالے گا – جبکہ مزید 6 ارب ڈالر وہ غیر ملکی بینکوں سے قرض اور سکوک بانڈز بیچ کر حاصل کرلے گا-
اس دوران اسحاق ڈار نے سرکاری ڈالر- روپیہ شرح تبادلہ کو مصنوعی طور پر مارکیٹ ریٹ سے کم رکھا – 200 ارب روپے کی بجلی کی مد میں سبسڈی ٹیکسٹائل سیکٹر کو دے ڈالی –
ڈالر ریٹ مصنوعی طور پر برقرار رکھنے کی اس پالیسی کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے – بیرون ملک تارکین وطن کی ترسیلات زر میں 5 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی – اور اس دوران ہنڈی اور ڈالر کی لانڈرنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا-
اسحاق ڈار اس دوران مسلسل دوست ممالک سے قرضے رول اوور اور آئی ایم ایف کے متبادل بیرونی کمرشل بینکوں اور سکوک بانڈز سے مطلوبہ ڈالرز آنے کی کہانی سناتے رہے –
پھر پتا چلا کہ چین سمیت تمام دوست ممالک نے ان کو صاف بتا دیا کہ جب تک آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں کریں گے ، عالمی کریڈٹ ریٹنگز سے ریٹنگ پلس نہیں لیکر آئیں گے قرض نہیں ملے گا-
اسحاق ڈار نے اس دوران بھی مزید کئی ماہ مقامی بینکوں سے بے پناہ قرض اٹھاکر حکومتی اخراجات پورا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا –
اور یوں پاکستان دیوالیہ ہونے کے کنارے پہنچ گیا اور کوئی راہ فرار جب نہ بچی تو اسحاق ڈار نے اس مصیبت کو گلے لگایا جس سے کہیں کم مصیبت وہ تھی جس میں مفتاح اسماعیل اور اس سے پہلے حفیظ شیخ اور شوکت ترین پاکستان کو ڈالنے جا رہے تھے – ایس بی اے پروگرام کو قبول کیا –
ستم ظریفی یہ تھی کہ اسحاق ڈار نے اپنی غلطی ماننے کی بجائے اسے بھی اپنا کارنامہ بتایا –
شہباز شریف تو اب بھی کہتے ہیں کہ ان کی 16 ماہ کی حکومت نے ایس بی اے پروگرام لیکر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا تھا- اور ان کے سب اتحادی بھی اسے کارنامہ بتا رہے تھے –
پاکستان نے 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کے دوران تاریخ کا سب سے بدترین افراط زر دیکھا اور اس پورے عرصے کے دوران انھوں نے حکومتی اخراجات میں کوئی کمی تو کیا کرنا تھی الٹا 26 فیصد اخراجات اپنے ہی پیش کردہ بجٹ میں مقرر کردہ حدود سے زیادہ خرچ کیے اور آخری دنوں میں سارا بوجھ بالواسطہ ٹیکسز میں بھاری اضافے کرکے عام آدمی پر ڈالے رکھا –
ایس بی اے پروگرام کے فائنل جائزے کے دوران انھوں نے انتہائی بدترین شرائط کو مان کر ایک ارب 40 کروڑ ڈالر لینے کے لیے ایس ایل اے کیا ہے اور اس ایس ایل اے کی شرائط پہلے ایس ایل اور بورڈ کی منظوری سے کہیں زیادہ بدتر ہیں-
آنے والے دن کتنے بدترین ہوسکتے ہیں؟ اس کا اندازہ کارپوریٹ سیکٹر کے منافعوں پر سپر ٹیکس کی مخالفت کرنے والے میڈیا گروپ ڈان میڈیا گروپ اور بزنس ریکارڈر کے اداریوں میں آئی ایم ایف غصہ میں بھرے تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے دونوں کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو اپنی شرائط میں سے ایک شرط یہ رکھنی چاہیے تھی کہ وہ سخت ترین مالیاتی اور سٹرکچرل اصلاحات سے متاثرہ عام آدمی کے لیے سوشل سیفٹی نیٹ کو پہلے وسیع کرے گا پھر نجکاری اور ٹیرف بڑھانے کی طرف جائے گا-
یہ عام آدمی کے درد میں نہیں بلکہ ان کے سخت ترین ردعمل کے خوف میں سامنے آنے والا ردعمل ہے –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر